تم جدا ہوئے ، پر بہار آئی ہے ---- محمد اظہر نذیر

الف عین

لائبریرین
اب ایک ایک کر کے
تم جدا ہو، مگر بہار آئی
بے کسی، وہ بھی بے قرار آئی
///بحر درست، لیکن دونوں مصرعوں میں تعلق؟

گل بھی گلشن بھی لگ رہا ویراں
بے خودی، کر کے غم سنگھار آئی
/// "غم سنگھار" اچھی ترکیب ہے، اگر یہ ترکیب ہے تو، لیکن پہلے مصرع میں ’ہے‘ کی کمی ہے، اس کے علاوہ گلشن تو ویراں ہو سکتا ہے، لیکن گل؟، یوں کر دو
گلستاں بھی ہے جیسے ویراں سا

عاشقی نے تجھے تلاش کیا
شاعری ہر جگہ پکار آئی
اوزان درست، لیکن وہی بات، دونوں مصرعوں میں تعلق؟

شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
دلکشی، کھو چکی نکھار آئی
///اوزان درست۔ لیکن یہاں ’آئی‘ کا فاعل کون ہے؟ واضح نہیں۔ الفاظ کی نشست شعر کی تفہیم نہیں کر رہی۔

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
روشنی تجھ پہ ہی نثار آئی
’نثار آئ‘ محاورہ غلط ہے، ’نثار کر آئی‘ ہو سکتا ہے، یا یہاں ’نثار ہوئی‘ کے معنی میں لگتا ہے اس صورت میں بھی غلط ہے۔

شب قبائے جمیل اپنی کو
خامشی سے کہیں اُتار آئی
///اس شعر کے بارے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ الفاظ کی نشست خراب ہے، ’اپنی قبا کو‘ کی جگہ ’قبا اپنی کو‘ کا استعمال گڑبڑ کر رہا ہے۔

منتظر زندگی جو تھی اظہر
آخری حد بھی اب گزار آئی
///مفہوم واضح نہیں، زندگی کیا گزار آئی؟
 
اُستادِ گرامی،
بلاشک درست تجزیہ ہے آپ کا، ایک موقع اور عنایت کیجیے
کچھ بہتری ہوئی کیا ؟
مشکور
اظہر


تم جدا ہو، مگر بہار آئی
دل کشی بیچ کر نکھار آئی

گلستاں بھی ہے جیسے ویراں سا
بے خودی کر کے غم سنگھار آئی

عاشقی نے تجھے تلاش کیا
دل لگی کیسی بے قرار آئی

شام پھیلی مگر سہانی نہ تھی
یوں کہ دلہن بنا سنگھار آئی

چاندنی کل جو تھی بہت ہی حسین
روشنی کر جتن ہزار آئی

شب قبا اپنی دلنشیں جیسی
خامشی سے کہیں اُتار آئی

منتظر دید کی گھڑی اظہر
وقت جیسے کہیں پہ ہار آئی
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اظہر، اب کم از کم ’آئ‘ کی ردیف کچھ بہتر ہے۔سوائے ’نکھار‘ کے، جو مذکر ہے۔ مفاہیم اب بھی دور از کار ہی نظر آتے ہیں۔
 
Top