مہ جبین
محفلین
تم خوش جمال ہو تو ثبوتِ جمال دو
میں تِیرہ بخت ہوں مِری قسمت اُجال دو
ایسی خوشی نہ دو جو ہو باعثِ ملال
جو وجہِ سر خوشی ہو مجھے وہ ملال دو
جس میں تمہارے حسن کے سب خدو خال ہوں
ایسا کوئی سخن ، کوئی ایسا خیال دو
آنکھوں کو سونپ دو غمِ دوراں کی سب کشش
یہ جبر ، اختیار کے سانچے میں ڈھال دو
جامِ جہاں نما سے مجھے کچھ غرض نہیں
میں مشتِ خاک ہوں مجھے جامِ سفال دو
اُس روئے خوش جمال سے مَس ہوکے آئی ہو
اے دلربا ہواؤ ! نویدِ وصال دو
سچا سخن سناتا ہے اس دور میں ایاز
اس بے ادب کو بزمِ سخن سے نکال دو
ایاز صدیقی