تم طاغوت کے معنی نہیں جانتیں؟

محمداحمد

لائبریرین
تم طاغوت کے معنی نہیں جانتیں؟
احمد حاطب صدیقی​


گزشتہ سے پیوستہ ہفتے کے دوران میں ملک کی پچانوے فی صد خواتین نے تو نہیں مگر ان کی اچھی خاصی تعداد نے ایک ہی سوال اس عاجز کو ارسال کردیا۔ ایک عزیزہ نے تو غالباً رومن رسم الخط میں اُردو لکھنے والوں سے انتقام لینے کی خاطر نستعلیق حروف میں یہ انگریزی بھی لکھ بھیجی کہ ’’پلیز ٹیل می واٹ اِز طاغوت؟‘‘

یہ موضوع توفضیلۃ الشیخ خلیل الرحمٰن صاحب چشتی کا ہے کہ جنھوں نے اِس موضوع پر ایک رسالہ بھی تحریر فرما رکھا ہے، مگر چشتی صاحب چوں کہ گزشتہ چند ماہ سے چند طاغوتی ممالک (کینیڈا، امریکہ وغیرہ)کا دورہ کرنے میں مصروف تھے تاکہ ’بچشمۂ خود‘ جانچ سکیں کہ ’ہاؤ اِز طاغوت ناؤ؟‘ چناں چہ اب یہ موضوع ہم ہی نبیڑیں گے کہ ہم اس وقت کسی دورے میں مصروف نہیں، فرصت سے لیٹے ہوئے ہیں۔

’طاغوت‘ کا لفظ، ممکن ہے کچھ لوگوں کے لیے اجنبی ہو، مگر اس لفظ کے چند رشتے دار الفاظ اُردو میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں مثلاً ’طُغیان‘ جس کے معنی ہیں زیادتی اور ظلم۔ جیسا کہ اپنے دل کی زیادتی اور ظلم کا بے دھیانی میں شکار ہوجانے پر حضرتِ ناظمؔ نالاں ہوئے:

تھا کسے دھیان کہ یہ ظلم یہ طغیاں ہو گا
دل سا جو دوست ہے وہ جان کا خواہاں ہو گا

’طغیان‘ کا لفظی مطلب ہے متعین حد سے تجاوز کرجانا یا حد سے گزر جانا۔ سرکشی اوربغاوت۔ پانی کا موجیں مارنا۔ سیلاب۔ دریا کا چڑھ جانا۔ بے قابو ہونا۔ اسی سے اہلِ فارس نے اسمِ صفت ’طُغیانی‘بنا لیا۔ اس صفت سے مولانا الطاف حسین حالیؔ نے فائدہ اُٹھایا اور فرمایا:

دریا کو اپنی موج کی طُغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

سرکش، نافرمان اور باغی شخص کو ’طاغی‘ کہا جاتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں ’طاغی‘ کا مطلب باغی اور سرکش کے علاوہ مفسد، سرغنہ اور بپھرا ہوا بھی درج ہے۔ جب کہ نوراللغات نے ’طاغی‘ کو سرکش ہونے کے ساتھ ساتھ مالک کا نافرمان بھی بتایا ہے۔ طاغ یا طاغی کی جمع طاغون اور طاغین ہے۔ حالاں کہ عموماً طاغی صاحبان ایک نیام، ایک کچھار یا ایک جنگل میں جمع نہیں ہوپاتے، باہم جنگ پر اُتر آتے ہیں۔

اب آئیے ذرا ان الفاظ کی بنیادیں کھوجی جائیں۔ بنیادی حروف ’ط، غ، و‘ ہیں۔ ان سے بننے والے الفاظ میں سے طغیٰ، اطغیٰ، یطغیٰ، تطغو، طاغیہ اور طغیان وغیرہ سے قارئینِ قرآن یقیناً مانوس ہوں گے۔ سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 43میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو یوں ہوتا ہے: ’’اِذْھَباَ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغیٰ‘‘۔ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ، وہ سرکشی میں حد سے گزر گیا ہے۔ حد سے گزر جانے والے طاغی کو ’کثیر الطغیان‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عربی میں ’طَغَی الماء‘ کا مطلب ہے پانی حد سے گزر گیا یعنی کناروں سے باہر آگیا۔ ’طَغَی البحر‘ کے معنی ہیں سمندر میں تلاطم پیداہو گیا یا طوفان آگیا۔ اور’طَغَی الموج‘ کا مطلب ہے موج میں طغیانی آگئی۔

’طاغوت‘ کے معنی ہیں: ہر حد سے تجاوز کر جانے والا۔ بدی اور شر کا سرغنہ۔ اسی وجہ سے شیطان اور معبودانِ باطل کا شمار بھی طاغوت میںکیا گیا کہ شیطان بھی اپنی حد سے تجاوز کرکے باہر نکل گیا تھا اور جن سرکشوں نے اللہ کے بندوں سے اپنی بندگی کروائی وہ بھی اپنی حد پھاند گئے۔ لفظ ’طاغوت‘ اسمِ مبالغہ ہے یعنی ’بہت بڑا سرکش، انتہائی سرکش، حد سے زیادہ سرکش‘۔ اس کی جمع طواغ اور طواغیت ہے۔

گویا جو بھی حدودِ بندگی سے باہر نکل گیا وہ ’طاغوت‘ ہے۔ جس نے اللہ کے سامنے سرکشی دکھائی وہ طاغوت ہے، جس نے زمین پرذاتی غلبہ حاصل کرنے اور اپنا قہر ڈھانے کی کوشش کی وہ ’طاغوت‘ ہے، اور جس نے اللہ کی حاکمیت کے مقابلے میں اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ ’طاغوت ‘ہے۔ خواہ وہ کوئی فرد ہو، کوئی قوم ہو، کوئی ادارہ ہو، کوئی عدالت ہو، کوئی نظام ہو، کوئی نظریہ ہو یا کوئی ہدف۔ جولوگ طاغوت کے آگے سر جھکا دیتے ہیں وہ طاغوت کے بندے ہیں، چاہے بخوشی سرجھکائیں یا کسی دباؤ میں آکر۔

آیت الکرسی کے بعد والی آیت یعنی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد ہوتا ہے:

’’جو شخص طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘

یعنی اللہ پر ایمان لانے کے لیے طاغوت کی برتری کا انکار کرنا ضروری ہے کہ ’’لَا اِلٰہ‘‘۔ زمین پر خدا بن بیٹھنے والوں سے بغاوت، سرکشی اور اُن کو آقا ماننے سے انکار کردینا ہی اللہ پر ایمان کی طرف پہلا قدم ہے۔گویا توحید کا اقرار طاغوت کے انکار سے مشروط ہے۔

علامہ اقبالؔ نے ملک و ملت کے باغیوں اور سرکشوں کے لیے بھی ’طاغوت‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلکِ زُحل کی سیر کرتے ہوئے اقبالؔ نے اس فلک کو اُن ارواحِ رذیلہ کا مسکن قرار دیا جنھوں نے ملّت سے غداری کی اور اپنے چند ٹکوں کے فائدے کے لیے پوری قوم کو فروخت کردیا۔ اس غداری کے نتیجے میں قوم غلامی کی ایسی دلدل میںجا پھنسی کہ آج تک نکل نہیں پائی۔ اقبالؔ کہتے ہیں:

اندرونِ اُو دو طاغوتِ کہن
روحِ قومی کُشتہ از بہرِ دو تن
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن

پہلے شعر کا مطلب ہے کہ اس کے اندر (یعنی فلکِ زحل کے اندر) دو پرانے طاغوت ہیں، ان دو جسموں کی خاطر پوری قوم کی روح کا کُشتہ بناکر رکھ دیا گیا۔ بنگال میں میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور دکن میں میر صادق نے ٹیپو سلطان شہید سے۔ ان دونوں طواغیت نے ہمیں عالمی طاغوت کی غلامی کی زنجیروں میں اس طرح جکڑوا دیا کہ ہم اورہمارے حکمران زبان سے تو اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرتے ہیں مگر عمل سے طاغوت ہی کی بندگی کا اظہارکرتے ہیں۔ مثلاً اللہ سُود کو جڑ سے مٹانے کا اعلان کرتا ہے (البقرہ آیت:276) لیکن طاغوت کے حکم پر سُود اور شرحِ سُود میں دن دُونا رات چوگنا اضافہ کر کرکے اللہ کے حکم کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں اور تمام حدیں پار کرتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسولؐ سے جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ قوم کا رزق، روزگار اور ملک کی معیشت بھیانک تباہی کی آگ میں جھونک دی گئی ہے۔ اب صرف ساہوکار کا ’سود‘ہے، باقی سب کا زیاں۔ عالمی سودی نظام آج سب سے بڑا طاغوت ہے۔

طاغوت کی کتنی قِسمیں اور کیا کیا شکلیں ہیں؟ یہ جاننا ہو تو چشتی صاحب کی کتاب ’’طاغوت‘‘ کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ اس کتاب کا مطالعہ سب کو کرنا چاہیے، بالخصوص ملک کی پچانوے فی صد خواتین کو کہ اس بہانے ایک قرآنی اصطلاح سے آشنا ہوجانے کا موقع ملے گا۔

’طاغوت‘ کے تناظر میں خواتین کا خیال آیا تو ایک لطیفہ یاد آگیا۔ باپ نے اپنے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’بیٹیاں بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بہنوں کو تنگ نہ کیا کرو۔‘‘ اس پر بچے نے معصومیت سے سوال کیا کہ ’’ابو! جب بیٹیاں اتنی معصوم ہوتی ہیں تو اس قدر خطرناک اور خوفناک بیویاں کہاں سے آجاتی ہیں؟‘‘ صاحبو! سچ پوچھیے تو ایسی بیویاں بھی کسی طاغوت سے کم نہیں۔ اس قسم کی ساری بیبیاں اکٹھا ہوجائیں تو ایک طاغوتی طاقت بن جاتی ہیں۔ پھر بڑی معصومیت سے ایک ایک سے پوچھتی پھرتی ہیں کہ ’’واٹ اِز طاغوت؟‘‘

سنا ہے کہ موجوں کی طغیانی کے مارے ہوئے ساحل نے کسی سیپی سے طاغوت کے معنی پوچھے۔ سیپی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ساحل بپھر گیا: ’’تم طاغوت کے معنی نہیں جانتیں؟ جاہل کہیں کی! اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہی ہو؟ اِدھر دیکھو، میری طرف!‘‘

*******
 

La Alma

لائبریرین
کسی اصطلاح سے ناواقفیت جہالت کیسے ہو سکتی ہے۔ جہالت تو کسی شے کے،مطلق علم کا نہ ہونا ہے۔ یہ بات صرف لفظ “طاغوت“ پر ہی موقوف نہیں۔ بہت سے ایسے ثقیل، مشکل یا غیر زبان کے الفاظ ہوتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی گفتگو میں مستعمل نہیں ہوتے ۔ اس لیے اکثریت انکے مفہوم سے نا آشنا ہوتی ہے۔ جبکہ انکی جگہ اگر آسان مترادف استعمال کیے جائیں تو زیادہ تر لوگ ان کے متعلق جانکاری رکھتے ہیں۔
ان دانشوروں سے یہ پوچھنا چاہیےتھا کہ اگر کوئی شخص طاغوتی نظام کے بارے میں لاعلم ہو، لیکن وہ غیر اللہ ، کفر، جھوٹ، باطل ، یا ظلم کے نظام وغیرہ سے متعلق آگاہی رکھتا ہو تو کیا پھر بھی وہ جاہل کہلائے گا!!
اس سارے واقعے سے کم از کم اتنا تو علم ہوا کہ ملک کی پچانوے فیصد خواتین جاہل ہیں کیونکہ وہ طاغوت کا مطلب نہیں جانتیں۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگر مردوں سے کیے گئے سروے کے نتائج بھی سامنے آ جاتے، تاکہ انکی علمیت کاصحیح تناسب بھی معلوم ہو جاتا!! 🙂

سنا ہے کہ موجوں کی طغیانی کے مارے ہوئے ساحل نے کسی سیپی سے طاغوت کے معنی پوچھے۔ سیپی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ساحل بپھر گیا: ’’تم طاغوت کے معنی نہیں جانتیں؟ جاہل کہیں کی! اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہی ہو؟ اِدھر دیکھو، میری طرف!‘‘
حالانکہ انہیں موجوں کی طغیانی نے اس سیپی کو بھی ساحل پہ لا کر پٹخا ہوتا ہے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ سوڈیم کلورائیڈ کے استعمال سے ناواقف خواتین، اپنے کھانوں میں نہ صرف نمک کا استعمال کرتی ہیں بلکہ اسکی مقدار کے کم یا زیادہ ہونے کے ثمرات سے بھی بخوبی آگاہ ہوتی ہیں۔ 🙂
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کسی اصطلاح سے ناواقفیت جہالت کیسے ہو سکتی ہے۔ جہالت تو کسی شے کے،مطلق علم کا نہ ہونا ہے۔ یہ بات صرف لفظ “طاغوت“ پر ہی موقوف نہیں۔ بہت سے ایسے ثقیل، مشکل یا غیر زبان کے الفاظ ہوتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی گفتگو میں مستعمل نہیں ہوتے ۔ اس لیے اکثریت انکے مفہوم سے نا آشنا ہوتی ہے۔ جبکہ انکی جگہ اگر آسان مترادف استعمال کیے جائیں تو زیادہ تر لوگ ان کے متعلق جانکاری رکھتے ہیں۔
ان دانشوروں سے یہ پوچھنا چاہیےتھا کہ اگر کوئی شخص طاغوتی نظام کے بارے میں لاعلم ہو، لیکن وہ غیر اللہ ، کفر، جھوٹ، باطل ، یا ظلم کے نظام وغیرہ سے متعلق آگاہی رکھتا ہو تو کیا پھر بھی وہ جاہل کہلائے گا!!
اس سارے واقعے سے کم از کم اتنا تو علم ہوا کہ ملک کی پچانوے فیصد خواتین جاہل ہیں کیونکہ وہ طاغوت کا مطلب نہیں جانتیں۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگر مردوں سے کیے گئے سروے کے نتائج بھی سامنے آ جاتے، تاکہ انکی علمیت کاصحیح تناسب بھی معلوم ہو جاتا!! 🙂


حالانکہ انہیں موجوں کی طغیانی نے اس سیپی کو بھی ساحل پہ لا کر پٹخا ہوتا ہے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ سوڈیم کلورائیڈ کے استعمال سے ناواقف خواتین، اپنے کھانوں میں نہ صرف نمک کا استعمال کرتی ہیں بلکہ اسکی مقدار کے کم یا زیادہ ہونے کے ثمرات سے بھی بخوبی آگاہ ہوتی ہیں۔ 🙂
موجوں کی طغیانی کے مارے ہوئے ساحل
میرے خیال میں ساحل کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ یہ تقریباً ہر بات میں طغیان یعنی حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ خاص بات کو جنرلائز کر دیتے ہیں اور جنرل بات کو خاص کر دیتے ہیں۔ اور وہ باتیں لے آتے ہیں جو آپ کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو۔
ایک عرصے سے یہ صاحب ایک طبقے پر مسلسل کتمانِ حق کا الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں تقریباً ہر پروگرام ، ہر نشست اور ہر لیکچر میں ۔ لیکن اب کی بار ان کی قسمت خراب تھی کہ بھڑوں (فیمنسٹوں )کے چھتے میں ہاتھ دے بیٹھا۔
اور ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نے ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کے خلاف جب سے بولا ہے اس پارٹی کے جوانوں کی توپوں کا رخ مسلسل اس کی طرف ہے۔ اوپر سے فیمنسٹوں، لبرلوں اور آزاد خیالوں کو یہ اس لیے نہیں بھاتا کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ساحل نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں ۔
اور اس پر سونے پہ سہاگا تو اس وقت ہوا کہ جب اس نے اپنے سوشل میڈیا واریئرز مخالفین کو یہ سنہرا موقع دے بیٹھا حالانکہ اسی متنازعہ پروگرام میں پاکستان کے سو فیصد والدوں کو اپنی بیٹیوں کا غاصب قرار دیا گیا لیکن اس پر کوئی شور نہ اٹھا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کسی اصطلاح سے ناواقفیت جہالت کیسے ہو سکتی ہے۔ جہالت تو کسی شے کے،مطلق علم کا نہ ہونا ہے۔ یہ بات صرف لفظ “طاغوت“ پر ہی موقوف نہیں۔ بہت سے ایسے ثقیل، مشکل یا غیر زبان کے الفاظ ہوتے ہیں جو ہماری روزمرہ کی گفتگو میں مستعمل نہیں ہوتے ۔ اس لیے اکثریت انکے مفہوم سے نا آشنا ہوتی ہے۔ جبکہ انکی جگہ اگر آسان مترادف استعمال کیے جائیں تو زیادہ تر لوگ ان کے متعلق جانکاری رکھتے ہیں۔
ان دانشوروں سے یہ پوچھنا چاہیےتھا کہ اگر کوئی شخص طاغوتی نظام کے بارے میں لاعلم ہو، لیکن وہ غیر اللہ ، کفر، جھوٹ، باطل ، یا ظلم کے نظام وغیرہ سے متعلق آگاہی رکھتا ہو تو کیا پھر بھی وہ جاہل کہلائے گا!!
آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے۔
اس سارے واقعے سے کم از کم اتنا تو علم ہوا کہ ملک کی پچانوے فیصد خواتین جاہل ہیں کیونکہ وہ طاغوت کا مطلب نہیں جانتیں۔ لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگر مردوں سے کیے گئے سروے کے نتائج بھی سامنے آ جاتے، تاکہ انکی علمیت کاصحیح تناسب بھی معلوم ہو جاتا!! 🙂
مردوں کے لئے انہوں نے 75 فیصد کا تناسب بتایا تھا۔
حالانکہ انہیں موجوں کی طغیانی نے اس سیپی کو بھی ساحل پہ لا کر پٹخا ہوتا ہے۔
یہ تو وہی بات ہوئی کہ سوڈیم کلورائیڈ کے استعمال سے ناواقف خواتین، اپنے کھانوں میں نہ صرف نمک کا استعمال کرتی ہیں بلکہ اسکی مقدار کے کم یا زیادہ ہونے کے ثمرات سے بھی بخوبی آگاہ ہوتی ہیں۔ 🙂
متفق!
 

محمداحمد

لائبریرین
ساحل عدیم دراصل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہماری عوام کو (خطاب اُس وقت بالخصوص خواتین سے تھا) اِدھر اُدھر کی ہر طرح کی معلومات ہوتی ہیں، لیکن وہ دین کو سیکھنے کی دانستہ کوشش نہیں کرتے۔ لیکن یہ بات وہ ڈھنگ سے کہہ نہیں سکے شاید اپنی جذباتی طبیعت کے باعث۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہمارے ہاں ٹی وی شوز کا مقصد اصلاح یا علم کا فروغ ہرگز نہیں ہوتا۔ انہیں تو بس اپنا ٹائم سلوٹ بھرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کنٹرو ورسی بھی ہو جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے کہ اس سے ان کو ویوز اور ریٹنگز ملتی ہیں۔

سنا یہی ہے کہ یہ پروگرام ریکارڈڈ تھا۔ اگر ٹی وی چینل والے چاہتے تو اس حصّے کو ایڈٹ کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے اسے ایڈٹ نہیں کیا۔ کیونکہ ان کی پالیسی کو یہی سوٹ کر تا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عاطف بھائی، میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں آپ فاضل منصنف سے رابطہ کرکے آگاہ کر سکتے ہیں، ممکن ہے کہ انہوں نے سہواً ایسا لکھا دیا ہو۔
فاضل مصنف اس سے پہلے بھی ایک ہی مادے کے دو مشتقات مین ایک کو عربی دورسے کو فارسی قرار دے کر چند روز میں عوامی فیڈ بیک پر رجوع فرما چکے ہیں ۔ سو شاید کچھ رد عمل آج جائے (اگر مادہ یہی ہو تو)۔ اگر مادہ ۔ ط غ و ۔ ہو تو بھی رد عمل کی توقع ہے کہ ان کے قارئین کا حلقہ کافی وسیع ہے (بہر حال کچھ اور بات سامنے آئے تو اچھا ہو گا۔)۔
 

La Alma

لائبریرین
فیمنسٹوں، لبرلوں اور آزاد خیالوں کو یہ اس لیے نہیں بھاتا کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ساحل نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں ۔

ہمارے ہاں ٹی وی شوز کا مقصد اصلاح یا علم کا فروغ ہرگز نہیں ہوتا۔ انہیں تو بس اپنا ٹائم سلوٹ بھرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کنٹرو ورسی بھی ہو جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے کہ اس سے ان کو ویوز اور ریٹنگز ملتی ہیں
ساحل عدیم کی آڈئینس زیادہ تر یوتھ اور پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے۔ دلیل اور منطق سے کام لیتے ہیں۔ اکثر معاملات میں انکی رائے معتدل ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی بے پرکی بھی اڑاتے ہیں اور پھر اسکو جسٹیفائی کرنے میں ہر منطق بھول جاتے ہیں۔
سوشل میڈیائی ٹرولنگ سے انکی سنجیدہ آڈئینس کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن مختلف ٹاک شوز میں اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور چند متنازعہ شخصیات کے ساتھ پروگرامز کر کے یہ اپنی کریڈیبیلٹی کو خود مشکوک بنا رہے ہیں۔ مذکورہ پروگرام میں بھی یہ جس شخصیت کے ساتھ مدعو تھے، ایک مخصوص طبقے کے ساتھ انکی زبان و بیان کی چاشنی سے سب آگاہ ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ لفظ کچھ دنوں سے نہ جانے کیوں نظر آ رہا ہے، کیا پاکستانی سیاست میں کچھ اس کا کسی نے ذکر کر دیا ہے!
 

جاسمن

لائبریرین
یہ لفظ کچھ دنوں سے نہ جانے کیوں نظر آ رہا ہے، کیا پاکستانی سیاست میں کچھ اس کا کسی نے ذکر کر دیا ہے!
ساحل عدیم صاحب (عوامی مقرر ہونے کے ساتھ اسلام سے متعلق لوگوں خاص کر نوجوانوں کی تربیت کرتے ہیں) نے سماء ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ ملک کی 95 فیصد خواتین جاہل اور اجڈ ہیں۔ پروگرام میں بیٹھے حاضرین میں سے ایک خاتون نے استفسار کیا تو انھوں نے عجیب سی توضیح دی کہ چونکہ اکثر خواتین ایک دینی اصطلاح "طاغوت" سے ناواقف ہیں سو وہ جاہل ہیں۔ وہ خاتون اس توہین آمیز ریمارک پہ ساحل صاحب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتی رہیں۔ ساتھ بیٹھے ڈرامہ نگار (جو خود بھی ایک ڈرامہ ہیں) خلیل الرحمٰن قمر نے خاتون کی مزید بے عزتی کی۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس پروگرام کی وجہ سے عوام کی اکثریت اب طاغوت سے واقف ہوئی ہے یا نہیں، طاغوت کے معانی سے ضرور واقف ہو گئی ہے۔ :)
 

علی وقار

محفلین
ساحل عدیم صاحب (عوامی مقرر ہونے کے ساتھ اسلام سے متعلق لوگوں خاص کر نوجوانوں کی تربیت کرتے ہیں) نے سماء ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا کہ ملک کی 95 فیصد خواتین جاہل اور اجڈ ہیں۔ پروگرام میں بیٹھے حاضرین میں سے ایک خاتون نے استفسار کیا تو انھوں نے عجیب سی توضیح دی کہ چونکہ اکثر خواتین ایک دینی اصطلاح "طاغوت" سے ناواقف ہیں سو وہ جاہل ہیں۔ وہ خاتون اس توہین آمیز ریمارک پہ ساحل صاحب سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتی رہیں۔ ساتھ بیٹھے ڈرامہ نگار (جو خود بھی ایک ڈرامہ ہیں) خلیل الرحمٰن قمر نے خاتون کی مزید بے عزتی کی۔
اگر ایسا ہے تو ساحل عدیم صاحب کو پہلے تو اپنی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔

میرے خیال میں موصوف عدیم ہاشمی مرحوم کے بیٹے ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
 
ہمارے ہاں ٹی وی شوز کا مقصد اصلاح یا علم کا فروغ ہرگز نہیں ہوتا۔ انہیں تو بس اپنا ٹائم سلوٹ بھرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی کنٹرو ورسی بھی ہو جائے تو ان کی چاندی ہو جاتی ہے کہ اس سے ان کو ویوز اور ریٹنگز ملتی ہیں۔

سنا یہی ہے کہ یہ پروگرام ریکارڈڈ تھا۔ اگر ٹی وی چینل والے چاہتے تو اس حصّے کو ایڈٹ کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے اسے ایڈٹ نہیں کیا۔ کیونکہ ان کی پالیسی کو یہی سوٹ کر تا ہے۔
آپ سارا ملبا میڈیا پر بلاوجہ ڈال رہے ہیں. ساحل عدیم اور خلیل الرحمٰن قمر جیسے کلاؤٹ چیسرز خود بھی ایسے ہی مواقع تلاش کرتے ہیں مشہوری کے لیے. میری سمجھ سے تو باہر ہے کہ یہ لوگ کس معیار کے تحت علم و حکمت کا سمندر سمجھے جاتے ہیں.
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
’طاغوت‘ کے تناظر میں خواتین کا خیال آیا تو ایک لطیفہ یاد آگیا۔ باپ نے اپنے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا: ’’بیٹیاں بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بہنوں کو تنگ نہ کیا کرو۔‘‘ اس پر بچے نے معصومیت سے سوال کیا کہ ’’ابو! جب بیٹیاں اتنی معصوم ہوتی ہیں تو اس قدر خطرناک اور خوفناک بیویاں کہاں سے آجاتی ہیں؟‘‘ صاحبو! سچ پوچھیے تو ایسی بیویاں بھی کسی طاغوت سے کم نہیں۔ اس قسم کی ساری بیبیاں اکٹھا ہوجائیں تو ایک طاغوتی طاقت بن جاتی ہیں۔ پھر بڑی معصومیت سے ایک ایک سے پوچھتی پھرتی ہیں کہ ’’واٹ اِز طاغوت؟‘‘
:) :) :)
 

سید رافع

محفلین
بنیادی حروف ’ط، غ، و‘ ہیں۔

اس حرف کا مادہ تو شاید۔۔ ط ۔غ۔ ی۔۔ ہے ۔۔۔

عاطف بھائی، میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں آپ فاضل مصنف سے رابطہ کرکے آگاہ کر سکتے ہیں، ممکن ہے کہ انہوں نے سہواً ایسا لکھا دیا ہو۔

اس کا اصل مادہ ط غ ي ہے اور قرآن کریم میں اسکی 8 ماخوذ اقسام 39 بار آئیں ہیں۔
 
Top