زاہد فاروقی
محفلین
کس منہہ سے تم کو‘‘منصفِ اعلیٰ‘‘ کوئی کہے
تم نے یزیدِ وقت کے ہاتھوں پہ کر کے بیعت
انصاف کا جنازہ نکالا ہے شہر سے
تم اور تمہارے جیسے یہ سارے ضمیر بیچنے والے ستم شعار
‘‘ملت کا افتخار، بے مثل بے وقار‘‘
کس منہہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم
یہ جان لو کہ اس کی سزا بھی سہوگے تُم
نشے میں حکمرانی کے تُم جو ہوئے ہوگُم
یہ عہد بھی ہے اپنے زمانے کی کربلا
ہر سمت انتشار ہے ہر سمت ابتلا
اب ہو چکی عوام کی ذلت کی انتہا
خوفِ خُدا رہا نہیں حاکم کو اِک ذرا
ہونے کو ختم اب ہے مظالم کا سلسلہ
نکلیں گے سرفروشوں کے سڑکوں پہ قافلے
اب دیکھنا تو ظلم کے ماروں کے حوصلے
یہ عہد بھی ضمیر فروشوں کا عہد ہے
آزاد چاپلوس ہیں اور عدل قید ہے
صیاد مطمئن ہے مقید ہے منصفی
اس کربلا میں حق کی سپاہ بے نوا سہی
حاکم کے ظلم و جور کی اب انتہا سہی
مُٹھی میں جابروں کی مقید صبا سہی
کہنے کو در بدر مری ہر التجا سہی
لیکن یہ سچ ہے تم ہی ہو طاقت یزید کی
حکمت تمہاری ساری ہے حکمت یزید کی
تم جیسوں نے ہی کی ہے اطاعت یزید کی
سیرت تمہاری شمر کی صورت یزید کی
قائم تمہارے دَم سے حکومت یزید کی
اقدام ہیں تمہارے شریعت یزید کی
تم لوگ کر رہے ہوجو بیعت یزید کی!
تم نے یزیدِ وقت کے ہاتھوں پہ کر کے بیعت
انصاف کا جنازہ نکالا ہے شہر سے
تم اور تمہارے جیسے یہ سارے ضمیر بیچنے والے ستم شعار
‘‘ملت کا افتخار، بے مثل بے وقار‘‘
کس منہہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم
یہ جان لو کہ اس کی سزا بھی سہوگے تُم
نشے میں حکمرانی کے تُم جو ہوئے ہوگُم
یہ عہد بھی ہے اپنے زمانے کی کربلا
ہر سمت انتشار ہے ہر سمت ابتلا
اب ہو چکی عوام کی ذلت کی انتہا
خوفِ خُدا رہا نہیں حاکم کو اِک ذرا
ہونے کو ختم اب ہے مظالم کا سلسلہ
نکلیں گے سرفروشوں کے سڑکوں پہ قافلے
اب دیکھنا تو ظلم کے ماروں کے حوصلے
یہ عہد بھی ضمیر فروشوں کا عہد ہے
آزاد چاپلوس ہیں اور عدل قید ہے
صیاد مطمئن ہے مقید ہے منصفی
اس کربلا میں حق کی سپاہ بے نوا سہی
حاکم کے ظلم و جور کی اب انتہا سہی
مُٹھی میں جابروں کی مقید صبا سہی
کہنے کو در بدر مری ہر التجا سہی
لیکن یہ سچ ہے تم ہی ہو طاقت یزید کی
حکمت تمہاری ساری ہے حکمت یزید کی
تم جیسوں نے ہی کی ہے اطاعت یزید کی
سیرت تمہاری شمر کی صورت یزید کی
قائم تمہارے دَم سے حکومت یزید کی
اقدام ہیں تمہارے شریعت یزید کی
تم لوگ کر رہے ہوجو بیعت یزید کی!