نوید اکرم
محفلین
تم نے غلط سنا تھا، خوشیوں کا در کھلے گا
اس عشق میں تو یارو! دکھ درد ہی ملے گا
وعدہ کیا ہے اس نے وہ شام کو ملے گی
آئے گی وہ گھڑی کب، سورج یہ کب ڈھلے گا؟
ہلتا نہیں ہے کیوں سر اثبات یا نفی میں
اس دل میں کیا ہے آخر، یہ راز کب کھلے گا؟
میں مانگتا ہوں اس کو ہر اک دعا میں رب سے
دریا نہ مل سکا تو ساگر ہی پھر ملے گا
جس عرش پر ہے بیٹھا بن کر خدا وہ ظالم
اے میرے ربِّ ارحم! وہ عرش کب ہلے گا؟
کچھ بھی نہیں کہے گا مردوں کو یہ زمانہ
عورت کا عمر ساری دھبّہ نہیں دھلے گا
دارالعمل میں آئے گا جب نوید اپنا
پانی ہے اس میں کتنا ، تب ہی پتہ چلے گا
اس عشق میں تو یارو! دکھ درد ہی ملے گا
وعدہ کیا ہے اس نے وہ شام کو ملے گی
آئے گی وہ گھڑی کب، سورج یہ کب ڈھلے گا؟
ہلتا نہیں ہے کیوں سر اثبات یا نفی میں
اس دل میں کیا ہے آخر، یہ راز کب کھلے گا؟
میں مانگتا ہوں اس کو ہر اک دعا میں رب سے
دریا نہ مل سکا تو ساگر ہی پھر ملے گا
جس عرش پر ہے بیٹھا بن کر خدا وہ ظالم
اے میرے ربِّ ارحم! وہ عرش کب ہلے گا؟
کچھ بھی نہیں کہے گا مردوں کو یہ زمانہ
عورت کا عمر ساری دھبّہ نہیں دھلے گا
دارالعمل میں آئے گا جب نوید اپنا
پانی ہے اس میں کتنا ، تب ہی پتہ چلے گا