حل کیا ہوگا۔ جو حل بھٹو کے آئین نے پیش کیا تھا پہلے قوم اسکے سنگین نتائج 1977 سے لیکر ابتک ہونے والی دھاندلی کی صورت میں تو بھگت لے۔بھیانک تصویرپیش کرنا شائد معمول ہے ان کا،بیجائے مایوسی پھیلانے کے کوئی قابل عمل حل پیش کیا جانا چاہیے ،
گرچہ حالات کتنے ہی برے ہیں،آخر کوئی تو حل ہوگا، اس پر بات ہونی چاہیے اب۔
ہمیں اگر اپنی شکل بھیانک نظر آئے تو کیا آئینہ قصوروار ہے؟ کالم نگار نے حل بھی تجویز کیا ہے غور فرمائیے گا۔بھیانک تصویرپیش کرنا شائد معمول ہے ان کا
حکومت کی تبدیلی حل نہیں ہے بلکہ آئین یا پورے نظام کی تبدیلی اصل حل ہے۔ہمیں اگر اپنی شکل بھیانک نظر آئے تو کیا آئینہ قصوروار ہے؟ کالم نگار نے حال بھی تجویز کیا ہے غور فرمائیے گا۔
نظام سے پہلے ناظم کا ٹھیک ہونا، باشعور ہونا اور دوراندیش ہونا لازم ہے۔ جو نظام کو پٹری پر ڈال سکے۔اس فرسودہ نظام کو یک لخت اکھاڑ کا نہیں پھینکا جا سکتا۔تاہم ایک تدریجی عمل سے اس کو مرمت کیا جاسکتا ہے بشرط کہ نیت صاف ہو۔حکومت کی تبدیلی حل نہیں ہے بلکہ آئین یا پورے نظام کی تبدیلی اصل حل ہے۔
کراچی میں بھی ایک بار مصطفیٰ کمال جیسا ناظم آیا تھا اور اسکے جاتے ہی کراچی ویسا کا ویسا ہوگیا جیسا انکے آنے سے پہلے تھا یعنی نظام نہیں بدلا صرف چہرہ بدلا اور وہ بھی کچھ عرصہ کیلئے۔ اس نظام کی مرمت نہیں ہو سکتی جسکی بنیادوں اور جڑوں میں کھوٹ بیٹھا ہو۔ بھٹو کے آئین کو میں پاکستان کا آئین نہیں مانتا کیونکہ جب سے یہ آئین یہا ں براجمان ہوا ہے تب ہی سے دھاندلی تواتر کیساتھ ہوئے چلے جا رہی ہے۔نظام سے پہلے ناظم کا ٹھیک ہونا، باشعور ہونا اور دوراندیش ہونا لازم ہے۔ جو نظام کو پٹری پر ڈال سکے۔اس فرسودہ نظام کو یک لخت اکھاڑ کا نہیں پھینکا جا سکتا۔تاہم ایک تدریجی عمل سے اس کو مرمت کیا جاسکتا ہے بشرط کہ نیت صاف ہو۔
یہ تو پھر ایسےہی ممکن ہے کہ جیسے کوئی آسمانی آفت نازل ہو یا زلزلہ آئے ساری بلند و بالا عمارات زمیں بوس ہو جائیں پھر نئے سرے سے بچے کچھے لوگ تعمیری سمت متعین کریں اور رفتہ رفتہ ترقی حاصل کریں۔ لیکن یہ کوئی قابلِ قبول یا قابلِ عمل نظر نہیں آتا۔کراچی میں بھی ایک بار مصطفیٰ کمال جیسا ناظم آیا تھا اور اسکے جاتے ہی کراچی ویسا کا ویسا ہوگیا جیسا انکے آنے سے پہلے تھا یعنی نظام نہیں بدلا صرف چہرہ بدلا اور وہ بھی کچھ عرصہ کیلئے۔ اس نظام کی مرمت نہیں ہو سکتی جسکی بنیادوں اور جڑوں میں کھوٹ بیٹھا ہو۔ بھٹو کے آئین کو میں پاکستان کا آئین نہیں مانتا کیونکہ جب سے یہ آئین یہا ں براجمان ہوا ہے تب ہی سے دھاندلی تواتر کیساتھ ہوئے چلے جا رہی ہے۔
یورپ اور جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے بعد متعدد شہروں میں کوئی عمارت کھڑی حالت میں باقی نہ بچی تھی۔ انکی معیشتیں تباہ حال ، لوگ مفلوج اور حکومتیں سامراج یعنی فاتح قوموں کی غلام تھی۔ ان سب رکاوٹوں، تکالیف اور مسائل کے باوجود آج کا جاپان اور جرمنی کہاں کھڑا ہے اور پاکستان کہاں؟یہ تو پھر ایسےہی ممکن ہے کہ جیسے کوئی آسمانی آفت نازل ہو یا زلزلہ آئے ساری بلند و بالا عمارات زمیں بوس ہو جائیں پھر نئے سرے سے بچے کچھے لوگ تعمیری سمت متعین کریں اور رفتہ رفتہ ترقی حاصل کریں۔ لیکن یہ کوئی قابلِ قبول یا قابلِ عمل نظر نہیں آتا۔
یعنی قراد مقاصد، لیکن وہ تو بھٹوصاحب سے بہت پہلے کی بات ہےحل کیا ہوگا۔ جو حل بھٹو کے آئین نے پیش کیا تھا پہلے قوم اسکے سنگین نتائج 1977 سے لیکر ابتک ہونے والی دھاندلی کی صورت میں تو بھگت لے۔
مجھے ٹیگ کی اطلاع نہیں ملی شاید ایسا اکثر ہوتا ہے۔
قرار داد مقاصد سے نقصان صرف یہاں کی اقلیتوں کو پہنچا تھا البتہ اکثریت پھر بھی محفوظ تھی جب تک یہاں بھٹو کا آئین نافذ نہیں کیا گیا جس کی بدولت دھاندلی اور کرپشن ایک رواج بن گئی۔ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ یہ آئین ہے جو اسقدر پیچیدہ ، متضاد اور ناقابل عمل ہے کہ الیکشن کمیشن والے بھی ٹھیک سے اسپر عمل نہیں کر پاتے۔ جیسے اسکی شک 62، 63 کا حال سب کے سامنے ہے۔ اوپر سے مشرف پر غداری کیس کہ اسنے یہ ڈھکوسلا آئین 2007 میں کیوں معطل کیا اس سے بھی بڑی مضحکہ خیز بات ہے جب اسی آئین کی 12 اکتوبر 1999 والی معطلی خود عدالت عظمیٰ نے "جائز" قرار دی تھی، 13 ویں اور 14 ویں آئینی ترامیم کے بعدیعنی قراد مقاصد، لیکن وہ تو بھٹوصاحب سے بہت پہلے کی بات ہے
پھر ہر جمعہ کے خطبہ میں تواتر کیساتھ مولوی صاحب کی وہی 14 سو سال پرانی اسلامی باتیں کیوں سنتے ہیں جب ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ اور شعور نہیں ہوتامجھے اور باقی سب کو بھی پتا ہے کہ ہم غلیظ معاشرے کے غلیظ اجزاء ہیں۔ ہمارا سارے کا سارا نظام کرپٹ ہے، بگڑا ہوا ہے، لیکن یہ باتیں بار بار اسپیکر پر بولنے کا کیا فائدہ اگر ہمارے پاس اس سب کو سمجھنے اور حل کرنے کا شعور ہی نہیں۔
پھر ہر جمعہ کے خطبہ میں تواتر کیساتھ مولوی صاحب کی وہی 14 سو سال پرانی اسلامی باتیں کیوں سنتے ہیں جب ان پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ اور شعور نہیں ہوتا
حسن نثار صاحب سے ہمارا یہی تو گلہ ہے کہ کچھ عمل کرنے کے لیے بتائیں۔ کہاں کہاں درد ہو رہا ہے، کیا کیا دکھ رہا ہے یہ نا بتائیں علاج کریں اور علاج کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو پھر علاج بتا ہی دیں، اور اگر علاج بتانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے تو پرہیز ہی بتا دیا کریں۔
یہ درد تو ساری قوم کے جسم میں ہو رہا ہے پوری قوم کہاں کہاں سے دُکھ رہی ہے، قوم کو احساس ہے کیوں کہ وہ تکلیف میں ہے۔
حسن نثار کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صرف ڈائیگنوز یعنی تشخیص کر سکتا ہے ایک کیمرے کی طرح۔ اب اگر اس پاکستانی معاشرے کی غیر جانبدار منظر کشی حسین و جمیل نہیں آرہی تو اسمیں حسن نثار یعنی کیمرے کا کیا قصور ہے؟ قصور تو فوٹوگرافر یعنی عوام کا ہےتشخیص ہوتی ہے لیباریٹری میں علاج کرتا ہے ڈاکٹر۔۔۔ مرض وہ بتا دیتے ہیں علاج آپ کروایئے جس ڈاکٹر (لیڈر) سے آپ نے کروانا ہے یا خود کرنا ہے
متفق ہی سمجھوں؟حسن نثار کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صرف ڈائیگنوز یعنی تشخیص کر سکتا ہے ایک کیمرے کی طرح۔ اب اگر اس پاکستانی معاشرے کی غیر جانبدار منظر کشی حسین و جمیل نہیں آرہی تو اسمیں حسن نثار یعنی کیمرے کا کیا قصور ہے؟ قصور تو فوٹوگرافر یعنی عوام کا ہے
آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھ لیں۔ میرے خیال میں آپ کافی سمجھ دار واقع ہو ئے ہیں (آپکے مراسلوں سے تو یہی گمان ہوتا ہے )متفق ہی سمجھوں؟
میں تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ریٹنگ " متفق" ہی سمجھوں۔آپ کو جو سمجھنا ہے سمجھ لیں۔ میرے خیال میں آپ کافی سمجھ دار واقع ہو ئے ہیں (آپکے مراسلوں سے تو یہی گمان ہوتا ہے )
تشخیص ہوتی ہے لیباریٹری میں علاج کرتا ہے ڈاکٹر۔۔۔ مرض وہ بتا دیتے ہیں علاج آپ کروایئے جس ڈاکٹر (لیڈر) سے آپ نے کروانا ہے یا خود کرنا ہے
حسن نثار کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صرف ڈائیگنوز یعنی تشخیص کر سکتا ہے ایک کیمرے کی طرح۔ اب اگر اس پاکستانی معاشرے کی غیر جانبدار منظر کشی حسین و جمیل نہیں آرہی تو اسمیں حسن نثار یعنی کیمرے کا کیا قصور ہے؟ قصور تو فوٹوگرافر یعنی عوام کا ہے
ارے جناب وہ ایک پروفیشنل فوٹوگرافر ہے اسے اسی کی منظر کشی کرنی ہے جہاں اسے کمائی ملے گی۔ اس کے علاوہ کسی جگہ کی منظر کشی کرنا ایسے فوٹو گرافر وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔حسن نثار کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صرف ڈائیگنوز یعنی تشخیص کر سکتا ہے ایک کیمرے کی طرح۔ اب اگر اس پاکستانی معاشرے کی غیر جانبدار منظر کشی حسین و جمیل نہیں آرہی تو اسمیں حسن نثار یعنی کیمرے کا کیا قصور ہے؟ قصور تو فوٹوگرافر یعنی عوام کا ہے