تنقید کے موتی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ارادہ ہے کہ اس دھاگے میں وقتاً فوقتاً اردو کے تنقیدی ادب سے چنیدہ کچھ ایسے شاہکار جملے یا پیراگراف پوسٹ کروں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں اور لکھاری کے لئے رہنما اصولوں کا کام دیتے ہیں ۔ اگر احباب بھی اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیں تو ان کے اقتباسات کا خیرمقدم کیا جائے گا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی کتاب "شعر شور انگیز" کے شروع میں علا مہ سیدعلی حیدرنظم طباطبائی کے حوالے سے مندرجہ ذیل قول نقل کیا ہے:
"(امام عبدالقاہر جرجانی نے "اسرار البلاغت" میں بیان کیا ہے کہ) الفاظ کی تقدیم و تاخیر، قصر و حصر،فصل و وصل ، ایجاز واطناب ، استعارہ و کنایہ سے کلام میں جو بلاغت پیدا ہوتی ہے وہ معانی میں پیدا ہوتی ہے۔ ترتيبِ الفاظ کا اثرمعانی پر پڑتا ہے ، الفاظ پر نہیں پڑتا۔ یعنی جس نے ترتیب دی ہے اُسی نے ان معانیِ بلیغ کو پیدا کیا ہے۔"


شاعر کے لئے یہ جملہ اپنے اندر ایک جہانِ معنی سمائے ہوئے ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میری نگاہ میں ادیب سائنس دانوں ، فلسفیوں ، اور فنکاروں کے اس قافلے کا ایک مسافر ہے جو انسانیت کے لئے ایک خوب سے خوب تر زندگی کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے۔ اور اس منزل کے حصول کے لیے عمر بھر ریاض کرتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سائنس داں عقل و منطق کا ، فلا سفر وجدان کا اور فنکار جمالیات کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ ان کے راستے چاہے جد ا ہوں لیکن ان کی منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ سب انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل کے مضمون "ادب تخلیقی چشمے اور فردا کے خواب" (مطبوعہ سہ ماہی "ترکش" کلکتہ ۔ اپریل تا جون ۲۰۰۴ء) سے اقتباس
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گوپی چند نارنگ:

"در اصل تنقید و تخلیق کے خانے اتنے الگ الگ نہیں جتنے سمجھے جاتے ہیں ۔ اچھی تنقید تخلیقی احساس کے بغیر ممکن نہیں ۔اسی طرح تخلیق وجود میں آتی ہی کسی نہ کی تنقیدی تصور کے تحت ہے۔ کوئی غزل گو ہے تو غزل کے معاملات کی آگہی یا کوئی فکشن نگار ہے تو فکشن کے معاملات کی آگہی ، خواہ اس کو شعوری احساس ہو یا لاشعوری ، ضروری ہے۔ پہلی منزل صاحبِ ذوق ہونا ہے جس میں طبیعت اور مزاج کو بھی دخل ہوتا ہے۔ نیز مطالعے اور تربیت کو بھی ۔ سخن فہمی کی منزل بعد میں آتی ہے۔ یہ نہ ہوتو تنقید گھاس کھودنے کا عمل ہے ۔ سخن فہمی سے مراد "ادب فہمی " بھی تو ہے ۔ یہ جتنی شاعری پرتنقید کے لیے ضروری ہے اتنی نثری ادب پرتنقید کے لیے ضروری ہے۔"

(" ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے مکالمہ": از گلزار جاوید ۔ رسالہ جدید ادب)
 
Top