ساحر تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم (انتخاب کلامِ ساحر لدھیانوی)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ناکامی

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا
غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا

وہی افسانے مری سمت رواں ہیں اب تک
وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک

وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز
وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں‌اب تک

وہی گیسو مری راتوں پہ ہیں بکھرے بکھرے
وہی آنکھیں مری جانب نگراں ہیں اب تک

کثرتِ غم بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوئی!
میرے بے چین خیالوں کو سکون مل نہ سکا

دل نے دنیا کے ہر اک درد کو اپنا تو لیا
مضمحل روح کو اندازِ جنوں مل نہ سکا

میری تخئیل کا شیرازۂ برہم ہے وہی
میرے بجھتے ہوئے احساس کا عالم ہے وہی

وہی بے جان ارادے وہی بے رنگ سوال
وہی بے روح کشاکش وہی بے چین خیال

آہ اس کشمکشِ صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھے سوچنے دے

میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا

زندگی تلخ سہی ، زہر سہی، سم ہی سہی
دردو آزار سہی، جبر سہی، غم ہی سہی

لیکن اس درد و غم و جبر کی وسعت کو تو دیکھ
ظلم کی چھاؤں میں دم توڑتی خلقت کو تو دیکھ

اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ

جلسہ گاہوں میں یہ دہشت زدہ سہمے انبوہ
رہ گزاروں پہ فلاکت زدہ لوگوں کا گروہ

بھوک اور پیاس سے پژمردہ سیہ فام زمیں
تیرہ و تار مکاں، مفلس و بیمار مکیں

نوعِ انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد

ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلابِ عظیم
نت نئے طرز پہ ہوتی ہوئی دنیا تقسیم

لہلہاتے ہوئے کھیتوں پہ جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں

یہ فلک بوس ملیں دلکش و سمیں بازار
یہ غلاظت پہ چھپٹتے ہوئے بھوکے نادار

دور ساحل پہ وہ شفاف مکانوں کی قطار
سرسراتے ہوئے پردوں میں سمٹتے گلزار

درو دیوار پہ انوار کا سیلابِ رواں
جیسے اک شاعرِ مدہوش کے خوابوں کا جہاں

یہ سبھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے کچھ سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے کچھ سوچنے دے

اپنی مایوس امنگوں کا فسانہ نہ سنا
میری ناکام محبت کی کہانی مت چھیڑ
 

فرخ منظور

لائبریرین
خرم بھائی ساحر کی تلخیاں نامی کتاب جس میں ساحر کا تمام نمائیندہ کلام شامل ہے پہلے ہی "وہاب اعجاز خان صاحب" یہاں پوسٹ کر چکے ہیں آپ دوبارہ ٹائپ کرنے کی زحمت کیوں کر رہے ہیں - حوالے کے لئے دیکھیے یہ دھاگہ -
 

mohsin ali razvi

محفلین
شعری از عاملخواجه شیرازی ۱۴/۸/۲۰۱۳
زندگی چیست بجز تنهای
غم دوران نه کشد باز مرا
ماتم عشق کنم یاغم دل
ستم و درد وبلای یاران.
 

mohsin ali razvi

محفلین
مھربانی فر ما کے مجھے مری لقب عامل شیرازی کے نام سے یاد فرمایئں اپن شکستہ اردو کلئے شرمسار ھوں۔۔۔۔۔۔۔ خادم عامل شیرازی
،
،عامل لقب یافت آن محسن شیرازی
در محفل اردویت مھمان زہ کجا آمد
 
Top