ایم اسلم اوڈ
محفلین
انسان تنہا ہو رہاہے، تنہائی میں تنہائی کا شکارخوف میں مبتلا انسان تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آج کاالمیہ؟ انسان خود نہیں جانتا کہ المیہ کا پیش خیمہ ہی المیہ کا شکار ہوگیا۔
تنہائی کہاں نہیں رہی؛ گھر میں ہر فرد اپنے اندر تنہا ہوگیا۔ اپنے اپنے دائرہ میں محدود انسان نے اپنی سوچ کو دائروں کی حد میں مخصوص کر دیا۔ دائرے ویژن بڑھانے کی بجائے بصیرت کو مفقود کر رہے ہیں۔ انسان اپنے دائروں میں دوسروں کی سوچ محدود کرتے ہوئے خود فنا ہو رہا ہے۔ کل کا انسان دوسروں کی خاطر خود کو محدود کر کے اَمر ہو رہا تھا۔
خدا کی یاد سے غافل ہوکرکاہل انسان تنہائی کے خوف کا شکار، سہارا کی تلاش میں بے آسراخود کو محسوس کررہا ہے، حیرت تو یہ ہے عملی طور پرہر فرد تنہا ہے ،بقول قوم اس ملک کا اللہ ہی مالک ہے۔ ملت خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ اللہ کی یاد انسان کو کامل یقین عطاءکرتی ہے۔
ہر فرد اپنے رویوں میں خود کو تنہا کر چکا ہے۔ رویّے انسان بناتے ہیں، انسان رویہ سے انسان بگاڑ رہے ہیں،حالات موسم کی طرح مزاج خراب کر رہے ہیں۔رشتوں، الفتوں، محبتوں،خاندانوں، خانوادوں، مملکتوں،قوموںکو کمزورکرنے میں برسر پیکار رویے ہی ہیں ۔
محفل میں مقررین کی باتیں بے موضوع ہونے لگیں، نقطہ نگاہ تنہائی کا منظر پیش کرنے لگے۔ اَن گنت لاچار افراد کی پکاریں صرف صدا تک رہ گئیں۔بے ربط خواہشات تنہائی کا پیش خیمہ بنتی جارہی ہیں۔انسان خود کوتنہاتب محسوس کرتاہے جب وُہ کسی خاص شخص کو کچھ کہنا چاہے اور وُہ نہ سنے۔
ہمارا لوگوں سے اختلاف بڑھنے لگا، ہم ہر فردسے اعتراض رکھنے لگے۔ہمیشہ دوسرے کے مقابلے پر خود کومقابل جان کر مفت میں خود کو تنہا کرنے لگے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے ، جب ہم خود کو پارٹی سمجھنے لگتے ہیں تو دوسروں میں خامیاں محسوس ہونے لگتی ہیں۔انسان تنہا تب ہوتا ہے جب اُسکی سوچ تنہا ہوجائے۔
وقت کی قلت اور مصروفیات کے بے ہنگم ہجوم نے انسان کو انسان سے تو دور کیا۔ اُسکی اپنی سوچ کو اُسکے خیالات کی دُنیا میںتنہا کر دیا ہے۔اسقدر تنہا کہ اُسکے پاس سوچنے کا وقت نہیں کہ وُہ چند لمحوں کے لیئے رُک کر یہ طے کر سکے کہ اُسکا فیصلہ درست ہے بھی یا نہیں۔ اکثر یہ خیال ذہن میں وارد ہوتا ہے کہ انسان آتا اور جاتا تو تنہا تھا، مگردونوں لمحات دعاﺅں سے لبریز ہوا کرتے تھے۔ شائید اب دعا سے محروم ہونے لگے ہیں۔ قبرستان فاتحہ خوانوں سے محروم، بچہ والدین کی شفقت کا منتظرتنہائی ہی تنہائی۔خوشیاں بیچ کر تنہائیاں کما رہے ہیں۔شائید تنہائی انسان کے خمیر میں تھی تنہا آنااس دُنیا میں تنہا جانا اورتنہا ہی اپناحساب دینا۔
نفسا نفسی کا عالم اور بے ہنگم خواہشات کی دوڑ نے زندگی سے محبت کو چھین کرپُرکیف لمحات کو بے رنگ کر چھوڑا۔ تنہائی بھی تنہائی کا شکار ہے یادوں سے محروم، کتب بھی تنہائی کا ہی درس دے رہی ہیں، نفرت اور اُلجھنوں کا راگ الاپ رہی ہیں۔اداروں کو ملازمین نہیں انسان کی صورت میں مسلسل چلتے رہنے والی disposal مشین چاہیے۔ تنہائی ہی نفسیات کا مرض پیدا فرما رہی ہے۔
ہر فرد کوزندگی کے نشیب و فراز میں ہمدردوخیرخواہ کی ضرورت ہیں مگر زندگی کی بھیڑ میںانسان تنہا ہو گیا ہے۔ بات سننے کا وقت کسی کے پاس نہیں رہا۔ بڑھاپا میں ہمیں ایک ایسے ملازم کی ضرورت ہوگی جو ہماری گفتگو تو سُن سکے۔ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا ۔ آج کا انسان تنہا کیوں ہے اور اس تنہائی کا حل کیسے ممکن ہے۔ڈھائی انچھر پریم کے ،پڑھے سو پنڈت ہو۔(محبت کے چند حروف ہیں جو ان پر عمل کرے گا وہی عالم فاضل ہوگا۔
http://www.lahoreupdates.com/index....18-51-33&catid=1:2009-03-02-17-11-31&Itemid=4
تنہائی کہاں نہیں رہی؛ گھر میں ہر فرد اپنے اندر تنہا ہوگیا۔ اپنے اپنے دائرہ میں محدود انسان نے اپنی سوچ کو دائروں کی حد میں مخصوص کر دیا۔ دائرے ویژن بڑھانے کی بجائے بصیرت کو مفقود کر رہے ہیں۔ انسان اپنے دائروں میں دوسروں کی سوچ محدود کرتے ہوئے خود فنا ہو رہا ہے۔ کل کا انسان دوسروں کی خاطر خود کو محدود کر کے اَمر ہو رہا تھا۔
خدا کی یاد سے غافل ہوکرکاہل انسان تنہائی کے خوف کا شکار، سہارا کی تلاش میں بے آسراخود کو محسوس کررہا ہے، حیرت تو یہ ہے عملی طور پرہر فرد تنہا ہے ،بقول قوم اس ملک کا اللہ ہی مالک ہے۔ ملت خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ اللہ کی یاد انسان کو کامل یقین عطاءکرتی ہے۔
ہر فرد اپنے رویوں میں خود کو تنہا کر چکا ہے۔ رویّے انسان بناتے ہیں، انسان رویہ سے انسان بگاڑ رہے ہیں،حالات موسم کی طرح مزاج خراب کر رہے ہیں۔رشتوں، الفتوں، محبتوں،خاندانوں، خانوادوں، مملکتوں،قوموںکو کمزورکرنے میں برسر پیکار رویے ہی ہیں ۔
محفل میں مقررین کی باتیں بے موضوع ہونے لگیں، نقطہ نگاہ تنہائی کا منظر پیش کرنے لگے۔ اَن گنت لاچار افراد کی پکاریں صرف صدا تک رہ گئیں۔بے ربط خواہشات تنہائی کا پیش خیمہ بنتی جارہی ہیں۔انسان خود کوتنہاتب محسوس کرتاہے جب وُہ کسی خاص شخص کو کچھ کہنا چاہے اور وُہ نہ سنے۔
ہمارا لوگوں سے اختلاف بڑھنے لگا، ہم ہر فردسے اعتراض رکھنے لگے۔ہمیشہ دوسرے کے مقابلے پر خود کومقابل جان کر مفت میں خود کو تنہا کرنے لگے ہیں۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے ، جب ہم خود کو پارٹی سمجھنے لگتے ہیں تو دوسروں میں خامیاں محسوس ہونے لگتی ہیں۔انسان تنہا تب ہوتا ہے جب اُسکی سوچ تنہا ہوجائے۔
وقت کی قلت اور مصروفیات کے بے ہنگم ہجوم نے انسان کو انسان سے تو دور کیا۔ اُسکی اپنی سوچ کو اُسکے خیالات کی دُنیا میںتنہا کر دیا ہے۔اسقدر تنہا کہ اُسکے پاس سوچنے کا وقت نہیں کہ وُہ چند لمحوں کے لیئے رُک کر یہ طے کر سکے کہ اُسکا فیصلہ درست ہے بھی یا نہیں۔ اکثر یہ خیال ذہن میں وارد ہوتا ہے کہ انسان آتا اور جاتا تو تنہا تھا، مگردونوں لمحات دعاﺅں سے لبریز ہوا کرتے تھے۔ شائید اب دعا سے محروم ہونے لگے ہیں۔ قبرستان فاتحہ خوانوں سے محروم، بچہ والدین کی شفقت کا منتظرتنہائی ہی تنہائی۔خوشیاں بیچ کر تنہائیاں کما رہے ہیں۔شائید تنہائی انسان کے خمیر میں تھی تنہا آنااس دُنیا میں تنہا جانا اورتنہا ہی اپناحساب دینا۔
نفسا نفسی کا عالم اور بے ہنگم خواہشات کی دوڑ نے زندگی سے محبت کو چھین کرپُرکیف لمحات کو بے رنگ کر چھوڑا۔ تنہائی بھی تنہائی کا شکار ہے یادوں سے محروم، کتب بھی تنہائی کا ہی درس دے رہی ہیں، نفرت اور اُلجھنوں کا راگ الاپ رہی ہیں۔اداروں کو ملازمین نہیں انسان کی صورت میں مسلسل چلتے رہنے والی disposal مشین چاہیے۔ تنہائی ہی نفسیات کا مرض پیدا فرما رہی ہے۔
ہر فرد کوزندگی کے نشیب و فراز میں ہمدردوخیرخواہ کی ضرورت ہیں مگر زندگی کی بھیڑ میںانسان تنہا ہو گیا ہے۔ بات سننے کا وقت کسی کے پاس نہیں رہا۔ بڑھاپا میں ہمیں ایک ایسے ملازم کی ضرورت ہوگی جو ہماری گفتگو تو سُن سکے۔ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا ۔ آج کا انسان تنہا کیوں ہے اور اس تنہائی کا حل کیسے ممکن ہے۔ڈھائی انچھر پریم کے ،پڑھے سو پنڈت ہو۔(محبت کے چند حروف ہیں جو ان پر عمل کرے گا وہی عالم فاضل ہوگا۔
http://www.lahoreupdates.com/index....18-51-33&catid=1:2009-03-02-17-11-31&Itemid=4