توبہ کے موضوع پر ایک دو غزلہ اصلاح ، تنقید و تبصرہ کیلئے

موسم گُل، جمال شب، توبہ
پنکھڑی سے ہیں اُس کے لب، توبہ

رغبت وصل حسن کافر کا
نازُ و انداز، چال، سب، توبہ

ہر گھڑی سوچتا ہی رہتا ہوں
تب کروں گا، کروں گا اب توبہ

میں نے اک بار پھر گناہ کیا
کر چکا تھا ہزار جب توبہ

فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ

شیخ نے آ لیا تھا رستے میں
میں نے کی باعث ادب، توبہ

کیوں گناہوں کا انتظار کریں
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ

حسب معمول کچھ اثر ہو گا
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ

اے خدا تُو قبول کر لینا
اور کس سے کروں طلب توبہ

بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا میں سمجھا ہوں، کیا ہے رب، توبہ؟
مغفرت کا بس اک سبب توبہ؟

یہ تو بخشش کا اک وسیلہ ہے
رب مسبب ہے اور سبب، توبہ

رحمتیں انتظار میں بیٹھی
کھول دے گی وہ باب سب، توبہ

توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے
کس طرح، کیسے، کی تھی کب، توبہ

توبہ اچھی، شباب کے رہتے
فاٗیدہ کیا ہو ، جاں بلب توبہ

جس کو چاہے، عطا کرے اظہر
رب یہ توفیق ، روزُ شب، توبہ​
 

الف عین

لائبریرین
دو غزلہ کہنے کی کوشش میں زبردستی قافئے کا استعمال کرنے کی کوشش لگ رہی ہے۔ دو غزلہ تب کہا جائے جب ایک غزل کا مکمل ماحول دوسری غزل سے الگ ہو، زبان و بیان کے حساب سے یا مفہوم کے لحاظ سے۔جیسے پہلی غزل کے پہلے دونوں اشعار۔ (کیا قطر میں محبوبائیں حبشی ہوتی ہیں؟؟؟؟، جمال شب جیسے ہونٹوں والی؟) میرے خیال میں بھرتی کے اشعار کو نکال کر ایک اچھی غزل بن سکتی ہے۔ جیسے دوسری غزل کے آخری تین چار اشعار۔ اس کے بعد دیکھی جائے گی یہ غزل
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
چلئے اس بہانے قطر کی محبوباؤں کا تو پتہ چلا ۔۔۔ ۔خیر، کچھ باتیں ہم بھی کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔

موسم گُل، جمال شب، توبہ
پنکھڑی سے ہیں اُس کے لب، توبہ
۔۔۔ موسم گل اور جمال شب کی بات الگ اور لبوں کی بات جدا ہے ، لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ جدا بات کہی گئی ہے تو مطلعے کا تطابق سوالیہ نشان بن جائے گا۔

فرصتیں دور سے گزرتی ہیں
اے خدایا کروں میں کب توبہ
۔۔۔فرصتوں کا دور سےگزرنا سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔

شیخ نے آ لیا تھا رستے میں
میں نے کی باعث ادب، توبہ
۔۔۔۔ شیخ کا ادب کرتے ہوئے آج تک کسی شاعر کو نہیں پایا۔۔۔ عموما سب اس کے خلاف ہوتے ہیں۔۔۔ آپ نے ادب کرلیا، اس پر بھی اعتراض نہیں۔۔۔ ۔
کیوں گناہوں کا انتظار کریں
آو کرتے ہیں بےسبب توبہ
۔۔۔ گناہگا ر تو ہر انسان ہے۔۔۔ توبہ بے سبب نہیں ہوسکتی۔۔۔
حسب معمول کچھ اثر ہو گا
یہ جو کر لی ہے آج، اب توبہ
۔۔۔ آج کے بعد اب درست نہیں۔۔۔ یا آج استعمال کیجئے، یا اب ۔۔۔
اے خدا تُو قبول کر لینا
اور کس سے کروں طلب توبہ
۔۔۔ خدا تو توبہ قبو ل کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ کسی اور سے توبہ؟ ، توبہ توبہ۔۔اس خیال سے ہی توبہ کرلیجئے۔۔۔ ویسے توبہ طلب کرنے کا محاورہ بھی مجھے درست نہیں لگتا۔گویا دوسروں سے کہا جائے کہ آپ ہمارے سامنے توبہ کیجئے۔
بیچ میں ہیں گناہ اظہر کے
آگے توبہ ہے، اور عقب توبہ
۔۔ آگے کے بعد پیچھے زیادہ مناسب ہے۔۔۔ عقب تو اکیلا ہی اچھا لگتا ہے ۔۔۔ جیسے پروین شاکر: عقب میں گہرا سمندر ہے، سامنے جنگل۔۔۔ کس انتہا پہ مرا مہربان چھوڑ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا میں سمجھا ہوں، کیا ہے رب، توبہ؟
مغفرت کا بس اک سبب توبہ؟
۔۔۔کیا ہے رب۔ کی جگہ میرے رب ہوسکتا تھا۔۔۔ورنہ دو سوال ہوں گے،کہ رب کیا ہے اور توبہ کیا ہے؟ ۔۔۔ شعر مکمل ہو بھی تو محض ایک سوال ہے اور مبہم ہے۔
یہ تو بخشش کا اک وسیلہ ہے
رب مسبب ہے اور سبب، توبہ
۔۔۔ یہ تو ۔۔۔ کی جگہ "میری" کرنے سے شاید کچھ بہتر صورت ہو۔
رحمتیں انتظار میں بیٹھی
کھول دے گی وہ باب سب، توبہ
۔۔۔ نامکمل اور مبہم۔۔آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رحمتیں انتظار میں ہیں اور وہ توبہ کے سب باب کھول دیں گی۔ لیکن شعر سے ایسا نہیں لگتا۔
توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے
کس طرح، کیسے، کی تھی کب، توبہ
۔۔توبہ کرنے کا کچھ سلیقہ ہے ۔۔ دوسرا مصرع اس کا بالکل ساتھ نہیں دیتا۔۔۔ کیا سلیقہ ہے، وہ بیان کرتے تو بہتر تھا۔۔۔
جس کو چاہے، عطا کرے اظہر
رب یہ توفیق ، روزُ شب، توبہ
۔۔۔جسے چاہے رب روزو شب توبہ کرنے کی توفیق عطا کرے ۔۔۔ یہ بات بھی اس ردیف اور قافیے کے ساتھ قدرے نامکمل ہی لگتی ہے ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک بات اور ۔۔۔ میری درج بالا تنقید پر اساتذہ کیا تنقید کرتےہیں، پہلے وہ دیکھ لیجئے گا، اس کے بعد ہی اصلاح بہتر ہوگی۔۔
 
Top