"توبہ" نامی اس آرٹیکل کا لب لبات کالم نویس صاحب کی یہ تھیوری ہے کہ: "آج جو پاکستان میں آٹے کا بحران ہے اور بجلی غائب ہے اور پانی کی قلت ہے ۔۔۔۔ ان سب کی وجہ جامعہ حفصہ کا واقعہ ہے۔"
داستانوں، افسانوں ، افواہوں، خیالوں میں مگن رہنے والی قوم
جامعہ حفصہ پر بحث پرانی ہو چکی اور اس حوالے سے میں کالم نویس حضرت پر کوئی گرفت نہیں کر رہی۔
مگر آج میں نوحہ خواں ہوں اپنی قوم کی اس ذہنیت پر کہ بجلی غائب ہونا، ڈیموں کا نہ بننا ۔۔۔ غرض ہر آفت کو بس جامعہ حفصہ سے منسلک کر دینا جیسا کہ اس پر توبہ کر لینے سے ڈیمز بن جائیں گے، بجلی و پانی و آٹے و پٹرول سب بحرانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔
اگر یہ کالم نویس صاحب اپنے افسانوی و خیالی دنیا سے باہر آئیں تو انہیں پتا چلے کہ یہ بحران جامعہ حفصہ کی جانب سے لائبریری کی زمین پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے نہیں شروع ہوئے اور نہ ہی کسی توبہ کرنے سے ختم ہونے والے ہیں، بلکہ اسکے پیچھے قوم و حکومتوں کی سالہا سال کی سستی و کاہلی و نااہلی شامل ہے۔
اور اگر ان بحرانوں کو ختم کرنا ہے تو توبہ کی جگہ اس سستی و کاہلی و نااہلی کا خاتمہ کرنا ہو گا ورنہ مانگتے رہ جائیے توبہ اور اللہ آپ کو مزید بحرانوں میں ہی مبتلا کرتا جائے گا۔
حقیقت حال بالکل واضح ہے کہ ان بحرانوں کی ذمہ داری کس چیز پر ہے، مگر یہ قوم کو جذباتی بنا کر بہکانے والے کالم نویس، یہ قوم کی اصل مسائل کی نشاندہی کرنے کی بجائے اپنے کالموں کی فروخت کے لیے قوم کو افسانوں و خیالوں کی دنیا میں ڈال دیں گے۔
///////////////////////////////////////
ان کالم نویسوں سے صرف ایک سوال:
"جب افغانستان میں طالبان نے قبضہ کر لیا تو دکھائیں یہ کالم نویس کہ اسکے بعد افغانستان میں کونسی دودھ کی نہریں بہنے لگیں؟
دودھ کی نہریں تو ایک طرف، طالبان کا حال یہ تھا کہ انکا ایک وزیر جرمنی کے چرچ میں جا کر تقریر کر کے امداد طلب کرتا ہے۔ افسوس کہ مجھ سے وہ تصویر گم ہو گئی ہے جہاں وہ طالبانی وزیر کلیسا کی صلیب کے عین آگے گھڑے ہو کر تقریر کر رہا ہے۔
اور طالبان کا ایک اور وزیر دنیا کو پیشکش کرتا ہے کہ کابل کے فٹبال سٹیڈیم میں اگر دنیا چاہتی ہے کہ پھانسیاں نہ دی جائیں تو وہ طالبان کو امداد دیں تاکہ فٹبال سٹیڈیم میں فٹبال کھیلی جائے اور طالبان پھانسیوں کے لیے الگ میدان بنا سکیں۔
افسوس ہوتا ہے ان جیسے کالم نویسوں پر جو قوم کو ایسے برین واش کرتے ہیں۔ یہی وہ کالم نویس تھے جنہیں آپریشن ہونے تک کبھی لال مسجد میں غیر قانونی اسلحہ نظر نہیں آیا اور یہ کالم نویس غازی برادران کی اسی کذب بیانی کو آگے قوم تک بیان کرتے رہے کہ سوائے آٹھ نو کلاشنکوفوں کے کوئی اور اسلحہ نہیں ہے۔
اور برین واشنگ کی انتہا وہ تھی جب جامعہ کی طالبات سے آپریشن کے بعد پوچھا گیا کہ آپ لوگ تو کہتے تھے کہ سوائے آٹھ نو کلاشنکوفوں کے کچھ نہیں تو پھر یہ اسحلہ و بارود کا ڈھیر کہاں سے آ گیا، تو اس پر یہ دینی طالبات جواب دیتی ہیں کہ جس طرح جنگ بدر میں اللہ نے فرشتوں کے زریعے مسلمانوں کی مدد کی تھی اسی طرح اللہ کی طرف سے اس اسلحہ کا انتظام ہوا ہے۔
تو جب برین واشنگ کی یہ انتہا ہو، اور ہمارے کالم نویس ہی سب سے بڑا شیطانی کردار ادا کر رہے ہوں، تو پھر بھلا قوم کو ایسے فتنوں کا سامنا کیوں نہ ہو۔