توبہ

کاشفی

محفلین
توبہ
(حصہ اول)
يہ جمعرات كا دن تھا مدينہ كا شہر عجيب منظر پيش كر رہا تھا۔ شہر ميں ايك ويراني سي تھي۔ مسجد نبوي صلی اللہ علیہ وسلم ، جہاں ہر وقت اللہ كےآخری نبي صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والوں كا تانتا بندھا رہتا تھا، وہ بھي خالي تھي۔ كعب بن مالك رضي اللہ عنہ نے جب مسجد نبوي صلی اللہ علیہ وسلم كو نمازِ مغرب كے وقت يوں خالي ديكھا تو ان كے سينے سے ايك ہوك سي اٹھي۔ وہ اپنے آپ كو كوسنے لگے كہ وہ پيچھے كيوں رہ گئے يہ سوچتے ہوئے ان كي آنكھوں كے سامنے پچھلے منظر گھومنے لگے انہيں ياد رہا تھا كہ لوگ كس طرح لشكر ميں شامل ہونے كي تياري كر رہے تھے تو وہ سوچتے بھلا مجھے تياري كي كيا ضرورت ہے، ميرے پاس سواري ہے، تلوار بھي ہے، بس جب لشكر چلنے كا حكم ہو گا، گھوڑا سيدھا كروں گا اور لشكر ميں جا شامل ہوں گا۔ ان كے دوست بھي انہيں پوچھتے كہ كعب تمہارے كيا ارادے ہيں تو وہ كہتے بھئي ميں ضرور جائوں گا ليكن ابھي اتنے دن پڑے ہيں، تياري كر لوں گا۔ شيطان نے انہيں اس قدر مصروف كر ديا كہ وہ آج كا كام كل پر ٹالتے رہے اور لشكر كے ساتھ جانے سے رہ گئے۔ تب انہوں نے پكا عہد كيا كہ وہ اگلے دن ہي اپنے تيز رفتار گھوڑے پر روانہ ہو جائے ۔ ليكن اگلا دن بھي كچھ اسي طرح سے گزرا كہ وہ اپنا كام نہ نپٹا سكے۔ انہوں نے سوچا كہ چلو كل صبح صبح روانہ ہو جائوں گا ليكن بدقسمتي سے ايسا نہ ہو سكا اور وہ اپنے كام نہ نپٹا سكے۔ جب دوسرا دن بھي گزر گيا تو كعب بن مالك رضي اللہ عنہ اس خوف ناك حقيقت كو جان چكے تھے كہ اگر اب وہ روانہ بھي ہو جاتے ہيں تو لشكر كو كبھي نہ پا سكيں گے۔ اس تلخ حقيقت كا احساس ہوتے ہي انہوں نے مدينہ ميں پيچھے رہ جانے والے لوگوں پر نظر دوڑائي كہ ہو سكتا ہے ان كي طرح كا كوئي بد نصيب شخص اور بھي ہو۔ تب انہيں معلوم ہوا كہ بلال بن اميہ رضي اللہ عنہ اور مرارہ بن ربيع رضي اللہ عنہ بھي ان جيسے ہيں جو آج كل، آج كل كرتے رہے ہيں اور لشكر كے ساتھ جانے سے رہ گئے تھے۔ يہ دونوں صحابي تو غزوہ بدر ميں بھي حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے ساتھ جہاد ميں شريك تھے اس ليے ان كے متعلق يہ سوچا بھي نہيں جا سكتا تھا كہ انہوں نے كوئي بہانہ لگايا ہو گا۔ كعب رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بھي شديد شرمندگي كا اظہار كيا كہ وہ محض اپني سستي اور كاہلي كي وجہ سے لشكر كے ساتھ نہيں جا سكے۔

انہي دنوں كعب نے حضرت علي کرم اللہ وجہ كو بھي مدينے ميں ديكھا ليكن انہيں جلد ہي معلوم ہو گيا كہ ان كے گھر والے بيمار ہيں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں خصوصي اجازت دي ہے كہ وہ يہيں رہيں۔

اس كے علاوہ پيچھے رہ جانے والوں ميں يا بچے تھے يا بوڑھے يا پھر وہ ہڈ حرام منافق جنہيں اپني جان عزيز تھي اور جو محض دكھاوے كے مسلمان تھے، تاكہ مسلمان ہونے كا فائدہ تو اٹھا سكيں ليكن كام نہ كريں۔

يوں دن گزرتے گئے حتيٰ كہ پچاس دن كے بعد اسلامي لشكر فتح اور كاميابي كے نعرے لگاتے مدينہ واپس گيا۔ اہل مدينہ نے خوشي خوشي ان كا استقبال كيا۔ ان استقبال كرنے والوں ميں منافقين بھي شامل تھے ۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس جاتے اور طرح طرح كے بہانے بناتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان كے بہانے "قبول" كر ليتے۔ كعب، مرارہ اور بلال بن اميہ سخت شرمندہ تھے كہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو جہادميں شركت نہ كرنے كي كيا وجہ بتائيں؟ وہ يہ بھي جانتے تھے كہ جب مسلمانوں كا حكمران انہيں جہاد پر جانے كا حكم دينا تو پھر اس حكم كو ٹالا نہيں جا سكتا۔يہ حکم تو اللہ كے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ديا تھا بھلا اس كي خلاف ورزي كيسے كي جا سكتي تھي اسي ليے اسے نظر انداز كرنے والا سزا كا مستحق ہو جاتا ہے، ليكن كعب سميت ان تينوں صحابہ كے ضمير نے گوارا نہ كيا كہ وہ سزا سے بچنے كے ليے جھوٹ بوليں۔ چنانچہ جب كعب حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس گئے تو انہيں ديكھ كر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسكرائے اور فرمايا:"تشريف لائيے اور بتائيے آپ كو كس نے روكا تھا؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي مسكراہٹ اور شفيق چہرہ ديكھ كر كعب كے ليے ممكن ہو گيا كہ وہ كھل كر بات كريں ۔ بولے: "اللہ كي قسم ميں دوسرے دنيا داروں كي طرح ہوتا تو كوئي نہ كوئي بہانہ گھڑ ليتا ليكن مجھے معلوم ہے ميں نے آپ كو جھوٹ بات بتائي تو ہو سكتا ہے وقتي طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہو جائيں ليكن اللہ آپ كو سچ سے آگاہ كر دے گا اور پھر آپ ضرور ناراض ہوں گے۔ اس ليے ميں سچ كہوں گا تاكہ اللہ ميرے سچ سے خوش ہو كر ميرے ليے معافي كي كوئي صورت پيدا كردے حقيقت يہي ہے كہ ميرے پاس جہاد ميں نہ جانے كا كوئي عذر كوئي بہانہ نہيں ميں جا سكتا تھا، بالكل جا سكتا تھا ليكن نہ جا سكا" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے كعب پر ايك نگاہ ڈالي اور فرمايا: "بے شك اس شخص نے سچ كہا" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كعب رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوئے :"ٹھيك ہے، اب تم جائو، انتظار كرو يہاں تك كہ اللہ تمہارے متعلق كوئي فيصلہ كر دے"

يہ سن كر كعب رضی اللہ عنہ وہاں سے اٹھ كر اپنے قبيلے كے پاس گئے۔ وہاں پہ بعض لوگوں نے انہيں بہت برا بھلا كہا كہ تم نے كوئي بات بنا كر اپني جان چھڑاليني تھي۔ آخر اتنا بھي "حقيقت پسند" بننے كا كيا فائدہ؟ يہ سن كر كعب رضی اللہ عنہ سوچ ميں پڑ گئے ليكن پھر انہيں معلوم ہوا كہ بلال رضی اللہ عنہ اور مرارہ رضی اللہ عنہ نے بھي سچ سچ بات بتائي ہے تو وہ كچھ مطمئن ہو گئے۔ مگر كعب رضی اللہ عنہ كا يہ اطمينان بہت مختصر ثابت ہوا۔

ہوا يہ كہ جب وہ اپنے گھر سے باہر نكل كر ايك شخص سے مخاطب ہوئے تو اس نے ان كي بات سني ان سني كر دي۔ كعب رضی اللہ عنہ بہت حيران ہوئے۔ پھر انہوں نے دوسرے شخص كو آواز دے كر بلايا۔ اس شخص نے ان كي طرف ديكھا مگر پھر نظريں پھير كر چل نكلا۔ كعب رضی اللہ عنہ كا دل كانپ اٹھا۔ "كہيں يہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا حكم تو نہيں؟ كيا ميري سزا شروع ہو چكي؟" يہ خيال آتے ہي وہ ہر جانے والے كي طرف لپكے جو بھي ملتا، نام لے كر پكارتے مگر ان كا انديشہ خوف ناك حقيقت كا روپ دھار چكا تھا واقعي ان سے كوئي بھي نہيں بول رہا تھا پورا مدينہ ان كے ليے اجنبي ہو گيا تھا پھر كعب رضی اللہ عنہ كے دل ميں يہ آئي كہ ہو سكتا ہے كہ اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان كا بائيكاٹ نہ كيا ہو ہو سكتا ہے، ان سچے مسلمانوں، جگري ياروں نے يہ خيال كيا ہو كہ كعب بھي دوسرے منافقوں كي طرح منافق ہو گيا ہے يا انہوں نے اپنے طور پر اسے سزا دينے كا كوئي پروگرام بنايا ہو غرض طرح طرح كے وسوسے، طرح طرح كے خيال انہيں سانپوں كي طرح ڈسنے لگے۔

اسي كشمكش اور اسي الجھن ميں، وہ مسجد پہنچے روٹھے ہوئے مسلمانوں كے ساتھ خاموشي سے كھڑے ہو گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي امامت ميں نماز پڑھي اور جب نماز ختم ہو نے كے بعد كعب رضی اللہ عنہ نے بڑي گرم جوشي سے مگر دھڑكتے دل كے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو سلام كيا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ہونٹوں كے ہلنے كا انتظار كرنے لگا۔ ليكن ان كي خواہش ہي رہي كہ يہ ہونٹ بولنے كے ليے كھليں ايسا نہ ہوا اسے يوں لگا كہ اس كا دل بند ہو جائے گا، دماغ پھٹ جائے گا، خون رگيں پھاڑ كر بہ نكلے گا، ليكن ايسا كچھ بھي نہ ہوا۔ كعب انتہائي رنجيدہ اور غمگين واپس آگئے۔ وہ سوچنے لگے كہ كہيں يہ نہ ہو كہ ميرے گھر والے بھي ميرے ساتھ يہي سلوك كريں۔ وہ ڈرتے ڈرتے گھر پہنچے۔ سلام كيا اور جب جواب ملا تو سكون كا سانس ليا كہ اس شہر ميں ابھي كچھ لوگ ايسے ہيں جنہيں ان كي بات كا جواب دينے كي اجازت ہے، گھر والوں ہي سے معلوم ہوا كہ بلال اور مرارہ نے اپنے آپ كو گھروں ميں قيد كر ليا ہے اور ان كے ساتھ بھي رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سميت تمام مسلمانوں نے بول چال بند كر دي ہے۔

كعب بن مالك رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ كو نظر بند كرنا مناسب نہ سمجھا اور باقاعدگي كے ساتھ مسجد نبوي ميں حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے پيچھے نماز پڑھنا جاري ركھا۔
 

کاشفی

محفلین
توبہ (حصہ دوم)

(حصہ دوم)
مسجد ميں وہ جب بھي موقع ملتا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو سلام كہتے ليكن وہ بھلا انہيں كيسے جواب ديتے انہيں تو اللہ نے منع كر ركھا تھا كہ كعب كي كسي بات كا جواب نہيں دينا۔ كعب ان سے نظريں ملاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظريں پھير ليتے۔مگر اس كے باوجود كعب نے نہ آپ كو سلام كہنا ترك كيا اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي نظر عنايت سے مايوس ہوئے۔
ايك دن انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كو مسكراتے ديكھا تو كچھ اميد بندھي اور آگے بڑھے ليكن پھر اچانك يوں لگا كہ دنيا تاريك ہو گئي ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جيسے ہي كعب كو اپني طرف متوجہ پايا، سنجيدہ ہو كر نظريں ہٹا ليں۔ كعب كے كليجے پر گھونسا لگا۔ دل ريزہ ريزہ ہو گيا۔ بہت شكستہ دل ہو كر مسجد سے باہر نكلے۔ گھبرا كر اپنے قريبي دوست اور چچازاد بھائي ابو قتادہ كے باغ ميں جا پہنچے۔ دروازہ كھٹكھٹايا مگر نہ كھلا۔ آوازيں ديں ليكن زبانوں كو گنگ پايا۔ غم سے نڈھال ديوار پر چڑھے۔ ديكھا تو ابو قتادہ سامنے ہي بيٹھے تھے، اسے سلام كيا مگر ابو قتادہ نے منہ پھير ليا۔ كعب چلا كر بولے: "ابو قتادہ ميں تمہيں اللہ كي قسم دے كر پوچھتا ہوں، كيا ميں اللہ اور اس كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہيں ركھتا؟" ليكن جواب ميں پھر وہي وحشت ناك خاموشي كعب دوبارہ چلائے۔ جواب نہ پا كر تيسري مرتبہ پھر قسم دے كر پوچھا۔ عربوں ميں قسم دے كر پوچھے گئے سوال كا جواب نہ دينا گناہ كے برابر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ابو قتادہ كو جواب ديناپڑا مگر يہ جواب بھي عجيب دل شكن اور روح فرسا جواب تھا وہ بندہ خدا بولے بھي تو كيا بولے كہنے لگے: "اللہ اور اس كا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہي بہتر جانتا ہے۔"

كعب يہ سن كر ديوار سے يوں نيچے كودے جيسے ديوار نے خود انہيں دھكا ديا ہو۔ وہ رونے لگے۔ آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

اس دن يا انہي دنوں كي بات ہے كہ وہ بازار ميں جا رہے تھے كہ ايك شخص ان سے مخاطب ہوا۔ حيران ہوئے كہ يہ كس نے انہيں خود بلايا ہے۔ مڑ كر ديكھا تو كوئي اجنبي تھا اوراجنبي تو انہيں مخاطب كر ہي ليتے تھے۔ لباس سے يہ اجنبي انہيں ملك شام كا باشندہ لگا۔ ان كا نام پوچھنے كے بعد بولا ميں ملك شام سے غساني بادشاہ كي طرف سے يا ہوں۔ (اس ملك سے جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے قاصد كو شہيد كيا تھا)
"كيا چاہتے ہو؟" كعب نے ناگواري سے پوچھا۔ جواب ميں اس نے ريشم كے خوب صورت كپڑے ميں لپٹا ايك خط پيش كيا۔ كعب نے حيرت سے مراسلہ ليا اور اسے كھولا۔ لكھا تھا: "مجھے معلوم ہوا ہے كہ تمہارے آقا نے تم پر بہت ظلم كر ركھا ہے، مگر تم ہرگز كوئي ذليل شخص نہيں ہو، نہ اس لائق ہو كہ تمہيں ضائع كيا جائے۔ ہمارے پاس جائو، ہم تمہاري قدر كريں گے۔"
يہ پيغام بہت ہي اہميت ركھتا تھا مگر كعب كي حالت عجيب تھي۔ اس كا جي چاہتا تھا كہ زمين پھٹ جائے اور اس ميں سما جائے۔ سوچنے لگے كہ آخر ان كي كس بات سے كمينے دشمنوں نے يہ سمجھ ليا ہے كہ وہ اللہ كے آخري پيغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو چھوڑ كر ايك گھٹيا بادشاہ كے ساتھ مل جائيں گے۔ انہوں نے فورا اس سفير كو ڈانٹ كر بھگا ديا اور غصے ميں سيدھے گھر گئے اور خط كو چولہے ميں جھونك كر اپنا جي ہلكا كيا۔

اس كيفيت كو اب چاليس دن ہو گئے تھے اور كعب كو يہ چاليس دن چاليس صدياں لگي تھيں۔ انہيں ايك ايك پل گزارنا مشكل ہو گيا تھا۔ مگر ان كي آزمايش اور سزا ابھي ختم نہيں ہوئي تھي۔ ايك دن كسي نے دروازہ كھٹكھٹايا باہر نكلے ، ديكھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا پيغام رساں ہے۔ سمجھے كوئي خوش خبري ہوگي مگر جو كچھ سننا پڑا وہ ايك نيا حكم تھا۔ نئي پابندي تھي كہا گيا: "اپني بيوي سے عليحدہ ہو جائو۔"
"كيا طلاق دے دوں؟" كعب نے جذبات ميں رندھي آواز ميں پوچھا۔ مگر پيغام پہنچانے والا بولا: "نہيں صرف عليحدہ ہو جائو"
يہ سن كر خاموشي سے اندر چلے آئے۔ بيوي سے بولے كہ ميكے چلي جائو اور اس وقت تك انتظار كرو جب تك ميرا فيصلہ نہيں ہو جاتا۔

اس واقعے كے بعد دس دن مزيد گزر گئے۔ اب ان كے بائيكاٹ كو پچاس دن پورے ہو چكے تھے۔ بالكل اتنے دن، جتنے دن اسلامي لشكر مدينے سے باہر رہا تھا۔ پچاسويں دن وہ فجر كي نماز پڑھ كر اپنے گھر كي چھت پر ليٹے تھے۔ كعب سوچ رہے تھے كہ اگر اسي دوران ان كي موت واقع ہو گئي تو كيا ہو گا؟ كيا وہ اللہ كي عدالت ميں مجرم كي حيثيت سے پيش ہوں گے، كيا ان كا شمار بزدلوں ميں ہو گا؟ كيا انہيں اللہ كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا نافرمان قرار ديا جائے گا؟ كيا ان كا جرم كبھي معاف نہيں ہو گا؟ پھر وہ اللہ سے مخاطب ہوئے كہ اے اللہ تم تو كہتے ہو كہ جو سچے دل سے توبہ كرے، اس كي توبہ قبول كرتے ہو تم تو ميرے دل كي حالت جانتے ہو، تم تو ان آنسوئوں سے واقف ہو جو ميں نے اس زمين كو پلائے ہيں تم تو جانتے ہو كہ كتني ہي مرتبہ ميں نے اپنے آنسوئوں سے اپنا چہرہ دھويا ہے كيا يہ چہرہ اب بھي معافي كے لائق نہيں؟

وہ انہي سوچوں ميں تھے كہ ان كے كانوں ميں ايك زوردار آواز آئي۔ كہنے والا كہہ رہا تھا: "مبارك ہو۔۔۔۔ كعب بن مالك۔۔۔۔مبارك ہو"
يہ سننا تھا كہ وہ سجدے ميں گر پڑے۔ سمجھ گئے كہ توبہ قبول ہو گئي ہے دھاڑيں مار مار كر رونے لگے۔ دل كو ہلكا كرنے لگے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا خيال آيا تو بھاگے، لپكے اور مسجد نبوي صلی اللہ علیہ وسلم جا پہنچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا چہرہ مبارك ديكھا۔ يوں لگا كہ آج چودھويں كا چاند آسمان پر نہيں محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے چہرے پر طلوع ہوا ہے۔ ان كا چہرہ خوشخبريوں كا نور بكھير رہا تھا۔ كعب رضی اللہ عنہ نے سلام كيا اور ادھر سے جواب ملا پھر فرمايا گيا: "اے كعب مبارك ہو۔ يہ دن تمھاري زندگي كا بہترين دن ہے"

كعب كے دل ميں نہ جانے كيا تھا كہ بولے: "حضور صلی اللہ علیہ وسلم يہ معافي آپ صلی اللہ علیہ وسلم كي طرف سے ہے يا اللہ كي طرف سے؟"
"اللہ كي طرف سے ۔" فرمايا گيا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم كي زبان مبارك پر سورہ توبہ كي يہ آيات جاري ہو گئيں:

"اور ان تينوں كو بھي اللہ نے معاف كرديا جن كے معاملے كو ملتوي كر ديا گيا تھا۔ جب زمين اپني ساري وسعت كے باوجود ان پر تنگ ہو گئي اور انہيں اپنا وجود بوجھ محسوس ہونے لگا اور انہوں نے جان ليا كہ اللہ كے دامنِ رحمت كے سوا انہيں كوئي پناہ نہيں مل سكتي تو اللہ نے اپني مہرباني سے ان كي طرف توجہ كي تاكہ وہ توبہ كر ليں يقينا اللہ توبہ قبول كرنے والا اور انتہائي رحم كرنے والا ہے"

چند لمحے پہلے اپنے آپ كو دنيا كا سب سے بدنصيب اور دكھي سمجھنے والے انسان كا رواں رواں خوشي سے لبريز تھا۔ چند لمحے پہلے ہر طرف ناراض نظر نے والے چہرے اسے اپنے سينے سے چمٹانے، مبارك باد دينے، اسي محبت و شفقت كا رويہ ركھنے كے ليے بے تاب تھے اور سب سے بڑھ كر كعب رضی اللہ عنہ كو جس ہستي سے دنيا كي ہر شے سے زيادہ حتيٰ كہ اپني جان سے بھي زيادہ محبت تھي وہ ہستي بھي آج اس سے خوش تھي راضي تھي يعني محمد صلي اللہ عليہ وسلم كي ہستي واقعي آج كعب رضی اللہ عنہ اور اس كے دونوں ساتھيوں كے ليے زندگي كا خوش گوار ترين دن تھا۔ چنانچہ اسي خوشي ميں كعب رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال خيرات كر ديا۔ اس مال كو جس كو سنبھالنے كے چكر ميں وہ يہ سستي كر بيٹھے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حكم ديا تو صرف گزارے كے ليے خيبر سے آنے والا مال غنيمت كا حصہ ركھا رضي اللہ عنہ۔
 

مہ جبین

محفلین
سبحان اللہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کیا بات ہے ، یہ وہ بے مثال ہستیاں ہیں جنکے بارے میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کرو گے تو فلاح پا جاؤگے ۔
یہی عالیشان ہستیا ں تھیں جنہوں نے ہمیں عشقِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب سکھائے اور رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئے
اللہ ہم سب کو صحابہ ءکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فیضان عطا فرمائے آمین
کاشفی بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
 
Top