آپ نے عربی میں سنا ہوگا :) اور عوام تو خیر کیا کیا نہیں کرتے۔ اکثر مذہبی کتابوں میں عوام لالنعام لفظ پڑھا ہوگا آپ نے

ویسے فارغین قواعد کے لحاظ سے غلط نہیں مگر اردو روزمرہ فارغ ہے نہ فارغین


کسی ادارے کے حوالے سے بات ہو تو اس کے فارغ التعلیم طلبا کو عام طور پر ’’فاضل‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کچھ نام مخصوص بھی کر دیے گئے ہیں:
راوین: گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کے فضلاء، اولڈ بوئے: پنجاب یونیورسٹی لاہو ر سے پڑھے ہوئے، علیگ: علی گڑھ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے، ابدالین: کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پڑھے ہوئے، یو ایٹین: انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے پڑھے ہوئے؛ ٹیکسلیلن: انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کے فارغ التحصیل۔
فارغ التحصیل کی کم از کم سطح بیچلر ڈگری ہے۔
 
"میڈیا (کے میدان )میں فارغین مدارس کے لیے امکانات"
اس ٹاپک پر مجھے ایک پیپر پرزنٹ کرنا ہے
کیا کیا باتیں آ سکتی ہیں اس میں آپ لوگوں کے ذہن میں کچھ نکات ہو تو بتائیں ۔۔۔ ۔۔
کوئی مضمون ،مقالہ وغیرہ ہو تو شیر کریں
مہربانی ہوگی
علم
مدارس سے آپ کی مراد غالباً دینی مدارس ہیں؟ دیوبند، بریلی، ندوہ وغیرہ؟
 
1- آج کل کا فی مذہبی ٹی وی چینل شروع ہو چکے ہیں ۔ ان میں مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کافی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
2- خوابوں کی تعبیر بتانا
3- فقہی مسائل بتانا
4تفسیر قرآن
5 تفہیم و تشریح حدیث
6- عام کمرشل چینل بھی ناظرین کے سولات کے جوابات کے پروگرامکرتے رہتے ہیں۔
 
جرنلزم کے میدان میں جو بھی آتا ہے وہ اپنی تعلیم تجربہ اور معلومات کے مطابق میدان منتخب کرتا ہے مثلاََ پاکستان کے ایک صحافی ہیں ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ ان کے کالم عموماََ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح کچھ صحافی بین القوامی سیاست پر لکھتے ہیں کچھ ملکی سیاست پر جو کہ ظاہر ہے ان کی تعلیم رجحان اور تجربہ کے مطابق ہی ہوتا ہے لہذا دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا بھی اپنے رجحان تجربہ اور تعلیم کے مطابق ہی میدان منتخب کریں گے اس معاملے میں مجھے لئیق احمد سے مکمل اتفاق ہے
 
1- آج کل کا فی مذہبی ٹی وی چینل شروع ہو چکے ہیں ۔ ان میں مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کافی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
2- خوابوں کی تعبیر بتانا
3- فقہی مسائل بتانا
4تفسیر قرآن
5 تفہیم و تشریح حدیث
6- عام کمرشل چینل بھی ناظرین کے سولات کے جوابات کے پروگرامکرتے رہتے ہیں۔
بہت شکریہ بھیا
 

حسینی

محفلین
دوستوں نے بہت ساری اچھی باتیں تو لکھ دی ہیں۔
مدارس اور علماء اس معاشرے کا اک خاص طبقہ ہے۔۔ اور شاید اس طبقہ کو اسی طبقے سے تعلق رکھنے والا ہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔
لہذا مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اگر صحافت کے میدان میں آتے ہیں تو یقینا ان کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں۔۔ خاص طور پر دینی موضوعات کے حوالے سے۔ اگرچہ ہمارا دعوی یہ ہے کہ دین زندگی کے تمام پہلووں کو شامل ہے۔
ابھی پاکستان میں حکومت اور طالبان مذاکرات کا بہت زیادہ شور ہے۔ اب اس طرح کے مذاکرات میں مدارس سے فارغ التحصیل کوئی صحافی ہوتا تو وہ بہت زیادہ مدد کرسکتا تھا۔۔ چونکہ وہ طالبان مائنڈ سیٹ اپ کو زیادہ سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح اس صحافی کے لیے طالبان تک رسائی، اس سے انٹرویو، یا ان کی زبان اور اطلاحات سمجھنا نسبتا آسان ہوتا۔۔ چونکہ ہر علم اور شعبے کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں۔
باقی جس طرح سے کسی دوست نے پہلے کہا کہ دینی موضوعات پر وہ صحافی جو مدارس سے فارغ التحصیل ہو اور ساتھ دنیا بھی دیکھی ہو۔۔ زیادہ بہتر انداز میں طبع آزمائی کر سکتا ہے۔
اک اور نکتہ یہ ہے کہ دین نے خود بھی صحافت کے بہت سارے اصول بتائے ہیں۔۔ جن سے ہم بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ مثلا صحافت میں صرف سچ بولنے اور لکھنے کے حوالے سے حدیث ہے کہ
"کسی کی جہالت کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلا دے۔"
 
Top