تولو جو ترازو میں ستم اپنے وفا میری.
آ جائے نظر تم کو کرم اپنا سزا میری.
برباد اگر ہوں گے تو ہاتھوں سے جنوں کے ہی .
اغیار سے نسبت ہو نہیں طرز ادا میری.
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی منزل کا نشاں پا کر.
کچھ تیرا تغافل ہے کچھ اس میں خطا میری.
احساس زیاں غم کا کرے کچھ تو مداوا بھی.
دکھلائے طلاطم سا پھر موج نوا میری.
گلشن کے تصور میں کٹی عمر رواں یوں ہی.
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی فضا میری.
پنہاں ہے کہیں مجھ میں اک برق تجلی بھی.
روشن ہو جہاں سارا پھیلے جو ضیا میری.
ہے گرچہ جگر سوز بہت تشنہ لبی یوں بھی.
بے فیض ہے مدت سے یہ تسلیم و رضا میری.
اپنی کم علمی، کم ذخیرہ الفاظ اور عروض سے متعلق کم فہمی آڑے آ رہی ہے کہ کوشش کے باوجود اساتذہ کا حکم بجا لانے میں ناکام رہا ہوں۔میں محفلین اور اساتذہ سے ملتمس ہوں کہ وہ اس غزل کو مناسب بحر میں لانے میں میری مدد کریں۔
۔
۔
تولو جو ترازو میں، ستم اپنے، وفا میری
آ جائے نظر تم کو، کرم اپنا ،سزا میری
برباد اگر ہوں گے تو، اربابِ جنوں سے ہی
اغیار سے نسبت ہو، نہیں طرزِ ادا میری
یوں بھٹکے ہے جاں اپنی، منزل کا نشاں پا کر
کچھ تیرا تغافل ہے، کچھ اس میں، خطا میری
احساسِ زیاں، خوابِ گراں غم، سے جگا دے تو
دکھلائے طلاطم سا، کہ پھر موجِ نوا میری
گلشن کے تصور میں، کٹی عمرِ رواں یوں ہی
سوچوں سے نہ بدلی ہے نہ بدلے گی، فضا میری
اک برقِ تجلی بھی پنہاں ہے، کہیں مجھ میں
سارا جہاں روشن ہو، پھیلے جو ضیا میری
اے شوخ! جگر سوز بہت تشنہ لبی ہے، یاں
بے فیض ہے مدت سے، یہ تسلیم و رضا میری