ہم نے تو حسرت موہانی کے نام سے ہی منسوب سنی اور پڑھی ہے لیکن اگر کسی اور کی ہے تو ہمارے علم میں نہیں۔۔۔
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجیے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے
خاطرِ محروم کو کو کر دیجیے محوِ الم!
درپئے ایذائے جانِ مبتلا ہو جائیے
راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہِ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے
گر نگاہِ شوق کو محوِ تماشا دیکھیے
قہر کی نظروں سے مصروفِ سزا ہو جائیے
میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجے کچھ جواب
دیکھ لیجے اور تغافل آشنا ہو جائیے
ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی بڑھ کر پُر خفا ہو جائیے
جی میں آتا ہے کہ اس شوخِ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے
کاوشِ دردِ جگر کی لذّتوں کو بھول کر
مائلِ آرام و مشتاقِ شفا ہو جائیے
ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دلِ مایوس میں
یعنی آ کر بے نیازِ مدّعا ہو جائیے
بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانۂ عہدِ وفا ہو جائیے
ہائے ری بے اختیاری! یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے
چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرزِ تغافل کے فدا ہو جائیے
کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرتؔ دل میں ہے
چھُٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضا ہو جائیے