بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوں تو آج کل توہین رسالت، ختم نبوت، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ پر بہت باتیں اور جگہ جگہ بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے لیکن 17 ستمبر 2009ء کو روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے گورنر پنجاب کے بیان "توہین رسالت کا قانون ختم ہونا چاہیے" نے مجھ جیسے عام شہری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج ہم یہاں اسلام میں توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے بات نہیں کریں گے بلکہ عمومی جائزہ لیں گے کیونکہ اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو اس کے لئے علم کا معیار بھی کافی بلند ہونا چاہے اور ویسے بھی یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے آج ہم عمومی جائزہ ہی لیتے ہیں۔پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔ قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں۔ ایک تو یہ سیدھا سیدھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ۔۔۔
ایسا ہی ایک بیان ہمارے گورنر صاحب بھی دے چکے ہیں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تو اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا کے علاوہ مزید کوئی تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور ایک ہمارے گورنر صاحب ہیں جو توہین رسالت کے قانون کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ ہاں یہاں یہ بات یاد رہے کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی اور پارلیمنٹ وغیرہ اسلامی نقطہ نظر سے ضرور بحث کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے لیکن یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ توہین رسالت کا قانون ختم ہو جائے۔ ذرا سوچئیے دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو ایک طرف کر کے فرض کریں اگر کوئی ہندؤ یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟ اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندؤں یہ برداشت کریں گے؟ ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی بھی توہین قابل قبول ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔
فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہو گیں کہ پوری دنیا کا معاشراتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔ یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟
میری گورنر صاحب اور ہر اس بندے سے گذارش ہے جو خودکو "لبرل" ظاہر کرنے کے لئے پتہ نہیں کیا کیا بیان دے جاتے ہیں کہ جناب ذرا سوچئیے کیا اس قانون کو ختم کرنے سے معاشرے میں فساد برپا نہیں ہو گا؟ باقی اگر آپ سے انتظامی امور نہیں چلائے جاتے اور آپ کے دور حکومت میں توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو برائے مہربانی اپنی کمی کو چھپانے کے لئے قانون کو ختم کرنے کے بیان نہ دیں۔ ویسے یہ تو آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ اصل خرابی کہاں ہے۔۔۔
نوٹ:- یہ کوئی فتوی نہیں بلکہ میرے خیالات و نظریات ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کو ان سے مکمل اتفاق ہو لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بحث برائے تعمیر کی بجائے بحث برائے بحث شروع کر دیں۔