محسن حجازی
محفلین
توہین رسالت اور توہین قرآن کی سزا اسلام میں کہاں بیان ہوئی ہے؟ کسی کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی حوالہ ہے؟
توہین رسالت اور توہین قرآن کی سزا اسلام میں کہاں بیان ہوئی ہے؟ کسی کے پاس قرآن و حدیث سے کوئی حوالہ ہے؟
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم محسن حجازی
قرآن میں جو بیانات ہیں وہ آپکی نظر کر دیتا ہوں اس کے بعد احادیث مبارکہ سے بھی کچھ نقل کر دیا جائے گا
--------------------------------------------------------------------------------
توہین رسالت قرآن کی نظر میں
میں نے راہ رشد و ہدایت، وہ مقدس کتاب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوئی۔ جو دنیا وکائنات کی وہ واحد دستاویز ہے، جسے رب کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جسے جبرئیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ وہ کتاب جس میں رہتی دنیا تک کے سارے معاملات لکھے ہیں۔ یہ زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی سکھاتی ہے اور روز قیامت کے حالات بھی بتاتی ہے۔ وہ کتاب جو پیدائش سے پہلے کے حال بھی بتاتی ہے اور آنے والے واقعات کی نشاندہی بھی کرتی ہے جو ہدایت کے نور سے لبالب ہے۔ آج تک ہرتشنہ لب روح کی تسکین ہے۔
میں نے سوچا، میں نے چاہا، توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ کیا احکامات دیتے ہیں اور قرآن ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے؟
سورہ احزاب کی آیت مبارک 6 نے آواز دی:
ترجمہ:
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مومنوں کے لئے اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں۔
میں محبت سے سرشار، قرآن کی تلاوت کرتا چلا گیا تو آل عمران میں رب تعالیٰ نے فرمایا
ترجمہ:
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو محبت کے ساتھ میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اور پھر قرآن نے تو جیسے فیصلہ کن اعلان فرما دیا:
ترجمہ:
کہہ دیجئے اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اگر تمہارے باپ دادا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں۔ اور وہ تجارت جس میں خسارے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں۔ اگر تمہیں زیادہ محبوب ہیں، اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے تو انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنا فیصلہ اور اللہ ایسے نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
اور پھر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان میں اعلان کردیا:
ترجمہ:
اور اسی طرح ہم نے مجرموں میں سے ہی نبی کے دشمن بنا دیئے اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا رب ہدایت دینے اور مدد کرنے کو کافی ہے۔
اور اللہ نے نبی کو ستانے والوں سے سخت اظہار ناراضگی کیا اور فرمایا:
ترجمہ:
جو لوگ اللہ کو ناراض کرتے ہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ستاتے ہیں۔ ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے۔ اور ان کے لئے اس نے رسوا کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے۔
سورة الانبیاء میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ:
اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ) جب بھی کافر آپ کو دیکھتے ہیں تو ہنسی کرتے ہیں کہ کیا یہی ہے وہ شخص جو تمہارے معبودوں کا ذکر (انکار) کیا کرتا ہے؟ حالانکہ وہ خود رحمن کے ذکر سے انکاری ہیں۔
سورہ زخرف میں ارشاد ہوا:
ترجمہ:
اور انہوں نے کہا کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں (مکہ، طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہ کیا گیا؟
اور سورہ حجر میں رب تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ:
اور انہوں نے کہا کہ وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس پر نصیحت نازل ہوئی بلاشبہ تم تو یقینا پاگل ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا:
ترجمہ:
اور انہوں نے تعصب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک خبردار کرنے والا آیا اور کافر کہنے لگے یہ تو جادوگر ہے بہت بڑا جھوٹا۔
سورة النساء میں ارشاد ہوا:
ترجمہ:
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آواس کلام کی طرف جو اللہ نے نازل فرمایا اور رسول کی طرف تو آپ کو دیکھتے ہیں کہ منافق آپ کے پاس آنے سے کتراتے ہیں۔
ارشاد ہوا:
ترجمہ:
اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہلکے کان کا ہے۔ آپ کہہ دیجیے وہ کان تمہارے بھلے کے لیے ہے۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہلِ ایمان ہیں یہ ان کے لیے رحمت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے۔
اور رب تعالیٰ نے سزا بھی سنائی گستاخان رسول کو کہ ارشاد ہوا:
ترجمہ:
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) خواہ آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش مانگیں گے تب بھی اللہ ہرگز ان کو معاف نہ فرمائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
اور یہ جو یہودی ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ کلمات کو ان کے اصل محل ومقام سے بدل دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور نہیں مانا۔ اور سنئے، نہ سننے والے ہوتے ہوئے اور زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کی راہ سے (آپ کے گفتگو کے وقت) ”راعنا“ کہتے ہیں۔ اور اگر وہ یوں کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور (صرف) اسمع اور (راعنا کی جگہ) انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ اوربات بھی بہت درست ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کررکھی ہے۔ پس ایمان نہیں لائیںگے۔
(النسا:46 )
اور اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ، آپ کی شان میں گستاخیوں کے مرتکب ہونے والوں کو کتنی بڑی سزا دیتا ہے تو
سورہ لھب کا مطالعہ فرمائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:
ٹوٹ جائیں ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ ہلاک ہو۔ اور نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا تھا۔ وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔
اور اس کے بعد ام جمیل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتی تھی اس کے انجام کا ذکر ہے۔ اس کی اولاد کے ساتھ جو کچھ ہوا تاریخ اس کی گوا ہے۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید اذیتیں ڈھائی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ ایزدی میں عرض کیا،
تو رب تعالیٰ کی طرف سے تسلی آئی اور ارشاد ہوا:
بیشک مذاق کرنے والوں (کو انجام تک پہنچانے) کے لئے ہم آپ کو کافی ہیں، جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بناتے ہیں سو وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے، اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، سو آپ حمد کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور سجود کرنے والوں میں (شامل) رہا کریں، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپ کی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂ وصالِ حق)
(حجر95۔99 )
اور بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ حدیث ہے کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے محبوب نہ ہوجاؤں اس کے مال، اس کی اولاد اور یہاں تک کہ تمام انسانوں سے۔“
اور میں قرآن پاک کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے شیلف میں رکھنے لگا تو مجھے یہ آیات پڑھ کر خیال آیا کہ توہین رسالت کی مذمت کرنا صرف آپ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ تو سنت الٰہی ہے۔ رب خود اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو مقدم جانتا ہے تو جو پھر جو آج اس قافلے کا حصہ ہیں وہ یقینا رب کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔
(طارق حسین کا دھاگہ نقل کیا گیا ھے)