توہین قرآن کا پس منظر اور پیش منظر

امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول میں ایک گرجے کے اندر چند ملعون پادریوں نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید پر مقدمہ چلانے اور اسے تیل میں بھگو کر نذر آتش کرنے کا جو وحشیانہ ڈرامہ رچایا، اس پر ہر مسلمان کا دل دکھی ہے۔ دنیا کی سب سے سچی کتاب ان نادان پادریوں نے خلوص دل سے پڑھی ہوتی تو اس نور ہدایت سے ان کے دل یقینا روشن ہو جاتے مگر اللہ کی طرف سے ہدایت بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ پادری ٹیری جونز اور پادری آئن سیپ جیسے گمراہوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے اور وہ آخرت میں عذاب عظیم کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ لعنتی پادری ٹیری جونز نے سراسر جھوٹ بولا کہ اس نے امت مسلمہ کو چیلنج کیا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

محترم مولانا امیر حمزہ نے تحریک حرمت رسول کے پلیٹ فارم سے ٹیری جونز کو انگریزی میں خط لکھ کر چیلنج کیا تھا کہ ’’تم اس سلسلے میں مجھ سے مناظرہ کر لو، میں فلوریڈا میں تمہارے چرچ آنے کو تیار ہوں‘‘۔ ملعون پادری نے خط وصول کیا اور اس کی رسید بھی موصول ہوئی،

71kkkkkkkk.jpg


پھر بھی ابلیس کے ان شاگردوں کو جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی۔ یہ اللہ اور اس کے برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور قرآن کی رو سے ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
قرآن کریم کی سچائی ظاہر و باہر ہے، یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور عہد الٰہی کے مطابق لاکھوں سینوں میں محفوظ و مامون ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کا انگریز مصنف ولیم میور لکھتا ہے: ’’جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو‘‘۔ خلیفہ مامون الرشید عباسی (218-198ھ) کی علمی مجلس مذاکرہ میں ایک یہودی آیا جس کی گفتگو سنجیدہ اور عالمانہ تھی۔ مجلس ختم ہوئی تو مامون نے امتحاناً اس سے کہا: ’’اگر تم مسلمان ہو جائو تو ہم تم سے بہت اچھا معاملہ کریں گے۔‘‘ اس نے کہا میں اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ شخص دربار سے چلا گیا اور ایک سال بعد مسلمان ہو کر آیا، اس نے فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر کی۔ اختتام مجلس پر مامون نے پوچھا: ’’کیا تم وہی شخص ہو جس نے گزشتہ سال مجھے یہ جواب دیا تھا کہ میں آبائی دین ترک نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا بے شک میں وہی ہوں۔ مامون نے کہا پھر تم کس وجہ سے مسلمان ہوئے؟ وہ کہنے لگا گزشتہ سال یہاں سے واپس جا کر میں نے موجودہ مذاہب میں تحقیق کا ارادہ کیا۔ میں ایک خطاط ہوں، میں نے امتحاناً تورات کے تین نسخے کتابت کیے جن میں کئی جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی اور وہ نسخے لے کر یہودی معبد پہنچا۔ یہودیوں نے بڑے شوق سے انہیں خرید لیا۔ پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کتابت کر کے نصاریٰ کے گرجے پہنچا اور انہوں نے بھی بڑی چاہت سے تینوں تحریف شدہ نسخے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے عمدہ کتابت کیے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے انہیں جب بازار میں فروخت کرنے گیا تو ہر کسی نے پہلے یہ دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے واپس کرتے ہوئے خریدنے سے انکار کر دیا۔ اس واقعہ سے میں نے سبق لیا کہ یہ کتاب (قرآن مجید) محفوظ ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میں مسلمان ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ للسیوطی 316/2)
دین حق کی روشنی سے بے بہرہ کفار و یہود و نصاریٰ جھوٹے ہیں۔ ان کے عقائد جھوٹے ہیں، وہ قرآن مجید اور اسلام کی صداقت کا سامنا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جھلا کر کبھی پیغمبر اسلام محمدﷺ کی توہین کرتے ہیں، کبھی اسلام کو ’’فتنہ‘‘ قرار دے کر اس عنوان سے فلم بناتے ہیں اور کبھی قرآن مجید کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہوں نے گوانتانامو کے بندی خانے میں مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآن پاک کی توہین کی اور اب فلوریڈا میں اپنی خباثت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ۔ انہیں یہ جرات اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم پر ظالم اور مغرب کے ذہنی غلام حکمران مسلط ہیں۔ ان کی اسلامیت مر چکی ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک طرف اقوام متحدہ (UN) بنا رکھی ہے۔ دوسری طرف نیٹو (NATO، معاہدہ شمالی اوقیانوس) کے نام سے ایک مضبوط عسکری اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ مختلف مسلم ممالک پر چڑھائی کے لئے یہ دونوں ادارے فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں میں داخلی اور خارجی کسی سطح پر اتحاد نہیں۔ ایک تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC)قائم ہوئی تھی مگر شاہ فیصل کی شہادت کے بعد وہ بتدریج عضوِ معطل بنتی چلی گئی حتیٰ کہ عراق اور افغانستان پر صلیبی حملے ہوئے، نبی کریمﷺ کے توہین آمیز خاکے مغربی ممالک نے شائع کیے اور اب قرآن کو جلانے کا زہرہ گدازواقعہ پیش آیا ہے مگر عالم اسلام کی طرف سے کوئی متحدہ مؤقف سامنے نہیں آیا جو صلیبیوں کے ابلیسی عزائم کا سدِباب کرتا۔ مسلمانوں کا جاندار اتحاد وقت کی ضرورت ہے جو مغرب سے مرعوب حکمرانوں کی موجودگی میں کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک مسلمانوں کے انفرادی عمل کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ زوالِ امت کا ایک اہم سبب ہے۔ ان کی اکثریت مغربی تہذیب کی والہ و شیدا ہے۔ قرآن مجید سے ان کا تعلق روزبروز کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اسے پڑھتے ہیں نہ اس میں غوروفکر کرتے ہیں۔ جن گھروں میں کبھی تلاوتِ قرآن کی مترنم صدائیں بلند ہوتی تھیں وہاں اب فلمی گانوں کے ریکارڈ سنائی دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی زندگیاں قرآنی تعلیمات سے بالکل عاری ہیں۔ انہوں نے تارکِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اسلافِ صالحین کا منہج چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے حکیم الامت علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زوال کی اس گھڑی اور ادبار کے اس مرحلے سے جلد امت کو رہائی نصیب کرے، تاہم اس سلسلے میں ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بھرپور جدوجہد کی شدید ضرورت ہے۔



بشکریہ،،،،، ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
__________________
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کچھ برس قبل پاکستان ميں ايک تحريک چلائ گئ تھی جس کا عنوان تھا "يہ ہم نہيں"۔ اس تحريک کا بنيادی خيال اس دليل کی بنياد پر تھا کہ عالمی برادری محض چند افراد اور گروہوں کے طرزعمل کی بنياد پر پورے ملک کو مورد الزام قرار دے کر ناانصافی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ لاکھوں کی تعداد ميں پاکستانيوں نے اس تحريک کی حمايت کی اور پٹشن پر دستخط کر کے يہ باور کروايا کہ کچھ افراد کے اعمال پوری قوم کی ترجمانی نہيں کرتے۔ اسی اصول اور دليل کا اطلاق امريکہ ميں پيش آنے والے واقعے پر کيوں نہيں کيا جاتا؟

جہاں تک پادری جونز اور ان کے نظريات کا تعلق ہے تو مذکورہ پادری کانگريس کے منتخب رکن ہیں اور نا ہی وہ امريکی حکومت کے کسی بھی ادارے سے وابستہ ہيں۔ بلکہ حقیقت يہ ہے کہ انھيں تو اتنی عوامی حمايت بھی حاصل نہيں کہ امريکہ کے اہم نشرياتی ادارے انھيں کوريج دے سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ افراد کے اعمال پوری قوم کی ترجمانی نہيں کرتے۔

آمنا و صدقنا، آپ کی بات مان لی لیکن پوری قوم کے اعمال تو قوم کی ترجمانی کرتے ہیں ناں۔ آج نہیں بلکہ بہت عرصہ سے پوری قوم چیخ رہی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہییں، پھر اس پر کیوں عمل نہیں ہوتا۔

باقی جہاں تک رہی قرآن کی بات تو اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ اس کی حفاظت وہ خود کرے گا۔ انشاء اللہ اس پادری کا انجام اسی دنیا میں آپ بھی دکھیں گے اور ہم بھی دیکھیں گے۔ اُس کی چکی تھوڑا دیر سے پیستی ہے لیکن یقین رکھیں کہ بہت باریک پیستی ہے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ قرآن رحمانی اور اس کے مخالف شیطانی قوت کے مظہر ہیں۔
اس حالت میں مسلمانوں پر یہ فرض ہوجاتا ہے قران کےفرمان کو اپنی زندگیوں میں نافذکرلیں یہی ان شیطانوں کو منہ توڑ جواب ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آمنا و صدقنا، آپ کی بات مان لی لیکن پوری قوم کے اعمال تو قوم کی ترجمانی کرتے ہیں ناں۔ آج نہیں بلکہ بہت عرصہ سے پوری قوم چیخ رہی ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہییں، پھر اس پر کیوں عمل نہیں ہوتا۔


کسی بھی ملک کی فوج اور حکومتی اداروں کی جانب سے سرکاری فوجی حکمت عملی ميڈيا کے چند پنڈتوں کی جانب سے مخصوص سياسی ايجنڈوں يا واقعات کے حوالے سے ان کی تشريح اور اس کی بنياد پر زمینی حقائق کے ناقص ادراک پر نہیں تشکيل دی جاتی۔ يہ ايک انتہائ غير ذمہ دار اور ناقابل عمل سوچ ہے کہ فوجی حکمت عملی اور مسلح آپريشنز جيسے اہم معاملات جن پر قومی سلامتی، علاقے کے مجموعی استحکام اور عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم امور کا دارومدار ہوتا ہے انھيں مقبوليت کے گراف اور غير مستقل عوامی تاثر کو بنياد بنا کر عملی جامہ پہنايا جائے۔ آخری تجزيے ميں حکومت کی آشيرباد کے ساتھ کسی بھی فوجی کاروائ کا بنيادی مقصد عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانا اور رياست کی حدود کے اندر حکومتی رٹ قائم کرنا ہوتا ہے۔

کوئ بھی رياست اس بات کی اجازت نہيں دے سکتی کہ مسلح گروہ اور دہشت گرد مقامی آبادی کو دہشت زدہ کر کے اپنے قوانين نافذ کريں اور مذہب سميت کسی بھی بينر کا سہارہ لے کر اپنا نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کريں۔ ايسی خوفناک صورت حال کا عملی مظاہرہ ہم سوات میں ديکھ چکے ہيں جہاں مسلح افراد نے پوری وادی کا کنٹرول سنبھال ليا تھا۔ آپ کو ياد ہو گا کہ اس وقت بھی ميڈيا پر کچھ تجزيہ نگاروں اور سياسی ماہرين نے انتہائ جذباتی انداز میں اس سوچ کا اظہار کيا تھا کہ ان کے مطالبات مان لينے ميں ہی تنازعے کا پرامن حل ممکن ہے۔ ليکن انھی ماہرین کو تھوڑے ہی عرصے ميں اپنی رائے اس وقت تبديل کرنا پڑی جب ان مسلح گروہوں نے ڈسٹرک بنير پر بھی قبضہ کر ليا اور عوامی سطح پر کھلم کھلا اعلان کر ديا کہ وہ اسلام آباد کی طرف بھی بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہيں تا کہ ايک منتخب جمہوری حکومت کو ہٹا کر پورے پاکستان اور اس کی سرحدوں سے آگے بھی اپنا مخصوص نظام نافذ کيا جا سکے۔

آپ مولوی صوفی محمد کے ان بے شمار انٹريوز سے واقف ہوں گے جن ميں انھوں نے پورے ملک کے حوالے سے اپنا ايجنڈہ تفصيل کے ساتھ سب پر عياں کيا تھا اور جن کے سامنے آنے کے بعد عوامی تاثر فوری طور پر تبديل ہو گيا اور زمينی حقائق سب پر واضح ہو گئے۔

اس ضمن ميں حاليہ واقعے کا حوالہ دوں گا جس ميں سينکڑوں کی تعداد ميں مسلح افراد نے افغان سرحد کے پاس ايک چيک پوسٹ پر رات کے وقت حملہ کيا جس کے نتيجے ميں 14 سيکورٹی اہلکار مارے گئے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ جو افراد روزانہ اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہيں ان کے خلاف کوئ کاروائ نہيں ہونی چاہيے؟

امريکی حکومت پاکستان فوج کی پرتشدد دہشت گردوں کے خلاف مسلح جدوجہد ميں دی جانے والی لازوال قربانيوں کو تسليم بھی کرتی ہے اور ان کے جذبےکو سراہتی ہے۔ ہم پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ مل کر عام لوگوں کے لیے ايک پرامن اور اور محفوظ مستقبل کے حصول کے ليے کوشاں رہيں گے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

سویدا

محفلین
صوفی محمد ، ملا عمر ، اسامہ بن لادن ، فضل اللہ ، جند اللہ وغیرہ وغیرہ یہ سب امریکہ ہی کے پروردہ لوگ ہیں بلا واسطہ یا بالواسطہ
اور اگر یہ لوگ حقیقت ہیں امریکہ کا ان کے پیچھے کسی قسم کا ہاتھ نہیں تو پھر امریکی طرز عمل سے ایسے لوگ بجائے ختم ہونے کے اور بڑھتے جائیں گے
نیز امریکہ کے نزدیک ان مذکورہ بالا پریشانیوں کا حل کیا صرف خون خرابے اور ڈرون حملوں ہی کی صورت میں ممکن ہے جبکہ ان حملوں میں آئے دن کئی معصوم انسان بشمول بچے ، بوڑھے اور عورتیں کی جانیں بھی جارہی ہیں
انسانوں کی تو خیر ہے ! کئی مظلوم اور بے گناہ جانور بھی ان حملوں کی زد میں آگئے ہیں کیا یہ حیوانوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے :)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

نیز امریکہ کے نزدیک ان مذکورہ بالا پریشانیوں کا حل کیا صرف خون خرابے اور ڈرون حملوں ہی کی صورت میں ممکن ہے جبکہ ان حملوں میں آئے دن کئی معصوم انسان بشمول بچے ، بوڑھے اور عورتیں کی جانیں بھی جارہی ہیں

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز معصوم شہريوں کے خلاف نہيں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک دہشت گرد کے خلاف جاری مہم ميں نہ تو امريکہ کی حمايت کر رہے ہوتے اور نہ ہی عملی طور پر اس سارے عمل ميں شامل ہوتے۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔

آپ کی رائے اور اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ايسے بےشمار تعميراتی منصوبے جاری ہيں جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں۔

سڑکوں اور ديگر تعميراتی منصوبے امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا اس خطے ميں امن اور استحکام قائم کرنے کی کاوشوں کا اہم ترين جزو ہے۔ يہ تعميراتی منصوبے پاکستان اور افغانستان ميں جاری دہشت گردی کے خلاف مہم کی کاميابی کے ليے کليدی حيثيت رکھتے ہيں کيونکہ نئ سڑکوں، پلوں، عمارات اور دیگر سہوليات سے معاشی صورت حال، نظام حکومت کی فعال بنانے اور عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنے ميں مدد ملتی ہے۔

يہاں ميں افغانستان ميں امريکی حکومت کے تعاون سے جاری چند منصوبوں اور عام عوام پر ان کے اثرات کے حوالے سے کچھ معلومات دے رہا ہوں۔ يہ اعداد وشمار اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ پاکستانی ميڈيا کے کچھ عناصر کی جانب سے ديے جانے والے غلط تاثر کے برعکس، امريکہ خطے ميں تمام مسائل کا واحد حل طاقت کے استعمال کو نہيں سمجھتا۔

جنوب مغرب میں:

حال ہی میں ہلمند صوبے میں واقع لشکر گاہ کی کاٹن فیکٹری کو دوبارہ کھولا گیا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے والے افغانیوں کے لیئے مذید ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں اور مقامی اقتصادیات میں نئ روح پھونکی جا رہی ہے۔ مرجاہ کے دیہاتی علاقوں، ناد علی، نوا، اور گرنشک کی تحصیلوں کو اب اس جگہ جو کہ اس سال 4000 میٹرک ٹن روئی کو پراسس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تک رسائی حاصل ہے۔ اس فیکٹری کے دوبارہ کھلنے سے 175 ملازمتوں کی بحالی ہوئی ہے اور امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں 225 مذید ملازمیتیں پیدا ہوں گی۔

ہلمند میں صوبائی گورنر گلاب مینگل نے چوتھی افغان کاروباری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوران 200 سے ذاید افغان کاروباری مردوں اور عورتوں نے افغان حکومت اور ایساف کی تعمیر نو اور ترقی کی منصوبہ بندیوں کے لیئے مقابلہ کیا۔

لشکر گاہ کے ٹیچر تربیتی کالج میں جو کہ پورے افغانستان میں 42 میں سے ایک ہے اب اساتذہ تربیتی سرٹیفیکٹ پروگرام پیش کرتا ہے جس کے ذریعے یہ افغانیوں کی پیشہ ورانہ اساتذہ کے طور پر تصدیق کرتا ہے۔ یہ وزارت تعلیم کی قوم کے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی ایک نئی کوشش ہے اور آخر کار تمام اساتذہ تربیتی کالجوں میں اس کا نفاذ ہو گا۔

جنوب میں

قندھار میں، صوبے کے گورنر طوریالی ویسی نے شہر میں قانون کے نفاذ کی عمارتوں اور مذید عملے کی بھرتی کے لیے نئے پروگرام کے لیے ترتیب دینے کی منظوری دی ہے۔ اس پروگرام میں پولیس کے سب 10سٹیشن اور پولیس کی تین افغان قومی کور کی عمارتیں تفتیش کاروں کے لیئے استعمال ہوں گیں۔

صوبہ اروزگان تعلیم کے شعبے میں بشمول 250 نئے سکولوں کے کھلنے اور 1001 سے ذاید اساتذہ اور 425 زیر تربیت اساتذا کی شاندار بڑھت دیکھی جا رہی ہے ۔ 2006 میں اس صوبے میں صرف 36 سکول کام کر رہے تھے۔

شمال میں

صوبہ سمنگم کی تحصیل ایبک میں رہائیشیوں اور افغانستان کی وزارت برائے دیہی تعمیر نو اور ترقی نے مل کر دو درجن سے ذاید کے ترقیاتی پراجیکٹس حکومت کے قومی اتحاد پروگرام کے زیر نگرانی مکمل کیئے۔ ان منصوبوں میں 125 میل لمبی کچی سڑکوں کی سطح پر پتھر ڈالنے، 14 چھوٹے پلوں کی تعمیر، نکاسی کی 9001 میٹر لمبی نکاسی کی نالیوں کو اینٹوں کے ذریعے پکا کرنا، دو پانی کے ٹینکوں کی تعمیر، چار کنوں کے لیئے کھدائی اور عورتوں کے لیے کڑھائی کی تربیت کے کورس شامل ہیں۔ 3000 سے زاید خاندان ان مختلف منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔

مزارے شریف اور قندوز شھر میں، نفیس ریشم کے قالین اور کپڑوں کے لیئے ریشمی کیڑوں کے پالنے کا پراجیکٹ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ مزارے شریف میں صرف خواتین کے بازار میں 20 دوکانوں کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ دونوں منصوبے عورتوں کے لیئے مستحکم ملازمتوں کے مواقعے مہیا کر رہے ہیں۔

مزارے شریف میں افغان حکومت، افغان متحدہ سیکیوریٹی فورسز، ایساف اورعلاقے کے رہائیشیوں نے علی آباد سکول ڈیویلوپمنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ اس پراجیکٹ میں دو نئی عمارتوں کی تعمیر جس میں سے ہرعمارت 30 کمروں پر مشتمل ہو گی، 3000 طلباء کے لیئے مذید جگہ فراہم کرے گی۔ یہ سکول تعلیم یافتہ کارکنوں کی ایسی کھیپ مہیا کرے گا جو علاقے کی اقتصادی ترقی میں حصہ لیں گے۔

مشرق میں

22 اکتوبر کو صوبہ وردک کی بہسود کی تحصیل میں جہاں اب 80000 لوگوں کی خدمت کے لیئے حاضر ہیں اور جہاں تحصیل کی 90 فیصد آبادی کے لیئے چار صحت کے مراکز عوام کے لیئے کھولے گئے ہیں ۔

صوبہ کنر کی تحصیل شیگال میں 116 افغان مردوں نے کنر تعمیراتی مرکز (کے سی سی) سے تعلیم حاصل کی۔ کے سی سی مستری، پینٹ، پلمبنگ، بڑھئی اور بجلی کے کاموں کی تربیت کنر، نورستان، لغمان اور ننگرہار کے نوجوان مردوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں تعمیراتی کاموں کی بہت بنیادی ملازمیتیں بھی غیر ملکی مزدوروں کے ذریعے کی جاتیں تھیں۔ ایک حالیہ سروے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کے سی سی کے 80 فیصد تعلیم یافتہ اب افغانستان کے مشرقی علاقے میں ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔

مغرب میں

ہرات کی یورنیورسٹی اس وقت زعفران کی بہتر کاشت اور اس کو پوست کے بہتر متبادل کے طور پر اگانے کے طریقوں پرتحقیق کر رہی ہے۔ اٹالین صوبائی تعمیر نو کی ٹیم نے 400 کلوگرام کی تازہ زعفران کی جڑوں کا عطیہ یورنیورسٹی کی تحقیق کے لیئے فراہم کیا ہے۔

دارالخلافہ کے علاقے میں

کابل میں بادام باغ فارم پر ہزاروں لوگوں نے دو دنوں پر مشتمل بین الاقوامی زرعی میلے میں حصہ لیا جس کا انعقاد 6 اکتوبر کو ہوا۔ اس میلے میں 136 افغان اور 40 بین الاقوامی دوکانداروں نے شرکت کی جو اپنی زرعی خدمات اور مہنگی بکنے والی فصلوں اور اجناس مثلا" انگور، انار، خشک فروٹ، مغزوں اور خالص پشمینہ اون کی نمائیش کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

سویدا

محفلین
فواد بھائی یہ افغانستان کی باتیں افغانیوں کو بتایے گا ہمیں صرف پاکستان کی تباہ کاریوں کے اعداد وشمار بتایے
پاکستان کے مشرق مغرب شمال جنوب ہر ہر سمت میں صرف اور صرف تباہی خود کش حملے یہ سب کچھ امریکہ کی مداخلت کے بعد شروع ہوا ہے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا
پاکستان کے حالات کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری امریکہ کی افغان پالیسی کی وجہ سے ہے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پاکستان کے مشرق مغرب شمال جنوب ہر ہر سمت میں صرف اور صرف تباہی خود کش حملے یہ سب کچھ امریکہ کی مداخلت کے بعد شروع ہوا ہے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں تھا
پاکستان کے حالات کی خرابی کی تمام تر ذمہ داری امریکہ کی افغان پالیسی کی وجہ سے ہے


آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

ميں نے اسی فورم پرکچھ دستاويزات کے لنکس ديے ہيں جن سے يہ واضح ہے کہ امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا تھا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد حکومت پاکستان اور طالبان حکومت کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں بلکہ دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔

http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=258593#post258593

يہ تمام دستاويزات سال 2001 کے واقعات سے قبل امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے مابين دہشت گردی کے حوالے سے تبادلہ خيال کی نوعيت کو واضح کرتے ہیں۔

آپ اس دستاويزی ثبوت کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے جبکہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top