ایم اسلم اوڈ
محفلین
امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر گینزول میں ایک گرجے کے اندر چند ملعون پادریوں نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید پر مقدمہ چلانے اور اسے تیل میں بھگو کر نذر آتش کرنے کا جو وحشیانہ ڈرامہ رچایا، اس پر ہر مسلمان کا دل دکھی ہے۔ دنیا کی سب سے سچی کتاب ان نادان پادریوں نے خلوص دل سے پڑھی ہوتی تو اس نور ہدایت سے ان کے دل یقینا روشن ہو جاتے مگر اللہ کی طرف سے ہدایت بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ پادری ٹیری جونز اور پادری آئن سیپ جیسے گمراہوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے، ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے اور وہ آخرت میں عذاب عظیم کے مستحق ٹھہرے ہیں۔ لعنتی پادری ٹیری جونز نے سراسر جھوٹ بولا کہ اس نے امت مسلمہ کو چیلنج کیا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
محترم مولانا امیر حمزہ نے تحریک حرمت رسول کے پلیٹ فارم سے ٹیری جونز کو انگریزی میں خط لکھ کر چیلنج کیا تھا کہ ’’تم اس سلسلے میں مجھ سے مناظرہ کر لو، میں فلوریڈا میں تمہارے چرچ آنے کو تیار ہوں‘‘۔ ملعون پادری نے خط وصول کیا اور اس کی رسید بھی موصول ہوئی،
پھر بھی ابلیس کے ان شاگردوں کو جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی۔ یہ اللہ اور اس کے برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور قرآن کی رو سے ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
قرآن کریم کی سچائی ظاہر و باہر ہے، یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور عہد الٰہی کے مطابق لاکھوں سینوں میں محفوظ و مامون ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کا انگریز مصنف ولیم میور لکھتا ہے: ’’جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو‘‘۔ خلیفہ مامون الرشید عباسی (218-198ھ) کی علمی مجلس مذاکرہ میں ایک یہودی آیا جس کی گفتگو سنجیدہ اور عالمانہ تھی۔ مجلس ختم ہوئی تو مامون نے امتحاناً اس سے کہا: ’’اگر تم مسلمان ہو جائو تو ہم تم سے بہت اچھا معاملہ کریں گے۔‘‘ اس نے کہا میں اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ شخص دربار سے چلا گیا اور ایک سال بعد مسلمان ہو کر آیا، اس نے فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر کی۔ اختتام مجلس پر مامون نے پوچھا: ’’کیا تم وہی شخص ہو جس نے گزشتہ سال مجھے یہ جواب دیا تھا کہ میں آبائی دین ترک نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا بے شک میں وہی ہوں۔ مامون نے کہا پھر تم کس وجہ سے مسلمان ہوئے؟ وہ کہنے لگا گزشتہ سال یہاں سے واپس جا کر میں نے موجودہ مذاہب میں تحقیق کا ارادہ کیا۔ میں ایک خطاط ہوں، میں نے امتحاناً تورات کے تین نسخے کتابت کیے جن میں کئی جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی اور وہ نسخے لے کر یہودی معبد پہنچا۔ یہودیوں نے بڑے شوق سے انہیں خرید لیا۔ پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کتابت کر کے نصاریٰ کے گرجے پہنچا اور انہوں نے بھی بڑی چاہت سے تینوں تحریف شدہ نسخے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے عمدہ کتابت کیے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے انہیں جب بازار میں فروخت کرنے گیا تو ہر کسی نے پہلے یہ دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے واپس کرتے ہوئے خریدنے سے انکار کر دیا۔ اس واقعہ سے میں نے سبق لیا کہ یہ کتاب (قرآن مجید) محفوظ ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میں مسلمان ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ للسیوطی 316/2)
دین حق کی روشنی سے بے بہرہ کفار و یہود و نصاریٰ جھوٹے ہیں۔ ان کے عقائد جھوٹے ہیں، وہ قرآن مجید اور اسلام کی صداقت کا سامنا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جھلا کر کبھی پیغمبر اسلام محمدﷺ کی توہین کرتے ہیں، کبھی اسلام کو ’’فتنہ‘‘ قرار دے کر اس عنوان سے فلم بناتے ہیں اور کبھی قرآن مجید کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہوں نے گوانتانامو کے بندی خانے میں مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآن پاک کی توہین کی اور اب فلوریڈا میں اپنی خباثت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ۔ انہیں یہ جرات اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم پر ظالم اور مغرب کے ذہنی غلام حکمران مسلط ہیں۔ ان کی اسلامیت مر چکی ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک طرف اقوام متحدہ (UN) بنا رکھی ہے۔ دوسری طرف نیٹو (NATO، معاہدہ شمالی اوقیانوس) کے نام سے ایک مضبوط عسکری اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ مختلف مسلم ممالک پر چڑھائی کے لئے یہ دونوں ادارے فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں میں داخلی اور خارجی کسی سطح پر اتحاد نہیں۔ ایک تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC)قائم ہوئی تھی مگر شاہ فیصل کی شہادت کے بعد وہ بتدریج عضوِ معطل بنتی چلی گئی حتیٰ کہ عراق اور افغانستان پر صلیبی حملے ہوئے، نبی کریمﷺ کے توہین آمیز خاکے مغربی ممالک نے شائع کیے اور اب قرآن کو جلانے کا زہرہ گدازواقعہ پیش آیا ہے مگر عالم اسلام کی طرف سے کوئی متحدہ مؤقف سامنے نہیں آیا جو صلیبیوں کے ابلیسی عزائم کا سدِباب کرتا۔ مسلمانوں کا جاندار اتحاد وقت کی ضرورت ہے جو مغرب سے مرعوب حکمرانوں کی موجودگی میں کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک مسلمانوں کے انفرادی عمل کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ زوالِ امت کا ایک اہم سبب ہے۔ ان کی اکثریت مغربی تہذیب کی والہ و شیدا ہے۔ قرآن مجید سے ان کا تعلق روزبروز کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اسے پڑھتے ہیں نہ اس میں غوروفکر کرتے ہیں۔ جن گھروں میں کبھی تلاوتِ قرآن کی مترنم صدائیں بلند ہوتی تھیں وہاں اب فلمی گانوں کے ریکارڈ سنائی دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی زندگیاں قرآنی تعلیمات سے بالکل عاری ہیں۔ انہوں نے تارکِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اسلافِ صالحین کا منہج چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے حکیم الامت علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زوال کی اس گھڑی اور ادبار کے اس مرحلے سے جلد امت کو رہائی نصیب کرے، تاہم اس سلسلے میں ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بھرپور جدوجہد کی شدید ضرورت ہے۔
بشکریہ،،،،، ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
__________________
محترم مولانا امیر حمزہ نے تحریک حرمت رسول کے پلیٹ فارم سے ٹیری جونز کو انگریزی میں خط لکھ کر چیلنج کیا تھا کہ ’’تم اس سلسلے میں مجھ سے مناظرہ کر لو، میں فلوریڈا میں تمہارے چرچ آنے کو تیار ہوں‘‘۔ ملعون پادری نے خط وصول کیا اور اس کی رسید بھی موصول ہوئی،
پھر بھی ابلیس کے ان شاگردوں کو جھوٹ بولتے شرم نہیں آتی۔ یہ اللہ اور اس کے برگزیدہ نبیوں پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور قرآن کی رو سے ’’جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔
قرآن کریم کی سچائی ظاہر و باہر ہے، یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے اور عہد الٰہی کے مطابق لاکھوں سینوں میں محفوظ و مامون ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کا انگریز مصنف ولیم میور لکھتا ہے: ’’جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو‘‘۔ خلیفہ مامون الرشید عباسی (218-198ھ) کی علمی مجلس مذاکرہ میں ایک یہودی آیا جس کی گفتگو سنجیدہ اور عالمانہ تھی۔ مجلس ختم ہوئی تو مامون نے امتحاناً اس سے کہا: ’’اگر تم مسلمان ہو جائو تو ہم تم سے بہت اچھا معاملہ کریں گے۔‘‘ اس نے کہا میں اپنا آبائی دین نہیں چھوڑ سکتا۔
وہ شخص دربار سے چلا گیا اور ایک سال بعد مسلمان ہو کر آیا، اس نے فقہ اسلامی کے موضوع پر بہترین تقریر کی۔ اختتام مجلس پر مامون نے پوچھا: ’’کیا تم وہی شخص ہو جس نے گزشتہ سال مجھے یہ جواب دیا تھا کہ میں آبائی دین ترک نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا بے شک میں وہی ہوں۔ مامون نے کہا پھر تم کس وجہ سے مسلمان ہوئے؟ وہ کہنے لگا گزشتہ سال یہاں سے واپس جا کر میں نے موجودہ مذاہب میں تحقیق کا ارادہ کیا۔ میں ایک خطاط ہوں، میں نے امتحاناً تورات کے تین نسخے کتابت کیے جن میں کئی جگہ اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی اور وہ نسخے لے کر یہودی معبد پہنچا۔ یہودیوں نے بڑے شوق سے انہیں خرید لیا۔ پھر اسی طرح انجیل کے تین نسخے کتابت کر کے نصاریٰ کے گرجے پہنچا اور انہوں نے بھی بڑی چاہت سے تینوں تحریف شدہ نسخے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے عمدہ کتابت کیے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر کے انہیں جب بازار میں فروخت کرنے گیا تو ہر کسی نے پہلے یہ دیکھا کہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ جب کمی بیشی نظر آئی تو اس نے واپس کرتے ہوئے خریدنے سے انکار کر دیا۔ اس واقعہ سے میں نے سبق لیا کہ یہ کتاب (قرآن مجید) محفوظ ہے اور خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد میں مسلمان ہوگیا۔ (الخصائص الکبریٰ للسیوطی 316/2)
دین حق کی روشنی سے بے بہرہ کفار و یہود و نصاریٰ جھوٹے ہیں۔ ان کے عقائد جھوٹے ہیں، وہ قرآن مجید اور اسلام کی صداقت کا سامنا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جھلا کر کبھی پیغمبر اسلام محمدﷺ کی توہین کرتے ہیں، کبھی اسلام کو ’’فتنہ‘‘ قرار دے کر اس عنوان سے فلم بناتے ہیں اور کبھی قرآن مجید کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہوں نے گوانتانامو کے بندی خانے میں مسلمان قیدیوں کے سامنے قرآن پاک کی توہین کی اور اب فلوریڈا میں اپنی خباثت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ۔ انہیں یہ جرات اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم پر ظالم اور مغرب کے ذہنی غلام حکمران مسلط ہیں۔ ان کی اسلامیت مر چکی ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک طرف اقوام متحدہ (UN) بنا رکھی ہے۔ دوسری طرف نیٹو (NATO، معاہدہ شمالی اوقیانوس) کے نام سے ایک مضبوط عسکری اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ مختلف مسلم ممالک پر چڑھائی کے لئے یہ دونوں ادارے فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں میں داخلی اور خارجی کسی سطح پر اتحاد نہیں۔ ایک تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC)قائم ہوئی تھی مگر شاہ فیصل کی شہادت کے بعد وہ بتدریج عضوِ معطل بنتی چلی گئی حتیٰ کہ عراق اور افغانستان پر صلیبی حملے ہوئے، نبی کریمﷺ کے توہین آمیز خاکے مغربی ممالک نے شائع کیے اور اب قرآن کو جلانے کا زہرہ گدازواقعہ پیش آیا ہے مگر عالم اسلام کی طرف سے کوئی متحدہ مؤقف سامنے نہیں آیا جو صلیبیوں کے ابلیسی عزائم کا سدِباب کرتا۔ مسلمانوں کا جاندار اتحاد وقت کی ضرورت ہے جو مغرب سے مرعوب حکمرانوں کی موجودگی میں کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک مسلمانوں کے انفرادی عمل کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ زوالِ امت کا ایک اہم سبب ہے۔ ان کی اکثریت مغربی تہذیب کی والہ و شیدا ہے۔ قرآن مجید سے ان کا تعلق روزبروز کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اسے پڑھتے ہیں نہ اس میں غوروفکر کرتے ہیں۔ جن گھروں میں کبھی تلاوتِ قرآن کی مترنم صدائیں بلند ہوتی تھیں وہاں اب فلمی گانوں کے ریکارڈ سنائی دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی زندگیاں قرآنی تعلیمات سے بالکل عاری ہیں۔ انہوں نے تارکِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اسلافِ صالحین کا منہج چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے حکیم الامت علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ زوال کی اس گھڑی اور ادبار کے اس مرحلے سے جلد امت کو رہائی نصیب کرے، تاہم اس سلسلے میں ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بھرپور جدوجہد کی شدید ضرورت ہے۔
بشکریہ،،،،، ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
__________________