تو جو اس وصف سے منسوب ہوا، خوب ہوا - جارج پیش شورؔ (مسیحی شاعری)

حسان خان

لائبریرین
تو جو اس وصف سے منسوب ہوا، خوب ہوا
یعنی فرزندِ خدا خوب ہوا، خوب ہوا

دونوں عالم کا تو ہی شافع ہے اے میرے مسیح
طالبوں کا تو ہی مطلوب ہوا، خوب ہوا

حشر میں فخر نہ کیونکر ہو تری امت کو
جان دینا تجھے مرغوب ہوا، خوب ہوا

کوئی کونین میں نوری نہ ہوا تیرے سوا
جلوۂ حق سے خوش اسلوب ہوا، خوب ہوا

جان دینے میں بجز شکر نہ نکلا منہ سے
صبر میں ہادیِ ایوب ہوا، خوب ہوا

دیکھا یوسف کو تو آنکھیں کھلیں دم میں اُس کی
نورِ بینائیِ یعقوب ہوا، خوب ہوا

تری بخشش میں نہیں شورؔ رہا شک باقی
اپنے عصیاں سے تو محجوب ہوا، خوب ہوا

(جارج پیش شورؔ)
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ کلا م ہے۔
آخری شعر میں 'اپنی'کی بجائے 'اپنے' نہیں ہونا چاہئے تھا؟
اپنے عصیاں سے تو محجوب ہوا، خوب ہوا
 

حسان خان

لائبریرین
بہت عمدہ کلا م ہے۔
آخری شعر میں 'اپنی'کی بجائے 'اپنے' نہیں ہونا چاہئے تھا؟
اپنے عصیاں سے تو محجوب ہوا، خوب ہوا

تصحیح کے لیے بہت شکریہ تلمیذ صاحب۔
ایک تو پرانی کتابوں میں یائے مجہول اور یائے معروف کا فرق ہی نہیں رکھا جاتا تھا، اوپر سے میں یہ فیصلہ بھی نہیں کر پا رہا تھا کہ عصیان اسمِ مذکر ہے یا پھر مؤنث۔۔ ابھی آپ کی تصحیح کرنے پر ایک لغت دیکھی تو معلوم ہوا کہ یہ اسمِ مذکر ہے۔ لہذا اس اسم سے پہلے 'اپنی' کے بجائے 'اپنے' ہی آنا چاہیے۔
 
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ۔
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
اللَّهُ الصَّمَدُ ۔
اللہ بےنیاز ہے
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔
نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں

۔۔۔۔۔۔
 
Top