کاشفی
محفلین
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے
ترے قرب نے جو بڑھا دئے کبھی مٹ سکے نہ وہ فاصلے
وہی پاؤں ہیں وہی آبلے وہی اپنا ذوق سفر بھی ہے
بہ ہزار دانش و آگہی مری مصلحت ہے ابھی یہی
میں اسیرِ ظلمتِ شب سہی مری دسترس میں سحر بھی ہے
ہمہ کشمکش مری زندگی کبھی آ کے دیکھ یہ بے بسی
تری یاد عین سکوں سہی وہی راز دیدۂ تر بھی ہے
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی راہ گزر بھی ہے
ترے قرب نے جو بڑھا دئے کبھی مٹ سکے نہ وہ فاصلے
وہی پاؤں ہیں وہی آبلے وہی اپنا ذوق سفر بھی ہے
بہ ہزار دانش و آگہی مری مصلحت ہے ابھی یہی
میں اسیرِ ظلمتِ شب سہی مری دسترس میں سحر بھی ہے
ہمہ کشمکش مری زندگی کبھی آ کے دیکھ یہ بے بسی
تری یاد عین سکوں سہی وہی راز دیدۂ تر بھی ہے