حسان خان
لائبریرین
تو نے حُسین دہر کو ششدر بنا دیا
طوفاں کو ناؤ، سیل کو لنگر بنا دیا
اُن تلخیوں کو قند بنایا جو زہر تھیں
پھر مسکرا کے قندِ مکرر بنا دیا
مولا حبیب ابنِ مظاہر کے شیب کو
تو نے شبابِ قاسم و اکبر بنا دیا
مقتل میں صرف ایک تبسم کی موج نے
زنجیرِ غم کو زلفِ معنبر بنا دیا
جس تشنگی کی آگ پہ تھی کربلا کی دھوپ
اس تشنگی کو چشمۂ کوثر بنا دیا
جو کاٹتا ہے گردنِ شاہانِ حق شکن
اپنی رگِ گلو کو وہ خنجر بنا دیا
جب پتھروں کو لوگ بتوں میں بدل چکے
تو نے بتوں کو توڑ کے پتھر بنا دیا
تیرے ثبات و عزم نے خود دوشِ موت کو
اک دائمی حیات کا منبر بنا دیا
یوں سر جھکا دیا کہ ردائے نیاز کو
ہم رنگِ نازِ حضرتِ داور بنا دیا
جس اک عدد میں دولتِ ذبحِ عظیم تھی
تو نے اس اک عدد کو بہتّر بنا دیا
(جوش ملیح آبادی)