آصف شفیع
محفلین
ثناءاللہ شاہ کی ایک غزل احباب کی نذر:
تو نے سمجھا ہی نہیں میری محبت کا مزاج
میں تری سوچ سے آگے بھی تو جا سکتا ہوں
میں اکیلا ہی نہیں، ساتھ مرے تو بھی تو ہے
آسماں چھو کے میں واپس بھی تو آ سکتا ہوں
میںہوں مٹی تو مرا رزق زمیں تک ہی نہیں
میںتو جنت میںبھی اک پیڑ لگا سکتا ہوں
میںہوں انساں مرا مٹی سے خمیر اٹھا ہے
اپنے رونے سے مگر عرش ہلا سکتا ہوں
تو نے ایسے ہی زمانے کا کہا مان لیا
تیری تحریر کو میں کیسے جلا سکتا ہوں
(ثناءاللہ شاہ)
تو نے سمجھا ہی نہیں میری محبت کا مزاج
میں تری سوچ سے آگے بھی تو جا سکتا ہوں
میں اکیلا ہی نہیں، ساتھ مرے تو بھی تو ہے
آسماں چھو کے میں واپس بھی تو آ سکتا ہوں
میںہوں مٹی تو مرا رزق زمیں تک ہی نہیں
میںتو جنت میںبھی اک پیڑ لگا سکتا ہوں
میںہوں انساں مرا مٹی سے خمیر اٹھا ہے
اپنے رونے سے مگر عرش ہلا سکتا ہوں
تو نے ایسے ہی زمانے کا کہا مان لیا
تیری تحریر کو میں کیسے جلا سکتا ہوں
(ثناءاللہ شاہ)