کاشفی
محفلین
غزل
(حفیظ ہوشیار پوری)
تو وہ عہدِ رفتہ کی یاد ہے کہ نہ جس کو دل سے بھلا سکوں
میں وہ بھولا بسرا سا خواب ہوں کہ کسی کو یاد نہ آسکوں
کوئی پوچھتا ہے جو حالِ دل تو میں سوچتا ہوں کہ کیا کہوں
ترا احترام ہے اس قدر کہ زبان تک نہ ہلا سکوں
یہ تری جفا کی ہے اتنہا کہ تو مجھ کو یاد نہ کر سکے
یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نہ تجھ کو دل سے بھُلا سکوں
مرے جذبِ عشق کو کیا ہوا، وہ کہاں گئی کششِ وفا
مجھے کوئی یاد کرے گا کیا جو تمہیں کو یاد نہ آسکوں