عاطف بٹ
محفلین
تو پرندے مار دے سرو و صنوبر مار دے
تیری مرضی جس کو دہشت گرد کہہ کر مار دے
تیرا اس کے ماننے والوں سے پالا پڑ گیا
جو پرندے بھیج کر لشکر کے لشکر مار دے
تم بھی موسیٰ کے تعاقب میں چلے تو آئے ہو
دیکھنا تم کو نہ یہ نیلا سمندر مار دے
تو نے جس کے ڈھونڈنے کو بھیج دی اتنی سپاہ
یہ نہ ہو وہ تجھ کو تیرے گھر کے اندر مار دے
اس کو کیا حق ہے یہاں بارود کی بارش کرے
اس کو کیا حق ہے مرے رنگلے کبوتر مار دے
فیصلے تاریخ کے، میدان میں ہوتے نہیں
مارنے والو! کوئی تم کو نہ مر کر مار دے
روشنی کے واسطے پندار کا سودا نہ کر
سامنے سورج بھی ہے تو اس کو ٹھوکر مار دے
گونج تو بھی اس کے لہجے میں پہاڑوں کی طرح
تابش اس کی بات تو بھی اس کے منہ پر مار دے