خلیل الرّحمٰن
محفلین
تسلیمات !
اُردو محفل سے چند سال پہلے سے واقف ہوں مگر خود کے اندارج کے معاملے میں مسلسل سُست روی کا شکار تھا۔ ابھی کچھ فکری اور سماجی آسودگی میّسر آئی ہے تو اِس بزمِ فراخ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے چلا آیا۔
میرے والدین کا تعلق اندرون شہر لاہور ، محلہ خرادیاں عقب مسجد وزیر خاں سے ہے مگر میری پیدائش کی سعادت شمالی لاہور کو نصیب ہوئی۔ اُردو کی خدمت کے سلسلے میں اِس علاقے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں دو آفاقی ضربالاِمثال ایجاد ہوئیں جنھیں ہر پاکستانی یوں جانتا ہے: "جمال ہی کمال ہے" اور "کمال ہی جمال ہے" ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں جملے بالترتیب جمال سٹیل اور کمال سٹیل والوں نے رجسٹر کروا رکھے ہیں۔۔ اخلاقاً تو مجھے خلیل ہی کہا جاتا ہے ، مگر کچھ عزیز "خلیل الرّحمٰن رمدے" یا "میرخلیل الرّحمٰن" کے نام سے بھی پُکار لیا کرتے ہیں۔ حاسدین البتہ مجھے خلیل میاں فاختہ اُڑانے والے کے نام سے یاد کرتے ہیں جو سراسر اُن کی بے بسی کی علامت ہے۔
ادب اور آداب وغیرہ سے کچھ دُور کا تعلق سا ہے اور میں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ دُور کے ڈھول سُہانے والا محاورہ درست ہے۔ والد صاحب کتابوں کا شغف فرمایا کرتے تھے مگر گھریلو حالاتِ کسمپرسی نے مجھے ایسی ہر آلائش سے محفوظ رکھا۔ زمانہءِ شاگردی مدرسہ میں کھیل کود، ایّامِ طالبعلمی کلیّہ میں نمبروں کی بھاگ دوڑ اور دَورِ پیشہ گری جامعہ کے تدریسی اوقات کے دوران آوارہ گردی میں صرف کیے۔ لہٰذا کبھی فنونِ لطیفہ کے مطالعہ کی مشقت اُٹھانے کی نوبت ہی نہ آ سکی البتہ عاشق معشوقی میں ملوث دوستوں سے کبھی کبھار شاعری پرھنے کو مستعار مل جاتی تھی۔ چونکہ جامعہ مہندس و صنعت (UET) لاہور سے فارغ التحصیل ہوتے وقت میں انگریزی میں مہارت اور جرمن زبان سے آشنائی حاصل کر چُکا تھا اِسی لیے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری لیتے ہی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر جرمنی پر اپنی آمد کا احسان کر دیا۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ میں عرصہ آٹھ سال سے جرمنی میں مقیم ہوں اور چند سال سے حرارتی بجلی گھر بنانے والے ایک ادارے میں ملازمت کر رہا ہوں۔ صرف ایک عدد بیوی اور میرے دو عدد بچے بھی میرے ساتھ ہی یہاں مقیم ہیں جو میرا گھر میں ایک منٹ بھی کمپیوٹر پر بیٹھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ مجبوراً اِس لفاظی کے فتور کا نشہ پورا کرنے کے لیے مجھے نیند کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ مگر اِس محفل کے شُرکاء کی محنت اور لگن کو دیکھا جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔
غالبؔ اور اسی قماش کے دوسرے قدیم شعراء پسند ہیں۔ فکرِ اقبال پر بھی غور کرتا رہتا ہوں اور اِسکے بعد حفیظ جالندھری اور صوفی تبسّم پسند ہیں۔ نوجوان شعرا جو اِملاء کی غلطیوں سے بھرپور غزلیں تخلیق کرتے ہیں اُنھیں بھی برداشت کر لیتا ہوں۔لیکن وہ تمام نقلی شاعری جو کسی شاعر کی طبیعت اور نظریات کے برعکس اُس سے منسوب کر دی جاتی ہے ، میری برداشت سے باہر ہے۔ خود باقاعدہ لکھاری تو نہیں ہوں مگر فیس بُک نامی کارخانہ میں سیاسی نونہالوں کی رگڑائی ، خود ساختہ مفکّروں کی دُھلائی اور مذہبی جنونیوں کی مرمت کا کام تسلی بخش طریقے سے کر لیتا ہوں۔ نظم یا غزل نما ایک دو صفحوں کی کچھ شاعری بھی لکھ رکھی ہے مگر بے عزتی اور اندیشہءِ نقصِ امنِ عامہ کے خوف سے کسی کو پیش نہیں کی۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ میری کم علمی ، کم آموزی اور کم مائیگی سے درگُزر فرمائیں گے۔ اور توقع کرتا ہوں کہ آپ احباب خود کو حسبِ روایت مجھ سے کچھ نا کچھ سیکھنے کی غلط فہمی میں مبتلا کر لیں گے۔
رفیق و خلیل
خلیل الرّ حمٰن
اُردو محفل سے چند سال پہلے سے واقف ہوں مگر خود کے اندارج کے معاملے میں مسلسل سُست روی کا شکار تھا۔ ابھی کچھ فکری اور سماجی آسودگی میّسر آئی ہے تو اِس بزمِ فراخ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے چلا آیا۔
میرے والدین کا تعلق اندرون شہر لاہور ، محلہ خرادیاں عقب مسجد وزیر خاں سے ہے مگر میری پیدائش کی سعادت شمالی لاہور کو نصیب ہوئی۔ اُردو کی خدمت کے سلسلے میں اِس علاقے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں دو آفاقی ضربالاِمثال ایجاد ہوئیں جنھیں ہر پاکستانی یوں جانتا ہے: "جمال ہی کمال ہے" اور "کمال ہی جمال ہے" ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں جملے بالترتیب جمال سٹیل اور کمال سٹیل والوں نے رجسٹر کروا رکھے ہیں۔۔ اخلاقاً تو مجھے خلیل ہی کہا جاتا ہے ، مگر کچھ عزیز "خلیل الرّحمٰن رمدے" یا "میرخلیل الرّحمٰن" کے نام سے بھی پُکار لیا کرتے ہیں۔ حاسدین البتہ مجھے خلیل میاں فاختہ اُڑانے والے کے نام سے یاد کرتے ہیں جو سراسر اُن کی بے بسی کی علامت ہے۔
ادب اور آداب وغیرہ سے کچھ دُور کا تعلق سا ہے اور میں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ دُور کے ڈھول سُہانے والا محاورہ درست ہے۔ والد صاحب کتابوں کا شغف فرمایا کرتے تھے مگر گھریلو حالاتِ کسمپرسی نے مجھے ایسی ہر آلائش سے محفوظ رکھا۔ زمانہءِ شاگردی مدرسہ میں کھیل کود، ایّامِ طالبعلمی کلیّہ میں نمبروں کی بھاگ دوڑ اور دَورِ پیشہ گری جامعہ کے تدریسی اوقات کے دوران آوارہ گردی میں صرف کیے۔ لہٰذا کبھی فنونِ لطیفہ کے مطالعہ کی مشقت اُٹھانے کی نوبت ہی نہ آ سکی البتہ عاشق معشوقی میں ملوث دوستوں سے کبھی کبھار شاعری پرھنے کو مستعار مل جاتی تھی۔ چونکہ جامعہ مہندس و صنعت (UET) لاہور سے فارغ التحصیل ہوتے وقت میں انگریزی میں مہارت اور جرمن زبان سے آشنائی حاصل کر چُکا تھا اِسی لیے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری لیتے ہی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر جرمنی پر اپنی آمد کا احسان کر دیا۔
موجودہ حالات یہ ہیں کہ میں عرصہ آٹھ سال سے جرمنی میں مقیم ہوں اور چند سال سے حرارتی بجلی گھر بنانے والے ایک ادارے میں ملازمت کر رہا ہوں۔ صرف ایک عدد بیوی اور میرے دو عدد بچے بھی میرے ساتھ ہی یہاں مقیم ہیں جو میرا گھر میں ایک منٹ بھی کمپیوٹر پر بیٹھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ مجبوراً اِس لفاظی کے فتور کا نشہ پورا کرنے کے لیے مجھے نیند کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ مگر اِس محفل کے شُرکاء کی محنت اور لگن کو دیکھا جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔
غالبؔ اور اسی قماش کے دوسرے قدیم شعراء پسند ہیں۔ فکرِ اقبال پر بھی غور کرتا رہتا ہوں اور اِسکے بعد حفیظ جالندھری اور صوفی تبسّم پسند ہیں۔ نوجوان شعرا جو اِملاء کی غلطیوں سے بھرپور غزلیں تخلیق کرتے ہیں اُنھیں بھی برداشت کر لیتا ہوں۔لیکن وہ تمام نقلی شاعری جو کسی شاعر کی طبیعت اور نظریات کے برعکس اُس سے منسوب کر دی جاتی ہے ، میری برداشت سے باہر ہے۔ خود باقاعدہ لکھاری تو نہیں ہوں مگر فیس بُک نامی کارخانہ میں سیاسی نونہالوں کی رگڑائی ، خود ساختہ مفکّروں کی دُھلائی اور مذہبی جنونیوں کی مرمت کا کام تسلی بخش طریقے سے کر لیتا ہوں۔ نظم یا غزل نما ایک دو صفحوں کی کچھ شاعری بھی لکھ رکھی ہے مگر بے عزتی اور اندیشہءِ نقصِ امنِ عامہ کے خوف سے کسی کو پیش نہیں کی۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ میری کم علمی ، کم آموزی اور کم مائیگی سے درگُزر فرمائیں گے۔ اور توقع کرتا ہوں کہ آپ احباب خود کو حسبِ روایت مجھ سے کچھ نا کچھ سیکھنے کی غلط فہمی میں مبتلا کر لیں گے۔
رفیق و خلیل
خلیل الرّ حمٰن