منصور مکرم
محفلین
سر جی کو روزہ لگ رہا ہے
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
دس دن پہلے میں اپنے ایک پرانے سکول فیلو کے لیے افطاری سے بھرا شاپنگ بیگ اور سگریٹ کے دو ڈنڈے (کارٹن) لے کے جیل کے اندرونی آہنی صدر دروازے پر پہنچا۔ سنتری بادشاہ نے کہا کہ پہلے جیلر صاحب کی اجازت لینی پڑے گی۔ پھر ساری چیزیں چیک ہوں گی۔ اس کے لیے تھوڑا صبر کرنا ہوگا۔ کیونکہ چیکنگ پر مامور سپاہی ڈسپنسری گیا ہے۔ آپ فی الحال اس درخت کے نیچے کھڑے ہو جائیں، میں آپ کو خود بلالوں گا۔
میں درخت تلے کھڑا ہوگیا۔ پانچ منٹ بعد ایک کالے شیشوں والی کار اور اس کے سات آٹھ منٹ بعد شفاف شیشوں والی ایک فور ویلر آئی۔ دونوں میں سے کھانے کے بھاری ٹفن اور بھرے ہوئے شاپنگ بیگ اسی سنتری کے حوالے ہوتے دیکھے جس نے مجھے قانون کے درخت تلے کھڑا کردیا تھا۔ سنتری نے دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے بھرپور مصافحہ کیا اور پھر یہ مصافحہ جیب میں ڈال لیا اور صدر دروازے میں موجود چھوٹا دروازہ کھول کے سامان اندر کھڑے کسی سپاہی کو تھما دیا۔
کچھ دیر بعد ایک پیدل بابا ایک برقعہ پوش خاتون اور نوعمر بچے کے ساتھ صدر دروازے پر پہنچا۔ عورت کے ہاتھ میں سامان سے آدھی بھری پلاسٹک کی خستہ سی باسکٹ تھی۔ بابے نے سنتری سے کچھ کہا اور سنتری نے اسے قانون اور ضابطہ سمجھانا شروع کردیا۔ مگر تینوں سائل میری طرح درخت کے نیچے کھڑے ہونے کے بجائے سر نیچا کیے واپس چلے گئے۔
چار روز پہلے میرے شو روم پر صبح ہی صبح ملازم کو کوئی موٹرسائکل سوار ایک پرچہ تھما گیا۔ بال پوائنٹ سے لکھا تھا ’اس سال اقبال مارکیٹ کی دکانوں کے لیے فطرے کی فی کس رقم پانچ لاکھ روپے ہے۔ پرسوں شام تک انتظام کرلیں اور یہ نمبر نوٹ کرکے اس پر فون کریں تاکہ ادائیگی کا طریقہ بتا سکیں۔ سامنے والے شو روم کے مالک نے پچھلے ہفتے ایسے ہی ایک خط کو مذاق سمجھا تھا۔ اسی لیے آپ کو پرسوں ان کے قل میں شریک ہونا پڑا ۔۔۔ اب آپ کی مرضی کہ اپنے شو روم پر بیٹھنا پسند کریں گے یا اس کے سامنے ہی لیٹنا پسند کریں گے۔ تعاون کا شکریہ۔ عید مبارک۔‘
میں نے ہمسایہ دوکانداروں سے مشورہ کیا کہ کیا کروں؟ اخبار میں دے دوں، مقامی سیاسی تنظیموں کے دفتر جاؤں، بااثر افراد کے گھٹنے چھوؤں یا سیٹیزن پولیس لیژاں کمیٹی والوں سے ملوں۔ سب نے پہلے تو مجھے اجتماعی نگاہوں سے ایسے دیکھا جیسے کوئی پھسپھسا لطیفہ سنا رہا ہوں۔ پھر ایک نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’سر جی کے سر پے ایک بوتل ٹھنڈا پانی ڈالو بھئی۔انہیں روزہ لگ رہا ہے‘ ۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔
دو رات پہلے گھر جاتے ہوئے راستے میں فون آیا کہ جہانگیر صاحب کا بیٹا عاصم موٹر سائیکل کے حادثے میں ٹانگیں کچلوانے کے بعد ہسپتال تو پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن اسی وقت ڈاکٹر کسی مسئلے پر احتجاجاً کام چھوڑ کر ایمرجنسی اور او پی ڈی سے باہر نکل آئے۔ عاصم ڈیڑھ گھنٹے میں ہی مرگیا۔
کل سہ پہر نبی بخش کا سوجھی ہوئی آواز میں فون آیا۔ اس کے بھائی حسین بخش کو کچھ لوگ بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں ڈال کے پھر لے گئے۔ ایک ماہ پہلے ہی وہ انیس ماہ غائب رہنے کے بعد گھر پہنچا تھا اور کسی کو کچھ بتانے پر تیار نہیں تھا۔ تھانے والے کہہ رہے ہیں کہ درخواست دے دو۔ چھان بین کے بعد ایف آئی آر بھی کاٹ دیں گے۔ مگر اس کے لیے بار بار چکر لگانے کی ضرورت نہیں۔ خود اطلاع کر دی جائے گی۔
اور ابھی کوئی سوا گھنٹہ پہلے میرے مرحوم والد کے ایک بچپنی دوست کھیم چند جی جانے کہاں سے پتہ ڈھونڈ ڈھانڈھ کے اپنے بڑے بیٹے اتم کے ساتھ پہنچ گئے۔ عید کے تیسرے دن وہ خاندان سمیت سب بیچ باچ کر انڈیا جارہے ہیں کیونکہ ان کی منجھلی بہو پانچ ماہ پہلے دفتر سے واپسی پر غائب ہوگئی۔ اور دو ہفتے پہلے ایک اجنبی کا فون آیا کہ کشوری نے اپنا نام زینب رکھ لیا ہے اور کسی الطاف آرائیں سے شادی کرکے وہ زینب الطاف آرائیں ہوگئی ہے۔ میں نے پوچھا کوئی عدالتی کارروائی؟ کھیم چند جی کھلکھلا کے ہنس پڑے اور پھر آنکھوں سے بھل بھل پانی بہنا شروع ہوگیا۔ ابھی بھی میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔
کھیم چند جی تو انڈیا پدھار رہے ہیں۔ مگر مسلمان کیا کریں؟
شام، مصر، ایران یا سعودی عرب وغیرہ تو لیں گے نہیں ۔۔۔ تو کیا شمالی وزیرستان ہجرت کی کوشش کریں؟ کم از کم وہاں کوئی منتخب حکومت تو نا ہوگی۔
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
دس دن پہلے میں اپنے ایک پرانے سکول فیلو کے لیے افطاری سے بھرا شاپنگ بیگ اور سگریٹ کے دو ڈنڈے (کارٹن) لے کے جیل کے اندرونی آہنی صدر دروازے پر پہنچا۔ سنتری بادشاہ نے کہا کہ پہلے جیلر صاحب کی اجازت لینی پڑے گی۔ پھر ساری چیزیں چیک ہوں گی۔ اس کے لیے تھوڑا صبر کرنا ہوگا۔ کیونکہ چیکنگ پر مامور سپاہی ڈسپنسری گیا ہے۔ آپ فی الحال اس درخت کے نیچے کھڑے ہو جائیں، میں آپ کو خود بلالوں گا۔
میں درخت تلے کھڑا ہوگیا۔ پانچ منٹ بعد ایک کالے شیشوں والی کار اور اس کے سات آٹھ منٹ بعد شفاف شیشوں والی ایک فور ویلر آئی۔ دونوں میں سے کھانے کے بھاری ٹفن اور بھرے ہوئے شاپنگ بیگ اسی سنتری کے حوالے ہوتے دیکھے جس نے مجھے قانون کے درخت تلے کھڑا کردیا تھا۔ سنتری نے دونوں گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے بھرپور مصافحہ کیا اور پھر یہ مصافحہ جیب میں ڈال لیا اور صدر دروازے میں موجود چھوٹا دروازہ کھول کے سامان اندر کھڑے کسی سپاہی کو تھما دیا۔
کچھ دیر بعد ایک پیدل بابا ایک برقعہ پوش خاتون اور نوعمر بچے کے ساتھ صدر دروازے پر پہنچا۔ عورت کے ہاتھ میں سامان سے آدھی بھری پلاسٹک کی خستہ سی باسکٹ تھی۔ بابے نے سنتری سے کچھ کہا اور سنتری نے اسے قانون اور ضابطہ سمجھانا شروع کردیا۔ مگر تینوں سائل میری طرح درخت کے نیچے کھڑے ہونے کے بجائے سر نیچا کیے واپس چلے گئے۔
چار روز پہلے میرے شو روم پر صبح ہی صبح ملازم کو کوئی موٹرسائکل سوار ایک پرچہ تھما گیا۔ بال پوائنٹ سے لکھا تھا ’اس سال اقبال مارکیٹ کی دکانوں کے لیے فطرے کی فی کس رقم پانچ لاکھ روپے ہے۔ پرسوں شام تک انتظام کرلیں اور یہ نمبر نوٹ کرکے اس پر فون کریں تاکہ ادائیگی کا طریقہ بتا سکیں۔ سامنے والے شو روم کے مالک نے پچھلے ہفتے ایسے ہی ایک خط کو مذاق سمجھا تھا۔ اسی لیے آپ کو پرسوں ان کے قل میں شریک ہونا پڑا ۔۔۔ اب آپ کی مرضی کہ اپنے شو روم پر بیٹھنا پسند کریں گے یا اس کے سامنے ہی لیٹنا پسند کریں گے۔ تعاون کا شکریہ۔ عید مبارک۔‘
میں نے ہمسایہ دوکانداروں سے مشورہ کیا کہ کیا کروں؟ اخبار میں دے دوں، مقامی سیاسی تنظیموں کے دفتر جاؤں، بااثر افراد کے گھٹنے چھوؤں یا سیٹیزن پولیس لیژاں کمیٹی والوں سے ملوں۔ سب نے پہلے تو مجھے اجتماعی نگاہوں سے ایسے دیکھا جیسے کوئی پھسپھسا لطیفہ سنا رہا ہوں۔ پھر ایک نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’سر جی کے سر پے ایک بوتل ٹھنڈا پانی ڈالو بھئی۔انہیں روزہ لگ رہا ہے‘ ۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔
دو رات پہلے گھر جاتے ہوئے راستے میں فون آیا کہ جہانگیر صاحب کا بیٹا عاصم موٹر سائیکل کے حادثے میں ٹانگیں کچلوانے کے بعد ہسپتال تو پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن اسی وقت ڈاکٹر کسی مسئلے پر احتجاجاً کام چھوڑ کر ایمرجنسی اور او پی ڈی سے باہر نکل آئے۔ عاصم ڈیڑھ گھنٹے میں ہی مرگیا۔
کل سہ پہر نبی بخش کا سوجھی ہوئی آواز میں فون آیا۔ اس کے بھائی حسین بخش کو کچھ لوگ بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی میں ڈال کے پھر لے گئے۔ ایک ماہ پہلے ہی وہ انیس ماہ غائب رہنے کے بعد گھر پہنچا تھا اور کسی کو کچھ بتانے پر تیار نہیں تھا۔ تھانے والے کہہ رہے ہیں کہ درخواست دے دو۔ چھان بین کے بعد ایف آئی آر بھی کاٹ دیں گے۔ مگر اس کے لیے بار بار چکر لگانے کی ضرورت نہیں۔ خود اطلاع کر دی جائے گی۔
اور ابھی کوئی سوا گھنٹہ پہلے میرے مرحوم والد کے ایک بچپنی دوست کھیم چند جی جانے کہاں سے پتہ ڈھونڈ ڈھانڈھ کے اپنے بڑے بیٹے اتم کے ساتھ پہنچ گئے۔ عید کے تیسرے دن وہ خاندان سمیت سب بیچ باچ کر انڈیا جارہے ہیں کیونکہ ان کی منجھلی بہو پانچ ماہ پہلے دفتر سے واپسی پر غائب ہوگئی۔ اور دو ہفتے پہلے ایک اجنبی کا فون آیا کہ کشوری نے اپنا نام زینب رکھ لیا ہے اور کسی الطاف آرائیں سے شادی کرکے وہ زینب الطاف آرائیں ہوگئی ہے۔ میں نے پوچھا کوئی عدالتی کارروائی؟ کھیم چند جی کھلکھلا کے ہنس پڑے اور پھر آنکھوں سے بھل بھل پانی بہنا شروع ہوگیا۔ ابھی بھی میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔
کھیم چند جی تو انڈیا پدھار رہے ہیں۔ مگر مسلمان کیا کریں؟
شام، مصر، ایران یا سعودی عرب وغیرہ تو لیں گے نہیں ۔۔۔ تو کیا شمالی وزیرستان ہجرت کی کوشش کریں؟ کم از کم وہاں کوئی منتخب حکومت تو نا ہوگی۔