فاتح
لائبریرین
تُو کہ شمعِ شامِ فراق ہے، دل نا مراد! سنبھل کے رو
یہ کسی کی بزم نشاط ہے، یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو، نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے، کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں تجھ سے کوئی بچھڑ گیا، اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل، کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
ترے دکھ سے بڑھ کے ہیں جن کے دکھ، کبھی ان کی آگ میں جل کے رو
ترے دوستوں کو خبر ہے سب، تری بے کَلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اس کا نہ ذکر کر، تُو ہزار نام بدل کے رو
غمِ عشق لاکھ کڑا سہی، پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مری جاں! یہ محفلِ شعر ہے، سو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
یہ کسی کی بزم نشاط ہے، یہاں قطرہ قطرہ پگھل کے رو
کوئی آشنا ہو کہ غیر ہو، نہ کسی سے حال بیان کر
یہ کٹھور لوگوں کا شہر ہے، کہیں دُور پار نکل کے رو
کسے کیا پڑی سرِ انجمن کہ سُنے وہ تیری کہانیاں
جہاں تجھ سے کوئی بچھڑ گیا، اُسی رہگزار پہ چل کے رو
یہاں اور بھی ہیں گرفتہ دل، کبھی اپنے جیسوں سے جا کے مِل
ترے دکھ سے بڑھ کے ہیں جن کے دکھ، کبھی ان کی آگ میں جل کے رو
ترے دوستوں کو خبر ہے سب، تری بے کَلی کا جو ہے سبب
تُو بھلے سے اس کا نہ ذکر کر، تُو ہزار نام بدل کے رو
غمِ عشق لاکھ کڑا سہی، پہ فرازؔ کچھ تو خیال کر
مری جاں! یہ محفلِ شعر ہے، سو نہ ساتھ ساتھ غزل کے رو
احمد فراز کی کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" سے انتخاب
ص 148
انتخاب بشکریہ مدیحہ گیلانی صاحبہ