طارق شاہ
محفلین
تِیرگی ختْم ہوئی، صُبْح کے آثار ہُوئے
شہْرکے لوگ نئےعزْم سے بیدار ہُوئے
شب کی تارِیکی میں جوآئے تھے رہزن بن کر
صُبْح ہوتے ہی وہ رُسوا سرِ بازار ہُوئے
جگمگانے لگِیں پھرمیرے وطَن کی گلِیّاں
ظُلم کے ہاتھ سِمَٹ کر پسِ دِیوار ہُوئے
ہم پہ احساں ہے تِرا، شہْر کی اے نہرِعَظِیم
تو نے سِینے پہ سَہَے، شہْر پہ جو وار ہُوئے
شاخ در شاخ چَمَکنے لگے خوشبُو کے چِراغ
عالمِ خاک سے پیدا نئے گُلزار ہُوئے
ناصر کاظمی