عباد اللہ
محفلین
تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا
اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا
نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا
نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل
کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا
مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے
سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا
سمیٹتے ہیں تجھے ہم فسانۂ غمِ زیست
کہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو وہی نہ رہا
یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم
جو ہم کو بھاتا تھا وہ رنگِ سادگی نہ رہا
رہا تو ہوں میں جہانِ خراب میں لیکن
اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا
نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا
نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل
کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا
مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے
سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا
سمیٹتے ہیں تجھے ہم فسانۂ غمِ زیست
کہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو وہی نہ رہا
یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم
جو ہم کو بھاتا تھا وہ رنگِ سادگی نہ رہا
رہا تو ہوں میں جہانِ خراب میں لیکن
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
آخری تدوین: