محمد تابش صدیقی
منتظم
دو چار چولیں ماریں، عروض جائیں بھاڑ میں، بیک گراؤنڈ میں ادھ موئی لڑکی فٹ کریں، افسردہ ہو تو زیادہ چلے گی، اور فیس بک پر شئر کر دیں۔ کامیاب ہی کامیاب۔آج کل ویسے کوئی شاعری مجموعہ کامیاب ہو بھی رہا ہے؟
دو چار چولیں ماریں، عروض جائیں بھاڑ میں، بیک گراؤنڈ میں ادھ موئی لڑکی فٹ کریں، افسردہ ہو تو زیادہ چلے گی، اور فیس بک پر شئر کر دیں۔ کامیاب ہی کامیاب۔آج کل ویسے کوئی شاعری مجموعہ کامیاب ہو بھی رہا ہے؟
تپاکِ جاں کو ڈیڈیکیشن کے معنوں میں برتا ہے نامعلوم درست یا غلطتپاکِ جاں سے طرزِ ستم گری کے نہ رہنے کا کیا مطلب ہے؟
مجھے تپاکِ جاں کی ترکیب قطعی طور پر حشو معلوم ہوئی ہے یہاں۔
اگر گستاخی پر محمول نہ کریں تو مجھے یہ کہنا ہے کہ یہاں آپ سے تسامح ہوا میں نے نگار کہا ہے جو متفق علیہ طور پر مزکر ہے نظیر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ، اساتذہ کو میں نے نہیں پڑھا جون ایلیا کا مصرع یاد آتا ہےرمز اور طرز وغیرہ تو مذکر استعمال ہوتے ہیں۔ نگاہ متفق علیہ طور پر مؤنث ہی ہے۔ اگر کوئی نظیر مذکر کی اساتذہ کے ہاں ہے تو پیش کرو۔
ٹائیپو ہے کہا یوں ہےبجز کے بعد کہ اور پھر خارِ مغیلاں ہے اور پھر ہو جراحتِ دل۔ نحوی مار ڈالیں گے تمھیں کسی دن۔
غالبؔ کے دور تک اردو اتنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ ان کی جانب سے ایسی باتیں گوارا کی جا سکتی ہیں۔ مگر داغؔ کے بعد اس طرزِ کلام کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جو گناہ غالبؔ نے اس لیے کیے کہ وہ داغؔ کے پیشرو تھے، وہ تمھیں معاف نہیں کیے جائیں گے۔
-عباد نے 'غالباً' یہاں مگر کو شاید کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
شکریہبہت عمدہ شعر۔ بہت اچھا خیال۔ بہت اچھے طور پر کہا ہے
اس میں ہمدم بھی بھرتی کا ہے یہ شعر نکال دیا!!غالبؔ نے ایک جگہ کچھ ایسا بھی کہا تھا کہ جہاں کہیں تقطیع میں الف دبتا ہے تو گویا میرے سینے میں ایک تیر لگتا ہے۔ مرشد کی پوری نہ سہی، کچھ اتباع اس معاملے میں بھی کرو۔ انھوں نے کا اور تھا کے علاوہ شاید ہی کہیں الف گرایا ہو
بہتربہت خوب صورت۔مگر کلاسیکی رنگ ہے۔ مجھ ایسوں کو تو پسند آئے گا مگر زمانہ رد کر دے گا۔ اب یہ مت کہنا کہ زمانے کی مجھے پروا نہیں۔ میں صرف اپنے لیے شعر کہتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔
مجموعی طور پر تمھارا رنگِ سخن نہایت پختہ ہے۔ رشک آتا ہے۔ تمھارے والدین اور علاقے کو تم پر ایک دن فخر ہو گا۔ انشاء اللہ!
---
اگر زحمت نہ ہو تو میں تو آئندہ ہو تکبندی میں آپ کو ٹیگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوںاب بتاؤ، آئندہ بھی مجھے بلاؤ گے؟
شکریہ الف عین سر غزل دوبارہ کہنے کی کوشش کرتا ہوںبہت اچھے۔ بڑی پختہغزل ہے۔ لیکن عزیزی ٬راحیل فاروق کی باتوں میں بھی خاصا دم ہے۔
سر میرے ناقص خیال نہیں نگار مزکر ہےاگرچہ عباد نے نگاہ نہیں، نگار کہا ہے، لیکن وہ بھی مؤنث ہی ہوتا ہے
مطلع میں تپاکِ جاں کو ڈیدیکیشن کے معنوں میں برتا ہے سر معلوم نہیں درست ہے یا غلطمطلع میری سمجھ میں بھی نہیں آیا،
خارِ مغیلاں والے مصرعے کو درست کرتا ہوںور ہاں ان تینوں مصرعوں میں عیب تنافر ہے۔ ہا ہے، ہی ہے وغیر کی وجہ سے
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل
یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم
بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
درست کرتے ہیں اس بھیا ۔کوئی اچھا سا فارسی شعر تو سنائیےکہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو
تنافر
درست کرتے ہیں اس بھیا ۔کوئی اچھا سا فارسی شعر تو سنائیےترجمہ سمیت آپ کو معلوم ہے نا مجھے فارسی نہیں آتی
ایک سامنے سامنے کا حل تو یہ ہےکہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو
تنافر
مجھے اتصال کے باوجود وہ اپنا مصرع پسند ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اتصال کو عیب ہی نہیں سمجھتا اسی لئے اگر اس غزل کا پہلا ورژن آپ دیکھیں تو ہر شعر میں یہی عیب ہے ،کوشش کرتا ہوں اپنی طبیعت پر قابو پانے کی۔بہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
یہ دیکھ لیں اگر قابل ِ قبول ہے تو ...
بہ قیدِ جبر گزر کی ہنسی خوشی نہ رہا
اس کتاب کی پی ڈی ایف چاہئے ۔۔۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کتاب ناکام ہو گئی؟تنافر اور اس قسم کے دیگر عیوب سے پاک کلام تو اساتذہ کے ہاں بھی نہیں ملتا۔ ہاں، ایک کتاب چھپی ہے اب تک جس میں عروضیوں کے تمام ناز بلا چون و چرا اٹھائے گئے ہیں۔ پھر بھی ناکام ہو گئی!
کیسے مزاج ہیں شاہد بھیااس کتاب کی پی ڈی ایف چاہئے ۔۔۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کتاب ناکام ہو گئی؟
میں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا، اسی دور کا شعر ہے، جس میں یہ عیب ایک سے زائد بار وارد ہوا، لیکن میں نے اس شعر کو تبدیل نہیں کیا۔ اور یہ حسب حال بھی ہے:مجھے اتصال کے باوجود وہ اپنا مصرع پسند ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اتصال کو عیب ہی نہیں سمجھتا اسی لئے اگر اس غزل کا پہلا ورژن آپ دیکھیں تو ہر شعر میں یہی عیب ہے ،کوشش کرتا ہوں اپنی طبیعت پر قابو پانے کی۔
اللہ کا کرم ہے ۔۔۔ امید ہے۔۔۔ آپ خیریت سے ہوں گے ۔۔۔کیسے مزاج ہیں شاہد بھیا
خوبصورت شعر ہے بھیا تنافر تو بھیا اس شعر میں بھی ہےمیں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا، اسی دور کا شعر ہے، جس میں یہ عیب ایک سے زائد بار وارد ہوا، لیکن میں نے اس شعر کو تبدیل نہیں کیا۔ اور یہ حسب حال بھی ہے:
تجھے تو چاہئے تھا اس سے بڑھ کے کچھ کرتا
برا بھلا تو زمانے نے بھی کہا ہے مجھے
میں اس عیب کو عرصے سے جانتا ہوں بھیا لیکن جمالیات کی سطح پر کمزوری کہئے کہ مجھے اس میں گرانی محسوس نہیں ہوتی ، اب اسے طبیعت کا فساد ہی کہا جا سکتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے تاحال اس پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی ۔میں نے جس زمانے میں اس عیب کو جاننا شروع کیا تھا
تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا
اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا
نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا
نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا
بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل
کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا
مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے
سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا
سمیٹتے ہیں تجھے ہم فسانۂ غمِ زیست
کہ تجھ کو شوق سے سنتا تھا جو وہی نہ رہا
یہ ناز و غمزہ بھی اچھا ہی ہے مگر ہمدم
جو ہم کو بھاتا تھا وہ رنگِ سادگی نہ رہا
رہا تو ہوں میں جہانِ خراب میں لیکنبہ قیدِ جبر رہا ہوں ہنسی خوشی نہ رہا
بہت شکریہ بھیاساری غزل اچھی ہے مگر پہلا شعر تو بے ساختگی میں کمال ہے۔
تیسرے شعر میں چارہ اور ہی کے دو ہ ساتھ آنے سے ایک ہ شاید دب گیا ہے۔ آخری شعر بھی بہت خوبصورت ہے۔ مبارکباد قبول فرمائیے۔