حسان خان
لائبریرین
تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
میں زخم زخم ہوں پھر بھی تجھے دکھائی نہ دوں
ترے بدن میں دھڑکنے لگا ہوں دل کی طرح
یہ اور بات کہ اب بھی تجھے سنائی نہ دوں
خود اپنے آپ کو پرکھا تو یہ ندامت ہے
کہ اب کبھی اسے الزامِ نارسائی نہ دوں
مری بقا ہی مری خواہشِ گناہ میں ہے
میں زندگی کو کبھی زہرِ پارسائی نہ دوں
جو ٹھن گئی ہے تو یاری پہ حرف کیوں آئے
حریفِ جاں کو کبھی طعنِ آشنائی نہ دوں
مجھے بھی ڈھونڈ کبھی محوِ آئینہ داری
میں تیرا عکس ہوں لیکن تجھے دکھائی نہ دوں
یہ حوصلہ بھی بڑی بات ہے شکست کے بعد
کہ دوسروں کو تو الزامِ نارسائی نہ دوں
فراز دولتِ دل ہے متاعِ محرومی
میں جامِ جم کے عوض کاسۂ گدائی نہ دوں
(احمد فراز)