قمر بُخاری
محفلین
(۴)تکبر کیا ہے؟
۱۷۲۴۱۔ عبدالاعلی بن اعین کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمیا کہ "بہت بڑا تکبر مخلوق خدا کو حقیر جاننا اور حق کو بھلا دینا ہے" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: "مخلوق کو حقیر جاننا اور حق کو بھلا دینا کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: "حق سے بے خبری اور اہل حق پر طعن و تشنیع مراد ہے۔ لہٰذا جو شخص ایسا کرے گا وہ خدا کی ردائے کبریائی کو چھیننے کی کوشش کرے گا"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۸۔ صفحہ ۲۲۰
۱۷۲۴۲۔ کبر یہ ہے کہ تم لوگوں کو حق جانو اور حق کو بھلا دو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۷۔ صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۴۳۔ ابن فضال ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص متکبر افراد کے ساتھ چلے لیکن خود اس کے دل میں تبر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: "تکبر کیا ہے؟ فرمایا: "جس سے لوگوں کی تحقیر کی جائے اور حق کو نظر انداز کر دیا جائے"
مجارالانوار جلد ۹۹ صفحہ ۲۵۵
۱۷۲۴۴۔ عبدالاعلی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص مکہ میں کبر و غرور سے پا ک ہو کر دال ہو تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں" عرض کیا: "کبر و غرور سے کیا مراد ہے؟ "مخلوق کو حقیر سمجھنا اور حق کو بھلا دینا" میں نے کہا: "وہ کیونکر ہوتا ہے؟ فرمایا: "حق کو فراموش کر دیا جائے اور اہلِ حق کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے!"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۶
(۵)تکبر کی حقیقت
۱۷۲۴۵۔ حفص بن غیاث کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ سمجھے کہ اسے دوسروں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو تو اس کا شمار مستکبرین میں ہو گا" میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا: "جو شخص کسی کو گناہوں کا مرتکب دیکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اسے اس شخص پر اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان گناہوں سے بچا ہوا ہے"
امامعلیہ السلام نے فرمایا: نہیں ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کے گناہ بخش دئیے گئے ہوں اور تم سے اپنے گناہوں کا محاسبہ کیا جاے کیا تم نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانے کے جادوگروں کا قصہ (قرآن میں) نہیں پرھا۔۔؟"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۶ جلد ۷۸ صفحہ ۳۲۵ فروع کافی جلد ۸ صفحة ۱۲۸
۱۷۲۴۶۔ ہشام بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقعلیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جب تم مکہ کی وادی میں اترو تو تمہارے اوپر پرانے ، یا پھٹے ہوئے یا کھدر کے کھردرے کپڑے ہونے چاہئیں، کیونکہ جو شکص بھی مکہ کی وادی میں اس حالت میں قیام پذیر ہو کہ اس کے دل مٰں ذرہ بھر بھی تکبر نہ ہو تو خداوند تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا"
عبداللہ بن ابی یعفور نے سوال کیا: "تکبر کی دو کیا ہے؟ فرمای: "ایک شخص جب اچھے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں" پھر آپعلیہ السلام سورہ قیامہ کی آیت ۱۴ تلاوت فرمائی بل الانسان علی نفسہ بصیرة" (انسان اپنے نفس کو خوب جانتا ہے)۔
مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۳۱۲
قول مولف: ابوحامد غزالی "کبر" کی حقیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
"تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کبر کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ ظاہری۔ ۲۔ باطنی ۔ باطنی کبر ایک نفسانی کیفیت ہے۔ اور ظاہری کبر اسے اعمال کا نام ہے جو اعضاء و جوارح سے سرزد ہوتے ہیں۔ لہٰذا باطنی اور نفسانی کیفیت پر "کبر" کا اطلاق زیادہ مناسب ہے جبکہ سرزد ہونے ولاے اعمال اسی کیفیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور کبر کی نفسانی کیفیت انہی اعمال کے انجام پانے کا موجب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نفسانی کیفیت اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے تکبر کہا جاتا ہے اور اگر باطن میں رہتی ہے تو اسے "کبر" کہتے ہیں۔
اسی بنا پر اس کی اصل وہی کیفیت ہوتی ہے جو نفس انسانی کے اندر پائی جاتی ہے جو یہ ہوتی ہے کہ انسان ان لوگوں کو دیکھتا ہے جن پر تکبر کر رہا ہوتا ہے تو اس طڑح اس کے نفس کو ایک قسم کی تسکین ہوتی ہے اسے ان لوگوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لہٰذا "کبر" کے لئے دو فریقوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک وہ جو تکبر کر رہا ہے اور دوسرا وہ جس پر تکبر کیا جا رہا ہے۔ یہیں سے "کبر" اور "عجب" (خودپسندی) کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ خود پسندی کا تعلق صرف ایک فریق سے یعنی خود انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جس کا وہ شکار ہوت اہے اگر (بالفرض) دنیا میں صرف ایک ہی انسان پیدا ہوتا تو وہ صرف اپنی ہی ذات کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اسے "خوپسند" تو کیا جاتا لیکن "متکبر" نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا انسان بھی ہوتا اور اس میں یہی نفسانی کیفیت پیدا ہوتی وہ خود کو کمال کی صفات دوسرے سے برتر سمجھتا تو متکبر کہلاتا۔ "البتہ کسی کے متکبر کہلانے کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ اپنے آپ کو بڑا اور برتر سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے شخص کو بھی اپنے سے بالاتر جانتا ہے یا کم از کم اپنے برابر سمجھتا ہے ایسا شخص متکبر نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح وہ صرف کسی کو حقیر سمجھ لینے سے متکبر نہیں کہلائے گا جبکہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو بھی حقر تر جانتا ہے یا اپنے آپ کو اس کے برابر سمجھتا ہے، پھر بھی ایسا شخص متکبر نہیں ہو گا۔
"اسی لئے تکبر کے لئے معیار یہ ہے کہ انسان اپنے لئے ایک مرتبہ مقرر کرے اور دوسرے کے لئے بھی اسی طرح کا "مرتبہ" متعین کرے پھر اپنے آپ کو اس مرتبہ سے بالاتر سمجھنے لگے تو گویا مذکورہ تینوں صورتوں میں اس کے اندر "کبر" کی کیفیت پائی جائے گی صرف اس لحاظ سے نہٰں کہ وہ اپنے اندر یہ کیفیت دیکھتا ہے، بلکہ اس لحاظ سے کہ وہ یہ کیفیت دیکھتا بھی ہے اور یہ عقیدہ اس کے اندر پھلتا پھولتا ہے اسی وجہ سے یہ اس کے دل میں ایک خوبی شمار ہونے لگتا ہے جس سے اسے نشاط حاصل ہوتی ہے، اور وہ اس سے فرحت و شادمانی محسوس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے دل میں عزت کا احساس کرتا ہے۔ پس یہی عزت، فرحت، نشاط و شادمانی "کبر کی کیفیت" ہوتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اکمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں: "خداوندا! میں تجھ سے کبریائی کی فرحت و نشاط سے پناہ مانگتا ہو"
المجحتہ لابیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۲ صفحہ ۲۲۹
(۶)زمین پر اکڑ کر نہ چلو
قرآن مجید:
ولاتمش فی الارض مرحا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طولا۔ (بنی اسرائیل/۳۷)
ترجمہ:
اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، کیونکہ تو اسے ہرگز پھاڑ نہیں سکے گا، اور نہ ہی تو پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکے گا۔
ولا تصعرخدک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخور (لقمان /۱۸)
ترجمہ:
اور لوگوں (کو دکھانے) کے لئے اپنے گال غرور سے نہ پُھلا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چل بے شک اللہ کسی دھوکے باز شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
وعدادالرحمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قالو اسلاما۔ (فرقان/۶۳)
ترجمہ:
(خداوندِ) رحمان کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر بڑی انکساری سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہہ دیے ہیں (تم کو) سلام ہو۔
حدیث شریف:
۱۷۲۴۷۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "لاتمش فی الارض مرحا" (بنی اسرائیل/۳۷) کے بارے میں فرمیا کہ "مرحا" (اکڑنا) سے مراد بڑا بننا ہے۔
(امام محمد باقرعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۲
۱۷۲۴۸۔ حضرت رسول خدا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر رہے تھے جو اجتماع کئے ہوئے تھے آپ نے پوچھا: "کس لئے اکٹھے ہوئے ہو؟" انہوں نے کہا: "یارسول اللہ! یہ شخص دیوانہ ہے جسے دیوانگی کا دورہ پڑ چکا ہے" آپ نے فرمایا: "یہ دیوانہ نہیں بلکہ مصیبت زدہ ہے"
پھر فرمایا: "تمہیں بتاؤں کہ صحیح معنی میں دیوانہ کون ہوتا ہے؟" انہوں نے کہا: "یارسول اللہ! ضرور ارشاد فرمائیے! آپ نے فرمایا: "جو مٹک مٹک کر چلتا ہے۔ اپنے دونوں اطراف کی طرف بار بار دیکھتا ہے۔ اپنے شانون کو مٹکاتا ہوا چلتا ہے، خدا کی نافرمانی کے باوجود اس کی جنت کی آرزو رکھتا ہے جس کے شر سے کوئی محفوظ نہیں جس کی خیر کی کسی کو امید نہیں ایسا شخص (دراصل) مجنون ہے۔ یہ بے چارہ تو مصیبت زدہ ہے"
امام جعفر صادقعلیہ السلام اپنے آباؤ اجداد علیہم السلام نے یہی روایت کرتے ہیں۔
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۳
۱۷۲۴۹۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے ستر سال کا (بوڑھا) ہوتا ہے، لیکن اپنی چال ڈھال سے بیس سال کا (نوجوان) معلوم ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۷۷۴۱
۱۷۲۵۰۔ اللہ تعالیٰ اسے بیس سالہ نواجوان کو پسند فرماتاہے جو بیس سالہ (نوجوان) کی مانند ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۷۷۳۲
(قول موئف: ملاحظہ ہو باب: "چال" "زمین پر اکڑ کر نہ چلو")
(۷)متکبر انسان
۱۷۲۵۱۔ ناپسندیدہ ترین انسان متکبر ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانور جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۱
۱۷۲۵۲۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے دو "ثرثار" لوگ ہوں گے یعنی وہی جو تکبر کرتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) مجار لانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۲
۱۷۲۵۳۔ آخرت کے دن تم لوگوں میں سے ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ترین اور ہم سے دور ترین لوگ متکبر نہ باچھیں کھول کھول کر باتیں کرنے والے اور متفیدق قسم کے لوگ ہوں گے"
لوگوں نے پوچھا: "یارسول اللہ! متفیہق کون لوگ ہوتے ہیں؟" فرمای: "متکبر لوگ"
(حضرت رسول اکرم) حجتہ البیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۴ اسے معمرمذی نے بھی ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو جلد ۸ صفحہ ۱۷۵
۱۷۲۵۴۔ کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجز و انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو؟
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۲۱
۱۷۲۵۵۔ متکبر ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(۸)تعجب ہے متکبر کس لئے تکبر کرتا ہے؟
۱۷۲۵۶۔ مجھے فرزند آدم پر تعجب ہوتا ہے جس کی ابتدا ایک نطفہ ہے وار انتہا مردار وہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان، غلاظت و گندگی کا برتن بنا پھرتا ہے اور پھر غرور اور تکبر بھی کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۴
۱۷۲۵۷۔ مجھے تعجب ہوت اہے متکبر و مغرور پر کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۱۲۶
۱۷۲۵۸۔ تعجب ہے متکبر اور فخرومباہات کرنے والے پر جو نطفے سے پیدا کیا گیا ہے پھر وہ مردار ہو جائے گا۔ اور اس دوران یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟
(امام محمد باقرعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۹
۱۷۲۵۹۔ مولا امام جعفر صادقعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی امام محمد باقرعلیہ السلام سے پاخانے کے متعلق پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے فرمایا: "اس کی وجہ نبی آدم کو حقارت کی طرف متوجہ کرانا ہے، تاکہ وہ اس کا حامل ہوتے ہوئے تکبر و غرور سے کام نہ لے"
مجار الانوار جلد ۸۰ صفحہ ۱۶۳ وسائل شیعہ جلد اول صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۶۰۔ حضرت سلمان فارسی اور ایک شخص کے درمیان جھگڑا ہو گیا اس شخص نے حضرت سلمان سے کہا: "سلمان! تم ہو کیا چیز؟ جناب سلمان نے کہا: "میی اور تمہاری اولاد ایک گندہ نطفہ تھے میرا اور تمہارا انجام ایک بدبودار مردار کی صورت میں ہو گا۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور میزان اعمال نصب کیا جائے گا، جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ معزز اور صاحبِ تکریم ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لئیم اور کمینہ ہو گا۔"
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) نے اپنے آباؤ اجداد سے روایت کی ہے۔
مجار ال؛انوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۱
۱۷۲۶۱۔ تم اس کی طرح نہ بنو جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلہ میں غرور کیا بغیر کسی فضیلت و برتری کے کہ جو اللہ نے اس میں قرار دی ہو سوائے اس کے کہ حاسدانہ عداوت سے اس میں بڑائی احساس ہوا اور خود پسندی نے اس کے ناک میں کبرو غرور کی آگ پھونک دی جس کی وجہ سے اللہ نے ندامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۳ صفحہ ۱۳۷ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
(۹)غرور تکبر کا سبب
۱۷۲۶۲۔ جو شخص تکبر یا جبر و استکبار سے کام لیتا ہے، اس کی وجہ وہ ذلت و خواری ہوتی ہے جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۵
۱۷۲۶۳۔ کسی کے تکبر کی وجہ وہ ذلت و احساس کمتری ہے جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانور جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۵
۱۷۲۶۴۔ ہر متکبر حقیر ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۵۔ پست فطرت انسان ہی تکبر کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۶۔ صرف پست فطرت اور بے قدر انسان کے علاوہ کوئی تکبر و غرور نہیں کرتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(قولِ موئف: ملاحظہ ہو: "کذب" باب (جھوٹ) "جھوٹ بولنے کے اسباب"
اسبابِ تکبر کے بارے میں ابوحامد غزالی کا نظریہ
معلوم ہونا چاہئے کہ "کبر" ایک باطنی کیفیت ہے، جو صورت حال اخلاق و افعال سے ظاہر ہوتی ہے، وہ اس کیفیت کا ثمرہ اور نتیجہ ہوتی ہے اس کو "تکبر" سے موسوم کیا جانا چاہئے۔ جبکہ "کبر" نام ہے اس باطنی کیفیت کا جس سے انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اپنی قدر و قمیت کو دوسروں سے بالاتر جانتا ہے۔
اس باطنی کیفیت کا موجب صرف ایک ہی چیز ہوتی ہے وہ ہے "عجب" یا خود پسندی جو متکبر کو لاحق ہوتی ہے کیونکہ انسان خودپسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی ذات، اپنے علم اپنے عمل یا کسی اور بات پر اتراتا و اکڑتا ہے تو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا اور دوسروں پر اپنی فوقیت جانتا ہے۔
اپنی ظاہری کبر کی کیفیت اس کے تین اسباب ہوتے ہیں۔ ایک سبب کا تعلق متکبر کے ساتھ ہوتا ہے، ایک کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے جس پر تکبر کیا جاتا ہے اور ایک کا تعلق ان دونوں کے علاوہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس سبب کا تعلق متکبر کے ساتھ ہوتا ہے وہ ہے "عُجب" یا خودپسندی، اور جس کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے جس پر تکبر کیا جاتا ہے وہ ہے "حد" اور "کینہ" جس سبب کا تعلق ان دو کے علاوہ کے ساتھ ہوتا ہے، وہ ہے "ریاکاری"۔ اس لحاظ سے تکبر کے کل چار اسباب بن جاتے ہیں۔ ۱۔ خودپسندی۔ ۲۔ کینہ۔ ۳۔ حسد اور ۴۔ ریاکاری۔"
المجة البیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۴۵۔ تمام کلام کا مطالعہ کیا جائے
(۱۰)کبر و غرور کا علاج
۱۷۲۶۷۔ جو شخص عظمتِ الہٰی کو جانتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ بڑائی اختیار کرے، کیونکہ عظمت پروردگار کے جاننے والوں کی سربلندی اسی بات میں ہے کہ وہ اس کے آگے توضع و انکساری کریں۔ جلال الہٰی کی معرفت رکھنے والوں کی عزت اسی بات میں ہے کہ وہ اس کے آگے ذلت و عاجزی کے ساتھ جھک جائیں۔۔
(حضرت امام حسنعلیہ السلام) مجاالانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۰۴
۱۷۲۶۸۔ جو شخص اللہ کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے مناسب نہیں کہ اپنی بڑائی کا اظہار کرے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۹۔ اگر اللہ چاہتا تو آدم کو ایک ایسے نور سے پیدا کرتا جس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دیتی اور اس کی خوشنمائی عقلوں پر چھا جاتی ایسی خوشبو سے کہ جس کی مہلک سانسوں کو جکڑ لے اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں جھگ جاتیں اور انکے بارے میں فرشتوں کی آزمائش ہلکی ہو جاتی۔
لیکن اللہ سبحانہ اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزمات ہے جن کی اصل و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں۔ تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں) امتیاز کر دے ان سے نخوت و برتری کو الگ اور غرور و خودپسندی کو دور کر دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۰۔ اگر انبیاء ایسی قوت و طاقت رکھتے جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ایسا تسلط و اقتدار رکھتے جس پر تعدی ناممکن ہوتی۔۔ تو یہ چیز نصیحت پذیری کے لئے آسان اور اس سے انکار و سرتابی بہت بعید ہوتی۔۔ لیکن اللہ سبحانہ نے یہ چاہا کہ اس کے پیغمبرو کا اتباع، اس کی کتابوں کی تصدیق، اس کے سامنے فروتنی، اسکے احکام کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت، یہ سب چیزیں اس کے لئے مخصوص ہوں ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ملو، اور جتنی آزمائش کڑی ہو گی اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۱۔ لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے ان سے اسی عبادت کا خواہان ہے جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے بتلاؤ آزمائش (کی راہ) سے اپنے فضل و کرم کے کھلے ہوئے دروازوں تک انہیں پہنچائے۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۲۔ یہی وہ چیز ہے جس سے خداوندِ عالم ایمان سے سرفراز ہونے والے بندوں کو نماز، زکوٰة اور مقررہ دنون میں روزوں کے جہاد کے ذریعے محفوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ان کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں) کو سکون کی سطح پر لاتا ہے، ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر نفس کو رام اور دلون کو متواضع بنا کر رعفت و خود پسندی کو ان سے دور فرماتا ہے۔
دیکھو! ان اعمال و عبادت میں غرور کیاابھرے اثرات کو مٹانے اور تمکنت کے نمایاں ہونے والے آثار کو دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۳۔ خداوندِ عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں کو پاک کرنے کے لئے اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لئے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲
کبر کے علاج کے بارے علاّمہ مجلسی کی گفتگو
"کبر کا علاج اور تواضع کا حصول دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک علمی اور دوسرا عملی علمی صورت تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کی اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرے یہی چیز کبر کے دور کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو صحیح معنی میں پہچان لے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ذلیل س ذلیل ترین مخلوق ہے، ایک سے کمترین ہے۔ اور اس کے شایان شان صرف یہی بات ہے کہ وہ اپن آپ کو متواضع، ذلیل و حقیر سمجھے جب اپنے رب کی معرفت حاصل کر لے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ عظمت و کبریائی صرف اور صرف ذات کبریا کو زیب دیتی ہے۔ یہی وہ علمی مداوا ہے جو کبروغرور کی رشیرکنی کرتا ہے جبکہ اس کا عملی علاج یہ ہے کہ انسان خود کو خدا و خدا کے سامنے متواضع و منکر سمجھے صاحبان تواضع کے اخلاق و عادات کو اختیار کئے رہے، خدا کے نیک و صالح افراد کے حالات سے باخبر رکھے ان سے ہمیشہ رہنمائی حاسل کرتا رہے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سیرت طیبہ کو اپنا اسوہ عمل قرار دے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زمین پر بیٹھ کر کھاناتناول کرتے نیز فرمایا کرتے تھے کہ میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں، اور اسی طرح غذا کھاتا ہوں جس طرح غلام کھانا کھاتے ہیں۔
مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۰۱ صفحہ ۲۰۵ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گفتگو احیاء العلوم غزالی سے اخذ کی گئی ہے۔
(قول موئف: ملاحظہ ہو: باب متکبر پر تعجب ہے۔۔ نیز: باب کبر زیبا ہے جناب کبریا کے واسطے اور ملحق باب۔)
(۱۱)کبر سے بچاؤ کا طریقہ
۱۷۲۷۴۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں میں ایسی چیزوں کو اٹھائے جو اس کے اہلِ خانہ کے استعمال میں آتی ہیں، کیونکہ اس طرح وہ کبروغرور سے بچا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر صفحہ ۱۶۶
۱۷۲۷۵۔ جو اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو پیوند لگائے، اپنے جوتوں کو خود گانٹھے اوراپنی ضروریات کی چیزوں کو خود اٹھائے وہ غرور سے محفوظ رہتا ہے۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) وسائل شیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۶
۱۷۲۷۶۔ جو اپنے مال اسباب کو خود اٹھاتا ہے وہ کبر و غرور سے بچا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۴
۱۷۲۷۷۔ جو اپنی بکری کا دودھ خود دوہے، اپنی قمیض کو پیوندخود لگائے اپنے جوتوں کو خود گانٹھے اپنے ملازم کا ہاتھ بٹائے اوربازار سے سودے خود اٹھا کر لائے وہ تکبر و رعونت سے محفوظ رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۳
۱۷۲۷۸۔ جو اونی لباس پہنے، گانٹھے ہوئے جوتے استعمال رکے، گدھے پر سواری کرے، بکری کا دودھ خود دوہے اور اس کے اہل خناہ اس کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ تکبر کو دور کر دیتا ہے، میں عبد (خدا) اور عبد (خدا) کا بیٹا ہوں، غلاموں کی طرح بیٹھتا ہوں اور غلاموں کی مانند کھانا کھاتا ہوں۔
میری طرف وحی کی گئی ہے کمہ منگرالمزاجی سے کام لو۔ اور ایک دوسرے پر برتری نہ جتاؤ۔۔۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۷
۱۷۲۷۹۔ ابوامامہ کہتے ہیں ایک مرتبہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جنت التبع کی طرف تشریف لے گئے آپ کے کچھ اصحاب بھی آپ کے پیچھے ہو لئے کچھ دور جا کر حضرت رک گئے اور انہیں کم دیا کہ آپ سے آگے آ جائیں پھر آپ ان کے پیچھے چلنے لگے۔ اس اقدام کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "میں نے اپنے پیچھے تمہارے جوتوں کی آواز سنی تو مجھے دل میں تکبر کا اندیشہ ہوا، اسی لئے میں نے یہ اقدام کیا ہے۔
(دیلمی) البتہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ صرف یہ بتانے کے لئے اسے درج کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اُدھر اس قسم کی روایات بھی موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو کنزالعمال حدیث ۸۸۷۸ (قولک موئف: احادیث میں مذکورہ امور کو قاعدہ کلیہ کی حیثیت نہیں دی جا سکتی، بلکہ زمان و مکان اور افراد کے اختلاف کے ساتھ قواعد بھی بدلتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے تواضع و انکساری کے لئے پشیمنہ کا لباس زیب تن کریں گے حالانکہ ان کے دل غرور و نخوت سے لبریز ہوں گے" لہٰذا غور کیجئے گا۔
۱۷۲۸۰۔ عبداللہ بن جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ مچھلی لٹکائی ہوئی تھی کہ اچانک میرا سامنا حضرت ابوالحسنعلیہ السلام سے ہو گیا۔ آپعلیہ السلام نے دیکھ کر فرمایا: "اسے پھینک دو، کیونکہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک شریف آدمی اپنے ساتھ ایک پست چیز کو اٹھائے ہوئے ہو"
آپ نے پھر ارشاد فرمایا: "تم ایسے لوگ ہو جن کے دشمن بہت زیادہ ہیں۔ اور لوگوں کو تمہارے ساتھ بڑی دشمنی ہے۔ لہٰذا ایسے گروہ شیطان! تم سے جس قدر بن پرے اپنے آپ کو زینت سے آراستہ رکھو، کیونکہ مخلوق تمہاری دشمن ہے"
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۵
۱۷۲۸۱۔ یونس بن یعقوب کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنے اہل خانہ کے لئے چیزیں خرید کر اٹھائے جا رہا تھا۔ جب اس نے امام کو دیکھا تو اسے شرم محسوس ہوئی۔ امامعلیہ السلام نے فرمایا: تم نے اپنے اہل خانہ کے لئے خریداری کی ہے اور انہی کے لئے سامان کو اٹھائے جا رہے ہو پھر فرمایا: نجدا میں بھی اسی بات کو پسند کرتا ہوں کہ اپنے اہل و عیال کے لئے سامان خرید کر خودی اٹھا کر گھر لے جاؤ، لیکن (چونکہ اہلِ مدینہ اس بات کو معیوب سمجھتے ہیں اس لئے) اہل مدینہ نہ ہوتے تو ایسا ضرور کرتا"
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۵
۱۷۲۸۲۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حضرت ابوذر کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک وصیت یہ بھی تھی "اے اباذر! آخری زمانہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو سرما اور گرما ہر موسم میں پشیمنہ کا لباس پہنیں گے اور اسی کو دوسروں پر اپنی فوقیت و فضیلت سمجھیں گے، یہ ایسے لوگ ہوں گے جنہیں اہل ارض و سیماء لعنت سے نواز دیں گے۔
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۶۲
(قول موئف: ملاحظہ ہو: "وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۴ باب ۵)
(۱۲)تکبر کے نتائج
۱۷۲۸۳۔ حرص، تکبر اور حسد گناہوں میں پھاند پڑنے کے محرکات ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱
۱۷۲۸۴۔ تکبر اور غرور کا ثمرہ یہ ہے کہ اس سے گالیاں پڑتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۵۔ تکبر اور رعونت بلند درجہ انسان کو پست کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۶۔ تکبر رزالت کا مظہر ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۷۔ متکبر کا کوئی سچا دوست نہیں ہوتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۸۔ تکبر گناہوں کے ارتکاب کا داعی ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۹۔ کثرتِ تکبر کی وجہ سے، تباہی اوربربادی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۰۔ جو تکبر و اسراف کا لباس اوڑھتا ہے اور شرافت و فضیلت کے جامے کو اتار پھینکتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۱۔ متکبر انسان کو اچھی تعریف کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۴ صفحہ ۳۰۴ جلد ۷۲ صفحہ ۱۹۰
۱۷۲۹۲۔ تکبر کرنے والا کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ (یا کوئی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا)۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(۱۳)خدا متکبر کو ذلیل کر دیتا ہے
۱۷۲۹۳۔ تکبر سربلند شخص کو ذلیل کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۴۔ آسمان میں دو فرشتے ہیں جو بندوں پر مقرر کئے گئے ہیں لہٰذا جو شخص کبرو غرور کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۷
۱۷۲۹۵۔ تکبر سربلند شخص کو ذلیل کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۶۔ جو لوگوں کے سامنے اکڑتا ہے ذلیل ہو جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۹۷۔ ہر ایک بندہ کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جسے ایک فرشتہ تھامے ہوئے ہوتا ہے لہٰذا جب کوئی شخص تکبر کرنے لگتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے: "پست ہو جا خدا تجھے ذلیل کرے تجھ جیسا شخص ہمیشہ اپنے دل میں تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نگاہوں میں بہت پست ہو جات اہے جب کوئی شخص تواضع و انکساری سے کام لیتا ہ تو کدا اسے بلند کر دیتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے تو بلند ہو جا خدا تجھے ہمیشہ سربلند رکھے۔ لہٰذا وہ شخص ہمیشہ اپنے آپ کو سب سے چھوٹا سمجھتا ہے لیکن لوگوں کی آنکھوں میں وہ سربلند ہوتا ہے"
۱۷۲۹۸۔ ہر ایک آدمی کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جو ایک فرشتے کے ہاتھ می ہوتی ہے جب وہ تکبر اور غرور کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس کی لگام کو نیچ ڈال دو۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۱ اسے طبرانی اور بزازنے کی روایت کیا ہے۔
۱۷۲۹۹۔ کھیتی (ہمیشہ) نرم زمین میں اگتی ہے چٹیل پہاڑ پر نہیں۔ اسی طرح حکمت اور دانائی بھی تواضع و انکساری کرنے والے دلوں میں پروان چڑھتی ہے، متکبر اور مغرور دلوں میں نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عجز و انکساری کو عقل کا آلہ قرار دیا ہے اور غرور نخوت کو جہالت کا آلہ بنایا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو شخص اپنا سرچھت سے اوپر لے جانا چاہتا ہے تو چھت اس کا سر پھوڑ دیتی ہے۔ اور جو اس میں سر کو جھکائے رکھتا ہے اس کے سایہ سے بہرہ مند ہوتا ہے چھت اسے اپنے اندر لئے رہتی ہے۔ اسی طرح جو شخص خد اکے لئے سرکو نہیں جھکاتا خدا اسے پست کر دیتا ہے اور جو سرِتسلیم جھکائے رہتا ہے خدا اسے سربلند کر دیتا ہے۔
(اما موسیٰ کاظم علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۳۱۲
۱۷۳۰۰۔ جو شخص خد اکے لئے ایک درجہ انکساری کرتا ہے، خدا اسے ایک درجہ سربلند فرما دیتا ہے بہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے بلند سے بلند ترین مقام تک جا پہنچاتا ہے اسی طرح جو شخص ایک درجہ تکبر کرتا ہے خدا بھی اسے ایک درجہ پست کر دیتا ہ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے پست سے پست ترین جگہ میں ڈال دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۰ اسے ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
۱۷۳۰۱۔ جو شخص تواضع و انکساری کرتا ہے اللہ اسے بلند تر کر دیتا ہے اور فرماتا ہے: "خدا تجھے سربلند رکھے، بلند سے بلند تر ہوتا جائے غرور سے کام لیتا ہے تو اس کی گردن توڑ دیتا ہے اور فرماتا: "ذلیل ہو جا" پس وہ شخص لوگوں کی نگاہوں سے گر جات اہے اور اپنے دل میں بڑا بنا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۰
(قول موئف: ملاحظہ ہو: بابا "تواضع "تواضع اختیار کرو بلند مرتبہ پاؤ گے")
متکبرین کا ٹھکانہ بہت بُرا ہے
قرآن مجید:
فادخلوا ابواب جہنم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثوی المتکبرین ۔ (نحل /۲۹)
ترجمہ:
پس جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہو گے تکبر کرنے والوں کاکیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
ان الذین یستکبرون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داخرین۔ (مومن/۶۰)
ترجمہ:
بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر اور سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
حدیث شریف:
۱۷۳۰۲۔ قیامت کے دن تکبر اور غرور کرنے والے چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی صورت میں مشہور ہوں گے اور لوگ انہیں لتاڑتے پھیریں گے کیونکہ وہ خدا کے نزدیک ذلیل و رسوا ہوں گے۔
(حضرت رسول اکرم) محبة البلاضا جلد ۶ صفحہ ۲۱۵
۱۷۳۰۳۔ یقینا متکبر لوگ چھوٹی چیونٹیوں کی صورت میں بنا دئیے جائیں گے اور لوگ انہیں روندتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حساب و کتاب ختم ہو جائے گا۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۹ و صفحہ ۲۳۷
۱۷۳۰۴۔ حارثہ بن وہب کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ جہنمی لوگ کون ہون گے؟" (پھر خودہی فرمایا) "ہر سرکش، مٹک کر چلنے والا اور متکبر انسان ہی جہنمی ہو گا"
الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۳ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
۱۷۳۰۵۔ قیامت کے دن متکبر لوگ چھوٹی چھوتی چیونٹیوں کی صورت میں مشہور رہیں گے جنہیں انسان روند ڈالیں گے۔ ان چیونٹیوں کی شکل و صورت انسانوں جیسی ہو گی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان سے بلند ہو گی۔۔
(حضرت رسول اکرم) مجة البلاضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۵ اسے احمد دین جنبل نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۱۷۹
۱۷۳۰۶۔ قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی مانند محور ہوں گے جن کی شکل و صورت انسانوں جیسی ہو گی اور انہیں ذلت و رسوائی ہر طر سے اپنے گھیرے میں لے لے گی۔۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۵۰
۱۷۳۰۷۔ جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام "ہبہب" ہے۔ خداوند عالم کا حق بنتا ہے کہ اس میں ہر مغرور و متکبر انسان کو ٹھہرائے۔
(حضرت رسول اکرم) حجتہ البضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۵ اسے حاکم نے بھی اپنی کتاب مستراک جلد ۴ صفحہ ۵۹۷ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
۱۷۳۰۸۔ جہنم میں ایک قصر ہے جس میں متکبرین کو بند کر کے اس کے دروازے بند کر دئیے جائیں گے۔
(حضرت رسول اکرم) حجة البضا جلد ۶ صفحہ ۲۱۵
۱۷۳۰۹۔ متکبرین کے لئے جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام "سقر" ہے اس نے ایک دن اللہ سے اپنی شدت حرارت کی شکایت کی اور درخواست کی اے ایک مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی جائے۔ اجازت ملنے پر جب اس نے سانس لیا تو تمام جہنم کو جلا ڈالا۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۸ صفحہ ۲۳۲ جلد ۸ صفحہ ۲۹۴
(قول مولف: ملاحطہ ہو: باب "جہنم" "متکبرین کی وادی"
۱۷۲۴۱۔ عبدالاعلی بن اعین کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمیا کہ "بہت بڑا تکبر مخلوق خدا کو حقیر جاننا اور حق کو بھلا دینا ہے" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: "مخلوق کو حقیر جاننا اور حق کو بھلا دینا کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: "حق سے بے خبری اور اہل حق پر طعن و تشنیع مراد ہے۔ لہٰذا جو شخص ایسا کرے گا وہ خدا کی ردائے کبریائی کو چھیننے کی کوشش کرے گا"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۸۔ صفحہ ۲۲۰
۱۷۲۴۲۔ کبر یہ ہے کہ تم لوگوں کو حق جانو اور حق کو بھلا دو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۷۔ صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۴۳۔ ابن فضال ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص متکبر افراد کے ساتھ چلے لیکن خود اس کے دل میں تبر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: "تکبر کیا ہے؟ فرمایا: "جس سے لوگوں کی تحقیر کی جائے اور حق کو نظر انداز کر دیا جائے"
مجارالانوار جلد ۹۹ صفحہ ۲۵۵
۱۷۲۴۴۔ عبدالاعلی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادقعلیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص مکہ میں کبر و غرور سے پا ک ہو کر دال ہو تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں" عرض کیا: "کبر و غرور سے کیا مراد ہے؟ "مخلوق کو حقیر سمجھنا اور حق کو بھلا دینا" میں نے کہا: "وہ کیونکر ہوتا ہے؟ فرمایا: "حق کو فراموش کر دیا جائے اور اہلِ حق کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے!"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۶
(۵)تکبر کی حقیقت
۱۷۲۴۵۔ حفص بن غیاث کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ سمجھے کہ اسے دوسروں پر کسی قسم کی فضیلت حاصل ہو تو اس کا شمار مستکبرین میں ہو گا" میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا: "جو شخص کسی کو گناہوں کا مرتکب دیکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اسے اس شخص پر اس لئے فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان گناہوں سے بچا ہوا ہے"
امامعلیہ السلام نے فرمایا: نہیں ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص کے گناہ بخش دئیے گئے ہوں اور تم سے اپنے گناہوں کا محاسبہ کیا جاے کیا تم نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانے کے جادوگروں کا قصہ (قرآن میں) نہیں پرھا۔۔؟"
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۳۶ جلد ۷۸ صفحہ ۳۲۵ فروع کافی جلد ۸ صفحة ۱۲۸
۱۷۲۴۶۔ ہشام بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقعلیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جب تم مکہ کی وادی میں اترو تو تمہارے اوپر پرانے ، یا پھٹے ہوئے یا کھدر کے کھردرے کپڑے ہونے چاہئیں، کیونکہ جو شکص بھی مکہ کی وادی میں اس حالت میں قیام پذیر ہو کہ اس کے دل مٰں ذرہ بھر بھی تکبر نہ ہو تو خداوند تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دے گا"
عبداللہ بن ابی یعفور نے سوال کیا: "تکبر کی دو کیا ہے؟ فرمای: "ایک شخص جب اچھے کپڑے پہن کر اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں" پھر آپعلیہ السلام سورہ قیامہ کی آیت ۱۴ تلاوت فرمائی بل الانسان علی نفسہ بصیرة" (انسان اپنے نفس کو خوب جانتا ہے)۔
مجار الانوار جلد ۷۹ صفحہ ۳۱۲
قول مولف: ابوحامد غزالی "کبر" کی حقیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
"تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کبر کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ ظاہری۔ ۲۔ باطنی ۔ باطنی کبر ایک نفسانی کیفیت ہے۔ اور ظاہری کبر اسے اعمال کا نام ہے جو اعضاء و جوارح سے سرزد ہوتے ہیں۔ لہٰذا باطنی اور نفسانی کیفیت پر "کبر" کا اطلاق زیادہ مناسب ہے جبکہ سرزد ہونے ولاے اعمال اسی کیفیت کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور کبر کی نفسانی کیفیت انہی اعمال کے انجام پانے کا موجب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نفسانی کیفیت اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے تکبر کہا جاتا ہے اور اگر باطن میں رہتی ہے تو اسے "کبر" کہتے ہیں۔
اسی بنا پر اس کی اصل وہی کیفیت ہوتی ہے جو نفس انسانی کے اندر پائی جاتی ہے جو یہ ہوتی ہے کہ انسان ان لوگوں کو دیکھتا ہے جن پر تکبر کر رہا ہوتا ہے تو اس طڑح اس کے نفس کو ایک قسم کی تسکین ہوتی ہے اسے ان لوگوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لہٰذا "کبر" کے لئے دو فریقوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک وہ جو تکبر کر رہا ہے اور دوسرا وہ جس پر تکبر کیا جا رہا ہے۔ یہیں سے "کبر" اور "عجب" (خودپسندی) کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ خود پسندی کا تعلق صرف ایک فریق سے یعنی خود انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جس کا وہ شکار ہوت اہے اگر (بالفرض) دنیا میں صرف ایک ہی انسان پیدا ہوتا تو وہ صرف اپنی ہی ذات کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اسے "خوپسند" تو کیا جاتا لیکن "متکبر" نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا انسان بھی ہوتا اور اس میں یہی نفسانی کیفیت پیدا ہوتی وہ خود کو کمال کی صفات دوسرے سے برتر سمجھتا تو متکبر کہلاتا۔ "البتہ کسی کے متکبر کہلانے کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ اپنے آپ کو بڑا اور برتر سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے شخص کو بھی اپنے سے بالاتر جانتا ہے یا کم از کم اپنے برابر سمجھتا ہے ایسا شخص متکبر نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح وہ صرف کسی کو حقیر سمجھ لینے سے متکبر نہیں کہلائے گا جبکہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو بھی حقر تر جانتا ہے یا اپنے آپ کو اس کے برابر سمجھتا ہے، پھر بھی ایسا شخص متکبر نہیں ہو گا۔
"اسی لئے تکبر کے لئے معیار یہ ہے کہ انسان اپنے لئے ایک مرتبہ مقرر کرے اور دوسرے کے لئے بھی اسی طرح کا "مرتبہ" متعین کرے پھر اپنے آپ کو اس مرتبہ سے بالاتر سمجھنے لگے تو گویا مذکورہ تینوں صورتوں میں اس کے اندر "کبر" کی کیفیت پائی جائے گی صرف اس لحاظ سے نہٰں کہ وہ اپنے اندر یہ کیفیت دیکھتا ہے، بلکہ اس لحاظ سے کہ وہ یہ کیفیت دیکھتا بھی ہے اور یہ عقیدہ اس کے اندر پھلتا پھولتا ہے اسی وجہ سے یہ اس کے دل میں ایک خوبی شمار ہونے لگتا ہے جس سے اسے نشاط حاصل ہوتی ہے، اور وہ اس سے فرحت و شادمانی محسوس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے دل میں عزت کا احساس کرتا ہے۔ پس یہی عزت، فرحت، نشاط و شادمانی "کبر کی کیفیت" ہوتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اکمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) فرماتے ہیں: "خداوندا! میں تجھ سے کبریائی کی فرحت و نشاط سے پناہ مانگتا ہو"
المجحتہ لابیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۲ صفحہ ۲۲۹
(۶)زمین پر اکڑ کر نہ چلو
قرآن مجید:
ولاتمش فی الارض مرحا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طولا۔ (بنی اسرائیل/۳۷)
ترجمہ:
اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، کیونکہ تو اسے ہرگز پھاڑ نہیں سکے گا، اور نہ ہی تو پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکے گا۔
ولا تصعرخدک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فخور (لقمان /۱۸)
ترجمہ:
اور لوگوں (کو دکھانے) کے لئے اپنے گال غرور سے نہ پُھلا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چل بے شک اللہ کسی دھوکے باز شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
وعدادالرحمن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قالو اسلاما۔ (فرقان/۶۳)
ترجمہ:
(خداوندِ) رحمان کے بندے تو وہی ہیں جو زمین پر بڑی انکساری سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہہ دیے ہیں (تم کو) سلام ہو۔
حدیث شریف:
۱۷۲۴۷۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "لاتمش فی الارض مرحا" (بنی اسرائیل/۳۷) کے بارے میں فرمیا کہ "مرحا" (اکڑنا) سے مراد بڑا بننا ہے۔
(امام محمد باقرعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۲
۱۷۲۴۸۔ حضرت رسول خدا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر رہے تھے جو اجتماع کئے ہوئے تھے آپ نے پوچھا: "کس لئے اکٹھے ہوئے ہو؟" انہوں نے کہا: "یارسول اللہ! یہ شخص دیوانہ ہے جسے دیوانگی کا دورہ پڑ چکا ہے" آپ نے فرمایا: "یہ دیوانہ نہیں بلکہ مصیبت زدہ ہے"
پھر فرمایا: "تمہیں بتاؤں کہ صحیح معنی میں دیوانہ کون ہوتا ہے؟" انہوں نے کہا: "یارسول اللہ! ضرور ارشاد فرمائیے! آپ نے فرمایا: "جو مٹک مٹک کر چلتا ہے۔ اپنے دونوں اطراف کی طرف بار بار دیکھتا ہے۔ اپنے شانون کو مٹکاتا ہوا چلتا ہے، خدا کی نافرمانی کے باوجود اس کی جنت کی آرزو رکھتا ہے جس کے شر سے کوئی محفوظ نہیں جس کی خیر کی کسی کو امید نہیں ایسا شخص (دراصل) مجنون ہے۔ یہ بے چارہ تو مصیبت زدہ ہے"
امام جعفر صادقعلیہ السلام اپنے آباؤ اجداد علیہم السلام نے یہی روایت کرتے ہیں۔
مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۳
۱۷۲۴۹۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے ستر سال کا (بوڑھا) ہوتا ہے، لیکن اپنی چال ڈھال سے بیس سال کا (نوجوان) معلوم ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۷۷۴۱
۱۷۲۵۰۔ اللہ تعالیٰ اسے بیس سالہ نواجوان کو پسند فرماتاہے جو بیس سالہ (نوجوان) کی مانند ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۷۷۳۲
(قول موئف: ملاحظہ ہو باب: "چال" "زمین پر اکڑ کر نہ چلو")
(۷)متکبر انسان
۱۷۲۵۱۔ ناپسندیدہ ترین انسان متکبر ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانور جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۱
۱۷۲۵۲۔ قیامت کے دن مجھ سے سب سے دو "ثرثار" لوگ ہوں گے یعنی وہی جو تکبر کرتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) مجار لانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۲
۱۷۲۵۳۔ آخرت کے دن تم لوگوں میں سے ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ترین اور ہم سے دور ترین لوگ متکبر نہ باچھیں کھول کھول کر باتیں کرنے والے اور متفیدق قسم کے لوگ ہوں گے"
لوگوں نے پوچھا: "یارسول اللہ! متفیہق کون لوگ ہوتے ہیں؟" فرمای: "متکبر لوگ"
(حضرت رسول اکرم) حجتہ البیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۴ اسے معمرمذی نے بھی ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو جلد ۸ صفحہ ۱۷۵
۱۷۲۵۴۔ کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجز و انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو؟
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۲۱
۱۷۲۵۵۔ متکبر ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(۸)تعجب ہے متکبر کس لئے تکبر کرتا ہے؟
۱۷۲۵۶۔ مجھے فرزند آدم پر تعجب ہوتا ہے جس کی ابتدا ایک نطفہ ہے وار انتہا مردار وہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان، غلاظت و گندگی کا برتن بنا پھرتا ہے اور پھر غرور اور تکبر بھی کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۴
۱۷۲۵۷۔ مجھے تعجب ہوت اہے متکبر و مغرور پر کل ایک نطفہ تھا اور کل کو مردار ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۱۲۶
۱۷۲۵۸۔ تعجب ہے متکبر اور فخرومباہات کرنے والے پر جو نطفے سے پیدا کیا گیا ہے پھر وہ مردار ہو جائے گا۔ اور اس دوران یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟
(امام محمد باقرعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۹
۱۷۲۵۹۔ مولا امام جعفر صادقعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی امام محمد باقرعلیہ السلام سے پاخانے کے متعلق پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے فرمایا: "اس کی وجہ نبی آدم کو حقارت کی طرف متوجہ کرانا ہے، تاکہ وہ اس کا حامل ہوتے ہوئے تکبر و غرور سے کام نہ لے"
مجار الانوار جلد ۸۰ صفحہ ۱۶۳ وسائل شیعہ جلد اول صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۶۰۔ حضرت سلمان فارسی اور ایک شخص کے درمیان جھگڑا ہو گیا اس شخص نے حضرت سلمان سے کہا: "سلمان! تم ہو کیا چیز؟ جناب سلمان نے کہا: "میی اور تمہاری اولاد ایک گندہ نطفہ تھے میرا اور تمہارا انجام ایک بدبودار مردار کی صورت میں ہو گا۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور میزان اعمال نصب کیا جائے گا، جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ معزز اور صاحبِ تکریم ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لئیم اور کمینہ ہو گا۔"
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) نے اپنے آباؤ اجداد سے روایت کی ہے۔
مجار ال؛انوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۱
۱۷۲۶۱۔ تم اس کی طرح نہ بنو جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلہ میں غرور کیا بغیر کسی فضیلت و برتری کے کہ جو اللہ نے اس میں قرار دی ہو سوائے اس کے کہ حاسدانہ عداوت سے اس میں بڑائی احساس ہوا اور خود پسندی نے اس کے ناک میں کبرو غرور کی آگ پھونک دی جس کی وجہ سے اللہ نے ندامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۳ صفحہ ۱۳۷ ۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
(۹)غرور تکبر کا سبب
۱۷۲۶۲۔ جو شخص تکبر یا جبر و استکبار سے کام لیتا ہے، اس کی وجہ وہ ذلت و خواری ہوتی ہے جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۵
۱۷۲۶۳۔ کسی کے تکبر کی وجہ وہ ذلت و احساس کمتری ہے جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہو۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانور جلد ۷۳ صفحہ ۲۲۵
۱۷۲۶۴۔ ہر متکبر حقیر ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۵۔ پست فطرت انسان ہی تکبر کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۶۔ صرف پست فطرت اور بے قدر انسان کے علاوہ کوئی تکبر و غرور نہیں کرتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(قولِ موئف: ملاحظہ ہو: "کذب" باب (جھوٹ) "جھوٹ بولنے کے اسباب"
اسبابِ تکبر کے بارے میں ابوحامد غزالی کا نظریہ
معلوم ہونا چاہئے کہ "کبر" ایک باطنی کیفیت ہے، جو صورت حال اخلاق و افعال سے ظاہر ہوتی ہے، وہ اس کیفیت کا ثمرہ اور نتیجہ ہوتی ہے اس کو "تکبر" سے موسوم کیا جانا چاہئے۔ جبکہ "کبر" نام ہے اس باطنی کیفیت کا جس سے انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اپنی قدر و قمیت کو دوسروں سے بالاتر جانتا ہے۔
اس باطنی کیفیت کا موجب صرف ایک ہی چیز ہوتی ہے وہ ہے "عجب" یا خود پسندی جو متکبر کو لاحق ہوتی ہے کیونکہ انسان خودپسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی ذات، اپنے علم اپنے عمل یا کسی اور بات پر اتراتا و اکڑتا ہے تو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا اور دوسروں پر اپنی فوقیت جانتا ہے۔
اپنی ظاہری کبر کی کیفیت اس کے تین اسباب ہوتے ہیں۔ ایک سبب کا تعلق متکبر کے ساتھ ہوتا ہے، ایک کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے جس پر تکبر کیا جاتا ہے اور ایک کا تعلق ان دونوں کے علاوہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس سبب کا تعلق متکبر کے ساتھ ہوتا ہے وہ ہے "عُجب" یا خودپسندی، اور جس کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے جس پر تکبر کیا جاتا ہے وہ ہے "حد" اور "کینہ" جس سبب کا تعلق ان دو کے علاوہ کے ساتھ ہوتا ہے، وہ ہے "ریاکاری"۔ اس لحاظ سے تکبر کے کل چار اسباب بن جاتے ہیں۔ ۱۔ خودپسندی۔ ۲۔ کینہ۔ ۳۔ حسد اور ۴۔ ریاکاری۔"
المجة البیضاء جلد ۶ صفحہ ۲۴۵۔ تمام کلام کا مطالعہ کیا جائے
(۱۰)کبر و غرور کا علاج
۱۷۲۶۷۔ جو شخص عظمتِ الہٰی کو جانتا ہے اسے زیب نہیں دیتا کہ بڑائی اختیار کرے، کیونکہ عظمت پروردگار کے جاننے والوں کی سربلندی اسی بات میں ہے کہ وہ اس کے آگے توضع و انکساری کریں۔ جلال الہٰی کی معرفت رکھنے والوں کی عزت اسی بات میں ہے کہ وہ اس کے آگے ذلت و عاجزی کے ساتھ جھک جائیں۔۔
(حضرت امام حسنعلیہ السلام) مجاالانوار جلد ۷۸ صفحہ ۱۰۴
۱۷۲۶۸۔ جو شخص اللہ کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے مناسب نہیں کہ اپنی بڑائی کا اظہار کرے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۶۹۔ اگر اللہ چاہتا تو آدم کو ایک ایسے نور سے پیدا کرتا جس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دیتی اور اس کی خوشنمائی عقلوں پر چھا جاتی ایسی خوشبو سے کہ جس کی مہلک سانسوں کو جکڑ لے اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں جھگ جاتیں اور انکے بارے میں فرشتوں کی آزمائش ہلکی ہو جاتی۔
لیکن اللہ سبحانہ اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزمات ہے جن کی اصل و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں۔ تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں) امتیاز کر دے ان سے نخوت و برتری کو الگ اور غرور و خودپسندی کو دور کر دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۰۔ اگر انبیاء ایسی قوت و طاقت رکھتے جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ایسا تسلط و اقتدار رکھتے جس پر تعدی ناممکن ہوتی۔۔ تو یہ چیز نصیحت پذیری کے لئے آسان اور اس سے انکار و سرتابی بہت بعید ہوتی۔۔ لیکن اللہ سبحانہ نے یہ چاہا کہ اس کے پیغمبرو کا اتباع، اس کی کتابوں کی تصدیق، اس کے سامنے فروتنی، اسکے احکام کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت، یہ سب چیزیں اس کے لئے مخصوص ہوں ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ملو، اور جتنی آزمائش کڑی ہو گی اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۱۔ لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گوناگوں سختیوں سے آزماتا ہے ان سے اسی عبادت کا خواہان ہے جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے بتلاؤ آزمائش (کی راہ) سے اپنے فضل و کرم کے کھلے ہوئے دروازوں تک انہیں پہنچائے۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۲۔ یہی وہ چیز ہے جس سے خداوندِ عالم ایمان سے سرفراز ہونے والے بندوں کو نماز، زکوٰة اور مقررہ دنون میں روزوں کے جہاد کے ذریعے محفوظ رکھتا ہے۔ اس طرح ان کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں) کو سکون کی سطح پر لاتا ہے، ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر نفس کو رام اور دلون کو متواضع بنا کر رعفت و خود پسندی کو ان سے دور فرماتا ہے۔
دیکھو! ان اعمال و عبادت میں غرور کیاابھرے اثرات کو مٹانے اور تمکنت کے نمایاں ہونے والے آثار کو دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۷۲۷۳۔ خداوندِ عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں کو پاک کرنے کے لئے اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کے لئے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲
کبر کے علاج کے بارے علاّمہ مجلسی کی گفتگو
"کبر کا علاج اور تواضع کا حصول دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک علمی اور دوسرا عملی علمی صورت تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کی اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرے یہی چیز کبر کے دور کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو صحیح معنی میں پہچان لے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ ذلیل س ذلیل ترین مخلوق ہے، ایک سے کمترین ہے۔ اور اس کے شایان شان صرف یہی بات ہے کہ وہ اپن آپ کو متواضع، ذلیل و حقیر سمجھے جب اپنے رب کی معرفت حاصل کر لے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ عظمت و کبریائی صرف اور صرف ذات کبریا کو زیب دیتی ہے۔ یہی وہ علمی مداوا ہے جو کبروغرور کی رشیرکنی کرتا ہے جبکہ اس کا عملی علاج یہ ہے کہ انسان خود کو خدا و خدا کے سامنے متواضع و منکر سمجھے صاحبان تواضع کے اخلاق و عادات کو اختیار کئے رہے، خدا کے نیک و صالح افراد کے حالات سے باخبر رکھے ان سے ہمیشہ رہنمائی حاسل کرتا رہے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سیرت طیبہ کو اپنا اسوہ عمل قرار دے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زمین پر بیٹھ کر کھاناتناول کرتے نیز فرمایا کرتے تھے کہ میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں، اور اسی طرح غذا کھاتا ہوں جس طرح غلام کھانا کھاتے ہیں۔
مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۰۱ صفحہ ۲۰۵ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ گفتگو احیاء العلوم غزالی سے اخذ کی گئی ہے۔
(قول موئف: ملاحظہ ہو: باب متکبر پر تعجب ہے۔۔ نیز: باب کبر زیبا ہے جناب کبریا کے واسطے اور ملحق باب۔)
(۱۱)کبر سے بچاؤ کا طریقہ
۱۷۲۷۴۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں میں ایسی چیزوں کو اٹھائے جو اس کے اہلِ خانہ کے استعمال میں آتی ہیں، کیونکہ اس طرح وہ کبروغرور سے بچا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر صفحہ ۱۶۶
۱۷۲۷۵۔ جو اپنے پھٹے پرانے کپڑوں کو پیوند لگائے، اپنے جوتوں کو خود گانٹھے اوراپنی ضروریات کی چیزوں کو خود اٹھائے وہ غرور سے محفوظ رہتا ہے۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) وسائل شیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۶
۱۷۲۷۶۔ جو اپنے مال اسباب کو خود اٹھاتا ہے وہ کبر و غرور سے بچا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۴
۱۷۲۷۷۔ جو اپنی بکری کا دودھ خود دوہے، اپنی قمیض کو پیوندخود لگائے اپنے جوتوں کو خود گانٹھے اپنے ملازم کا ہاتھ بٹائے اوربازار سے سودے خود اٹھا کر لائے وہ تکبر و رعونت سے محفوظ رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۳
۱۷۲۷۸۔ جو اونی لباس پہنے، گانٹھے ہوئے جوتے استعمال رکے، گدھے پر سواری کرے، بکری کا دودھ خود دوہے اور اس کے اہل خناہ اس کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں تو ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ تکبر کو دور کر دیتا ہے، میں عبد (خدا) اور عبد (خدا) کا بیٹا ہوں، غلاموں کی طرح بیٹھتا ہوں اور غلاموں کی مانند کھانا کھاتا ہوں۔
میری طرف وحی کی گئی ہے کمہ منگرالمزاجی سے کام لو۔ اور ایک دوسرے پر برتری نہ جتاؤ۔۔۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۹۷
۱۷۲۷۹۔ ابوامامہ کہتے ہیں ایک مرتبہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جنت التبع کی طرف تشریف لے گئے آپ کے کچھ اصحاب بھی آپ کے پیچھے ہو لئے کچھ دور جا کر حضرت رک گئے اور انہیں کم دیا کہ آپ سے آگے آ جائیں پھر آپ ان کے پیچھے چلنے لگے۔ اس اقدام کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "میں نے اپنے پیچھے تمہارے جوتوں کی آواز سنی تو مجھے دل میں تکبر کا اندیشہ ہوا، اسی لئے میں نے یہ اقدام کیا ہے۔
(دیلمی) البتہ اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ صرف یہ بتانے کے لئے اسے درج کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اُدھر اس قسم کی روایات بھی موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو کنزالعمال حدیث ۸۸۷۸ (قولک موئف: احادیث میں مذکورہ امور کو قاعدہ کلیہ کی حیثیت نہیں دی جا سکتی، بلکہ زمان و مکان اور افراد کے اختلاف کے ساتھ قواعد بھی بدلتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے تواضع و انکساری کے لئے پشیمنہ کا لباس زیب تن کریں گے حالانکہ ان کے دل غرور و نخوت سے لبریز ہوں گے" لہٰذا غور کیجئے گا۔
۱۷۲۸۰۔ عبداللہ بن جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ مچھلی لٹکائی ہوئی تھی کہ اچانک میرا سامنا حضرت ابوالحسنعلیہ السلام سے ہو گیا۔ آپعلیہ السلام نے دیکھ کر فرمایا: "اسے پھینک دو، کیونکہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک شریف آدمی اپنے ساتھ ایک پست چیز کو اٹھائے ہوئے ہو"
آپ نے پھر ارشاد فرمایا: "تم ایسے لوگ ہو جن کے دشمن بہت زیادہ ہیں۔ اور لوگوں کو تمہارے ساتھ بڑی دشمنی ہے۔ لہٰذا ایسے گروہ شیطان! تم سے جس قدر بن پرے اپنے آپ کو زینت سے آراستہ رکھو، کیونکہ مخلوق تمہاری دشمن ہے"
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۵
۱۷۲۸۱۔ یونس بن یعقوب کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادقعلیہ السلام نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنے اہل خانہ کے لئے چیزیں خرید کر اٹھائے جا رہا تھا۔ جب اس نے امام کو دیکھا تو اسے شرم محسوس ہوئی۔ امامعلیہ السلام نے فرمایا: تم نے اپنے اہل خانہ کے لئے خریداری کی ہے اور انہی کے لئے سامان کو اٹھائے جا رہے ہو پھر فرمایا: نجدا میں بھی اسی بات کو پسند کرتا ہوں کہ اپنے اہل و عیال کے لئے سامان خرید کر خودی اٹھا کر گھر لے جاؤ، لیکن (چونکہ اہلِ مدینہ اس بات کو معیوب سمجھتے ہیں اس لئے) اہل مدینہ نہ ہوتے تو ایسا ضرور کرتا"
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۵
۱۷۲۸۲۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حضرت ابوذر کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک وصیت یہ بھی تھی "اے اباذر! آخری زمانہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو سرما اور گرما ہر موسم میں پشیمنہ کا لباس پہنیں گے اور اسی کو دوسروں پر اپنی فوقیت و فضیلت سمجھیں گے، یہ ایسے لوگ ہوں گے جنہیں اہل ارض و سیماء لعنت سے نواز دیں گے۔
وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۶۲
(قول موئف: ملاحظہ ہو: "وسائل الشیعہ جلد ۳ صفحہ ۳۴۴ باب ۵)
(۱۲)تکبر کے نتائج
۱۷۲۸۳۔ حرص، تکبر اور حسد گناہوں میں پھاند پڑنے کے محرکات ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱
۱۷۲۸۴۔ تکبر اور غرور کا ثمرہ یہ ہے کہ اس سے گالیاں پڑتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۵۔ تکبر اور رعونت بلند درجہ انسان کو پست کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۶۔ تکبر رزالت کا مظہر ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۷۔ متکبر کا کوئی سچا دوست نہیں ہوتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۸۔ تکبر گناہوں کے ارتکاب کا داعی ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۸۹۔ کثرتِ تکبر کی وجہ سے، تباہی اوربربادی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۰۔ جو تکبر و اسراف کا لباس اوڑھتا ہے اور شرافت و فضیلت کے جامے کو اتار پھینکتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۱۔ متکبر انسان کو اچھی تعریف کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۴ صفحہ ۳۰۴ جلد ۷۲ صفحہ ۱۹۰
۱۷۲۹۲۔ تکبر کرنے والا کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ (یا کوئی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا)۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
(۱۳)خدا متکبر کو ذلیل کر دیتا ہے
۱۷۲۹۳۔ تکبر سربلند شخص کو ذلیل کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۴۔ آسمان میں دو فرشتے ہیں جو بندوں پر مقرر کئے گئے ہیں لہٰذا جو شخص کبرو غرور کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۳۷
۱۷۲۹۵۔ تکبر سربلند شخص کو ذلیل کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) عزرالحکم
۱۷۲۹۶۔ جو لوگوں کے سامنے اکڑتا ہے ذلیل ہو جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۷ صفحہ ۲۳۵
۱۷۲۹۷۔ ہر ایک بندہ کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جسے ایک فرشتہ تھامے ہوئے ہوتا ہے لہٰذا جب کوئی شخص تکبر کرنے لگتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے: "پست ہو جا خدا تجھے ذلیل کرے تجھ جیسا شخص ہمیشہ اپنے دل میں تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن لوگوں کی نگاہوں میں بہت پست ہو جات اہے جب کوئی شخص تواضع و انکساری سے کام لیتا ہ تو کدا اسے بلند کر دیتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے تو بلند ہو جا خدا تجھے ہمیشہ سربلند رکھے۔ لہٰذا وہ شخص ہمیشہ اپنے آپ کو سب سے چھوٹا سمجھتا ہے لیکن لوگوں کی آنکھوں میں وہ سربلند ہوتا ہے"
۱۷۲۹۸۔ ہر ایک آدمی کے سر میں ایک لگام ہوتی ہے جو ایک فرشتے کے ہاتھ می ہوتی ہے جب وہ تکبر اور غرور کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اس کی لگام کو نیچ ڈال دو۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۱ اسے طبرانی اور بزازنے کی روایت کیا ہے۔
۱۷۲۹۹۔ کھیتی (ہمیشہ) نرم زمین میں اگتی ہے چٹیل پہاڑ پر نہیں۔ اسی طرح حکمت اور دانائی بھی تواضع و انکساری کرنے والے دلوں میں پروان چڑھتی ہے، متکبر اور مغرور دلوں میں نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عجز و انکساری کو عقل کا آلہ قرار دیا ہے اور غرور نخوت کو جہالت کا آلہ بنایا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو شخص اپنا سرچھت سے اوپر لے جانا چاہتا ہے تو چھت اس کا سر پھوڑ دیتی ہے۔ اور جو اس میں سر کو جھکائے رکھتا ہے اس کے سایہ سے بہرہ مند ہوتا ہے چھت اسے اپنے اندر لئے رہتی ہے۔ اسی طرح جو شخص خد اکے لئے سرکو نہیں جھکاتا خدا اسے پست کر دیتا ہے اور جو سرِتسلیم جھکائے رہتا ہے خدا اسے سربلند کر دیتا ہے۔
(اما موسیٰ کاظم علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ صفحہ ۳۱۲
۱۷۳۰۰۔ جو شخص خد اکے لئے ایک درجہ انکساری کرتا ہے، خدا اسے ایک درجہ سربلند فرما دیتا ہے بہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے بلند سے بلند ترین مقام تک جا پہنچاتا ہے اسی طرح جو شخص ایک درجہ تکبر کرتا ہے خدا بھی اسے ایک درجہ پست کر دیتا ہ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے پست سے پست ترین جگہ میں ڈال دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۰ اسے ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
۱۷۳۰۱۔ جو شخص تواضع و انکساری کرتا ہے اللہ اسے بلند تر کر دیتا ہے اور فرماتا ہے: "خدا تجھے سربلند رکھے، بلند سے بلند تر ہوتا جائے غرور سے کام لیتا ہے تو اس کی گردن توڑ دیتا ہے اور فرماتا: "ذلیل ہو جا" پس وہ شخص لوگوں کی نگاہوں سے گر جات اہے اور اپنے دل میں بڑا بنا رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۰
(قول موئف: ملاحظہ ہو: بابا "تواضع "تواضع اختیار کرو بلند مرتبہ پاؤ گے")
متکبرین کا ٹھکانہ بہت بُرا ہے
قرآن مجید:
فادخلوا ابواب جہنم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثوی المتکبرین ۔ (نحل /۲۹)
ترجمہ:
پس جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہو گے تکبر کرنے والوں کاکیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
ان الذین یستکبرون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داخرین۔ (مومن/۶۰)
ترجمہ:
بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر اور سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
حدیث شریف:
۱۷۳۰۲۔ قیامت کے دن تکبر اور غرور کرنے والے چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی صورت میں مشہور ہوں گے اور لوگ انہیں لتاڑتے پھیریں گے کیونکہ وہ خدا کے نزدیک ذلیل و رسوا ہوں گے۔
(حضرت رسول اکرم) محبة البلاضا جلد ۶ صفحہ ۲۱۵
۱۷۳۰۳۔ یقینا متکبر لوگ چھوٹی چیونٹیوں کی صورت میں بنا دئیے جائیں گے اور لوگ انہیں روندتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حساب و کتاب ختم ہو جائے گا۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجارالانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۹ و صفحہ ۲۳۷
۱۷۳۰۴۔ حارثہ بن وہب کہتے ہیں: "میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ جہنمی لوگ کون ہون گے؟" (پھر خودہی فرمایا) "ہر سرکش، مٹک کر چلنے والا اور متکبر انسان ہی جہنمی ہو گا"
الترغیب والترہیب جلد ۳ صفحہ ۵۶۳ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
۱۷۳۰۵۔ قیامت کے دن متکبر لوگ چھوٹی چھوتی چیونٹیوں کی صورت میں مشہور رہیں گے جنہیں انسان روند ڈالیں گے۔ ان چیونٹیوں کی شکل و صورت انسانوں جیسی ہو گی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان سے بلند ہو گی۔۔
(حضرت رسول اکرم) مجة البلاضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۵ اسے احمد دین جنبل نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۱۷۹
۱۷۳۰۶۔ قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی مانند محور ہوں گے جن کی شکل و صورت انسانوں جیسی ہو گی اور انہیں ذلت و رسوائی ہر طر سے اپنے گھیرے میں لے لے گی۔۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۷۷۵۰
۱۷۳۰۷۔ جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام "ہبہب" ہے۔ خداوند عالم کا حق بنتا ہے کہ اس میں ہر مغرور و متکبر انسان کو ٹھہرائے۔
(حضرت رسول اکرم) حجتہ البضاء جلد ۶ صفحہ ۲۱۵ اسے حاکم نے بھی اپنی کتاب مستراک جلد ۴ صفحہ ۵۹۷ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
۱۷۳۰۸۔ جہنم میں ایک قصر ہے جس میں متکبرین کو بند کر کے اس کے دروازے بند کر دئیے جائیں گے۔
(حضرت رسول اکرم) حجة البضا جلد ۶ صفحہ ۲۱۵
۱۷۳۰۹۔ متکبرین کے لئے جہنم میں ایک وادی ہے جس کا نام "سقر" ہے اس نے ایک دن اللہ سے اپنی شدت حرارت کی شکایت کی اور درخواست کی اے ایک مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی جائے۔ اجازت ملنے پر جب اس نے سانس لیا تو تمام جہنم کو جلا ڈالا۔
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۸ صفحہ ۲۳۲ جلد ۸ صفحہ ۲۹۴
(قول مولف: ملاحطہ ہو: باب "جہنم" "متکبرین کی وادی"