نور وجدان
لائبریرین
انسان کو عبادت سے خدا سے نسبت ہے مگر خدا نے اسکو اشرف المخلوقات وجہ سے کیا..... اللہ عزوجل کے بَتائے گئے منظر نامے کو ذہن میں تازہ کرتے، جیسا سیدنا آدم علیہ سلام قران حکیم میں مذکور خدا کے روبرو ہیں اور فرشتے وہیں بیٹھے ہیں اک مجلس کی صورت.... فرشتوں کے سامنے خدا ایک اعلان فرماتا ہے
میں اِنسان کو جاعل ( خالق،بنانے والا،مرتب کرنے والا) زمین پر نافذ کرنے لگا ہوں، وہ بطور جاعل میرا خلیفہ ہے...جاعل اسم Nouns کے طور پر قران میں اس جگہ استعمال ہوا ہے جبکہ جعلت وجعلین بطور فعل یعنی verb کے طور اکثر استعمال کیے گئے.... -- جلعت، وجعلت ...جاعل بنانے والا
فرشتے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے خالق سے کہتے ہیں ...
یا خدا! آپ جس کو خالق، موجد بنا کے زمین پر بھیجنا چاہتے ہیں، وہ تو زمین میں فساد کا باعث بنے گا ...
اس پر جناب آدم علیہ سَلام کا اللہ تبارک وتعالی سے مکالمہ ہوتا ہے....وہ علم الاسماء جو ان پر القاء ہوئے... اسکا اظہار فرشتوں کے سامنے کرنے کو کہا جاتا ہے
ان علم الاسماء کو سورہ الحشر کی آخری سات آیات میں بیان کیا گیا ہے اور اس سے قبل کہا گیا ہے اگر یہ قرأت ہم کسی پہاڑ پر نازل فرماتے،وہ اسکے خوف سے دبا جاتا،پھٹا جاتا
ان اسماء کی پریکٹیل پریزینٹیشن فرشتوں پر ہوئی،فرشتوں کے ذریعے ...جناب آدم علیہ سلام اللہ کے نائب، وہی خدائی جلوہ جلال لیے اور تخلیقیت کی عظیم نعمت لیے، رحمنیت و رحیمی لیے بتاتے ہیں .....فرشتوں کو تخلیق کرتے ان کی صورت بناتے ....
ھو اللہ الخالق الباری المصور --
تخلیقیت کا اظہار بیشتر موجد و فنکار لوگ کرتے ہیں ..خیال محض خیال نہیں بلکہ ارادے سے عملی تعبیر ہے، کن فیکون ہے .... انسان سے خیال جیسے تخلیق ہوا، وہ غیب سے ظاہر ہوگیا ....
ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو
الملک القدوس السلام المومن المھیمن
العزیز الجبار المتکبر
Practical demonstration of these signs made the angels spellbound and dumbfounded
سب سے بڑے اسماء
الرحمن الرحیم
علم الغیب و شھادت
علم الغیب و شھادت کو آج کی دنیا میں یوں محسوس کیا جاسکتا. اک شخص جو علم الاسماء جانتا ہے اس کے لیے دیوار اک حجاب نہیں اور جو نہیں جانتا اس کے لیے دیوار اک حجاب ہے .... اس جاننے والے کی رینج میں پوری دنیا، اک خطہ، اک ملک، اک شھر ہوسکتا ہے
جس شخص کے لیے حجاب نہیں دیوار،اسکے لیے مکان کیا حیثیت رکھے گا؟ مکان کی قید سے نکلنے والا لامکان لازمان بیک وقت تمام زمانوں و مکانوں میں رہنے والا ....اس لیے جاننے والے حکیم کا حصار وہاں تک ہوتا ہے،جہاں تلک اسکی رینج ہے ....وہ دور بیٹھے قریب ہوسکتا ہے...آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصار وہ رینج جس پر آپ نے اویس قرنی کو پالیا ...اویس قرار پائے..
صفت رحم ----- The womb
Maker
اک ماں رحیم بھی ہے اور رحمن بھی ..بچے کو اپنے خیال کی قرأت سے اثر ڈالتے انسان بنانے تک مکمل اسکی رکھوالی ....وہ اپنے بچے کو مکمل ابتدا سے آخر تلک کن سے فیکون کرتے اک خاص شفقت کے حصار میں رکھتی ہے ...اور پھر جب وہ بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو اس پر صفت رحمانیت کو بار بار اپلائے کرتے سنوارتی ہے تربیت دیتی ہے . اسکو بیان/بولنا سکھاتی ہے ( علم البیان)
یہی رشتہ مامتا کا خالق کا انسان سے ہے ...یہی رشتہ نبی کا انسان سے ہے بحثیت نائب ...اسی رشتے کی عملی تعبیر جناب آدم علیہ سلام نے فرشتوں کو دکھائی اور عالم حیرت میں فرشتے کہنے لگے
قالو سبحانک لا علم لنا انک الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم
فرمایا گیا
جناب آدم فرشتوں کو خبر دو ...
انبا یعنی خبر دینا اور نبی خبر سے نکلا
فرشتوں کو خبر دی گئی
فرشتے جلالی و جمالی اوصاف دونوں کے حامل جماعتوں میں منقسم: روح، کروبیان،ملائک ،کرام کاتب، منکر نکیر ....
جناب آدم علیہ سلام نے ہر فرشتے کو اسکا نام بتایا اور ان کو ان کے متعلق خبر دی
فرشتوں کو مقام انسان بتادیا گیا،تب کہا گیا سجدہ کرو...سب نے سجدہ کرلیا مگر شیطن نے انکار کردیا .... ان تمام اعلی نوعیت کے اوصافی تجسیم کے بعد انکار کرنا گویا خدا کا انکار تھا ...شیطن جانتا تھا ...عبادت کی بنیاد پر انسان کو اعلی مقام حاصل نہیں بلکہ علم الاسماء کی بنیاد پر تمام فرشتوں و جنات پر برتری دی گئی ...یہ مقامِ انسانیت جس کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہا گیا ....
انسان کو جنت عطا کی گئی مگر اسکے ساتھ شیطن دیدیا گیا ..وہی سرکشی و نافرمانی جس سے وہ ابلیسیت کی جانب چل پڑے اور اس سے جنت چھین لی جائے... جب سرکشی ہوگئی اور معافی مانگ لی گئی. زمین پر اترنے سے قبل چند حرف چند لفظ مزید سکھا دیے گئے.زمین اتار دیا گیا مگر جنت سے محروم کر دیا گیا ....
میں اِنسان کو جاعل ( خالق،بنانے والا،مرتب کرنے والا) زمین پر نافذ کرنے لگا ہوں، وہ بطور جاعل میرا خلیفہ ہے...جاعل اسم Nouns کے طور پر قران میں اس جگہ استعمال ہوا ہے جبکہ جعلت وجعلین بطور فعل یعنی verb کے طور اکثر استعمال کیے گئے.... -- جلعت، وجعلت ...جاعل بنانے والا
فرشتے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے خالق سے کہتے ہیں ...
یا خدا! آپ جس کو خالق، موجد بنا کے زمین پر بھیجنا چاہتے ہیں، وہ تو زمین میں فساد کا باعث بنے گا ...
اس پر جناب آدم علیہ سَلام کا اللہ تبارک وتعالی سے مکالمہ ہوتا ہے....وہ علم الاسماء جو ان پر القاء ہوئے... اسکا اظہار فرشتوں کے سامنے کرنے کو کہا جاتا ہے
ان علم الاسماء کو سورہ الحشر کی آخری سات آیات میں بیان کیا گیا ہے اور اس سے قبل کہا گیا ہے اگر یہ قرأت ہم کسی پہاڑ پر نازل فرماتے،وہ اسکے خوف سے دبا جاتا،پھٹا جاتا
ان اسماء کی پریکٹیل پریزینٹیشن فرشتوں پر ہوئی،فرشتوں کے ذریعے ...جناب آدم علیہ سلام اللہ کے نائب، وہی خدائی جلوہ جلال لیے اور تخلیقیت کی عظیم نعمت لیے، رحمنیت و رحیمی لیے بتاتے ہیں .....فرشتوں کو تخلیق کرتے ان کی صورت بناتے ....
ھو اللہ الخالق الباری المصور --
تخلیقیت کا اظہار بیشتر موجد و فنکار لوگ کرتے ہیں ..خیال محض خیال نہیں بلکہ ارادے سے عملی تعبیر ہے، کن فیکون ہے .... انسان سے خیال جیسے تخلیق ہوا، وہ غیب سے ظاہر ہوگیا ....
ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو
الملک القدوس السلام المومن المھیمن
العزیز الجبار المتکبر
Practical demonstration of these signs made the angels spellbound and dumbfounded
سب سے بڑے اسماء
الرحمن الرحیم
علم الغیب و شھادت
علم الغیب و شھادت کو آج کی دنیا میں یوں محسوس کیا جاسکتا. اک شخص جو علم الاسماء جانتا ہے اس کے لیے دیوار اک حجاب نہیں اور جو نہیں جانتا اس کے لیے دیوار اک حجاب ہے .... اس جاننے والے کی رینج میں پوری دنیا، اک خطہ، اک ملک، اک شھر ہوسکتا ہے
جس شخص کے لیے حجاب نہیں دیوار،اسکے لیے مکان کیا حیثیت رکھے گا؟ مکان کی قید سے نکلنے والا لامکان لازمان بیک وقت تمام زمانوں و مکانوں میں رہنے والا ....اس لیے جاننے والے حکیم کا حصار وہاں تک ہوتا ہے،جہاں تلک اسکی رینج ہے ....وہ دور بیٹھے قریب ہوسکتا ہے...آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصار وہ رینج جس پر آپ نے اویس قرنی کو پالیا ...اویس قرار پائے..
صفت رحم ----- The womb
Maker
اک ماں رحیم بھی ہے اور رحمن بھی ..بچے کو اپنے خیال کی قرأت سے اثر ڈالتے انسان بنانے تک مکمل اسکی رکھوالی ....وہ اپنے بچے کو مکمل ابتدا سے آخر تلک کن سے فیکون کرتے اک خاص شفقت کے حصار میں رکھتی ہے ...اور پھر جب وہ بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو اس پر صفت رحمانیت کو بار بار اپلائے کرتے سنوارتی ہے تربیت دیتی ہے . اسکو بیان/بولنا سکھاتی ہے ( علم البیان)
یہی رشتہ مامتا کا خالق کا انسان سے ہے ...یہی رشتہ نبی کا انسان سے ہے بحثیت نائب ...اسی رشتے کی عملی تعبیر جناب آدم علیہ سلام نے فرشتوں کو دکھائی اور عالم حیرت میں فرشتے کہنے لگے
قالو سبحانک لا علم لنا انک الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم
فرمایا گیا
جناب آدم فرشتوں کو خبر دو ...
انبا یعنی خبر دینا اور نبی خبر سے نکلا
فرشتوں کو خبر دی گئی
فرشتے جلالی و جمالی اوصاف دونوں کے حامل جماعتوں میں منقسم: روح، کروبیان،ملائک ،کرام کاتب، منکر نکیر ....
جناب آدم علیہ سلام نے ہر فرشتے کو اسکا نام بتایا اور ان کو ان کے متعلق خبر دی
فرشتوں کو مقام انسان بتادیا گیا،تب کہا گیا سجدہ کرو...سب نے سجدہ کرلیا مگر شیطن نے انکار کردیا .... ان تمام اعلی نوعیت کے اوصافی تجسیم کے بعد انکار کرنا گویا خدا کا انکار تھا ...شیطن جانتا تھا ...عبادت کی بنیاد پر انسان کو اعلی مقام حاصل نہیں بلکہ علم الاسماء کی بنیاد پر تمام فرشتوں و جنات پر برتری دی گئی ...یہ مقامِ انسانیت جس کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہا گیا ....
انسان کو جنت عطا کی گئی مگر اسکے ساتھ شیطن دیدیا گیا ..وہی سرکشی و نافرمانی جس سے وہ ابلیسیت کی جانب چل پڑے اور اس سے جنت چھین لی جائے... جب سرکشی ہوگئی اور معافی مانگ لی گئی. زمین پر اترنے سے قبل چند حرف چند لفظ مزید سکھا دیے گئے.زمین اتار دیا گیا مگر جنت سے محروم کر دیا گیا ....