مزمل شیخ بسمل
محفلین
اچھی غزل ہے باوا آدم ولی دکنی کی زمین میں۔
جسے اہلِ چمن شبنم سمجھتے ہیں، حقیقت میں
غمِ راجا پہ روتے ہیں گلاب آہستہ آہستہ
ہمارے کان کھینچیں یا ہمیں مرغا بنا ڈالیںکرم جیسا بھی ہو، کرنا جناب آہستہ آہستہ
اچھی اصلاح ہے. مسلسل سے حقیقت کا منظر اور زیادہ واضح اور پراثر ہوجائے گا. باقی قبول کرنا نہ کرنا شاعر راجاصاحب ہی پر ہے. ویسے بہت ہی پرلطف اور مزےدار غزل ہے. بہت ہی.بلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔
پوری غزل کے تناظر میں مطلع کمزور ہے، خاص طور پر پہلا مصرع۔ بجا کہ اس انداز کی ردیفوں میں مطلع کہنا واقعی مشکل ہوتا ہے، تاہم مطلع کو حقیقی معانی میں مطلع (اٹھان) کا کام کرنا چاہئے، نہ کہ ۔۔۔ ۔۔
آگے چلتے ہیں۔
کوشش کرتا ہوں مطلع کو بہتر کرنے کیبلا تمہید ۔۔۔ ۔۔۔
پوری غزل کے تناظر میں مطلع کمزور ہے، خاص طور پر پہلا مصرع۔ بجا کہ اس انداز کی ردیفوں میں مطلع کہنا واقعی مشکل ہوتا ہے، تاہم مطلع کو حقیقی معانی میں مطلع (اٹھان) کا کام کرنا چاہئے، نہ کہ ۔۔۔ ۔۔
آگے چلتے ہیں۔
جزاک اللہ، مسلسل کرنے سے روانی بھی آگئی اور بات کی وضاحت بھی خوب ہو گئی۔یہاں ’’کوئی بھی‘‘ کی جگہ لفظ ’’مسلسل‘‘ رکھ کر دیکھئے۔ اچھا لگے تو دعا دیجئے گا، نہ لگے تو بھی دعا دیجئے گا۔
حوصلہ افزائی کے لئے شکریہدونوں شعر عمدہ ہیں۔
اسے بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔اس کو غلطی یا خامی کا نام تو نہیں دیا جا سکتا، تاہم ’’ہر سطرِ ورق‘‘ وہ جسےکہتے ہیں حلق سے نہیں اتر رہا۔ اس میں لطافت اور ملائمت لا سکیں تو بہت خوبصورت شعر بنے گا۔
شکریہ مزمل بھیااچھی غزل ہے باوا آدم ولی دکنی کی زمین میں۔
استادِ محترم، لگتا ہے مجھے تخلص بدلنا ہی پڑے گا، راجا پر کافی اعتراضات ہو چکے، اور اب تو لغت کی مداخلت بھی ہو چکی، کیا مشورہ دیں گے؟’’غمِ راجا‘‘ اسم علَم کے ساتھ ترکیب اضافی اصولی طور پر درست ہے، تاہم راجا کی لغت الگ ہونا کچھ کھل رہا ہے۔ بات وہی ہے کہ اصولی طور پر یہ درست ہے۔ ’’غمِ امجد‘‘ پر توجہ فرمائیے گا۔ اور پھر وہی بات کہ دعا ہر دو صورت میں دیجئے گا۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بہت آداب۔
غزل آہستہ آہستہ
نظر آہستہ آہستہ
اثر آہستہ آہستہ
واہ! بہت خوب ! جناب آہستہ آہستہ
دیں گے ہم بھی داد آہستہ آہستہ
ہاہاہاہاتکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
ہمیں مدہوش کردے گا شباب آہستہ آہستہ
دِکھاتی ہے اثر اپنا شراب آہستہ آہستہ
اس شعر کے ساتھ اوتار میں نئی تصویر بڑی معنی خیز لگی
آہستہ آہستہ کے ساتھ ہی قتیل شفائی کا ایک مصرع یاد آ گیا
ہو رہی ہے محبت تازہ دم آہستہ آہستہ
دوسرا مصرع ذہن پر زور دینے کے باوجود یاد نہ آیا
سوچا چلو مٹی پاؤ اکو تے یاد اے نا
بہت لطف آیا غزل پڑھ کر آہستہ آہستہ کی تکرار نے بہت مزا دیا
اسی طرح لکھتے رہیں
اللہ کرے زور قلم زیادہ
استادِ محترم، لگتا ہے مجھے تخلص بدلنا ہی پڑے گا، راجا پر کافی اعتراضات ہو چکے، اور اب تو لغت کی مداخلت بھی ہو چکی، کیا مشورہ دیں گے؟
نئی تصویر بنوائی تھی، سوچا دوستوں کو اپنے موجودہ خدوخال دکھائے جائیں۔ (دوستوں میں کوئی فلم پروڈیوسر بھی تو ہو سکتا ہے نا)
بیک وقت دو تخلص استعمال کرنا جائز ہے؟جہاں ضرورت ہو ’’امجد‘‘ لائیں، امجد اور راجا ویسے بھی ہم وزن ہیں۔ یہ تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔
امجد علی راجا