میں ایک تکیہ ہوں لیکن میری سرگزشت کسی انسانی آپ بیتی سے کم ہنگامہ خیز نہیں۔
میری پیدائش ایک بہت بڑے گھر میں ہوئی سب سے پہلے مجھے بڑے چاؤ کے ساتھ خوبصورت ریشمی غلاف میں ملفوف کرکے کوٹھی کے اسٹور روم میں کپڑوں کی بہت بڑی پیٹی میں سنبھال کے رکھ دیا گیا۔ میری سب سے پہلی ملاقات اس بڑے گھر کے ایک دور سے آئے ہوئے دیہاتی وضع کے مہمان سے کرائی گئی جس نے مجھے اپنے سر کی بجائے بازو کے نیچے رکھا سونے سے قبل اس مہمان نے رومال میں بندھے ہوئے کرنسی نوٹ اور چمڑے سے منڈھے ہوئے چار تعویذ اتار کر میرے پیٹ کے نیچے رکھ دیا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے فلک شگاف خراٹے میرا سکون تہ وبالا کرنے لگے دوسرے روز جب وہ مہمان رخصت ہونے لگا تو اسے اپنی گھڑی یاد آئی جو وہ کہیں رکھ کے بھول چکا تھا لہذا اب جو گھڑی کی تلاش شروع ہوئی تو سب سے پہلے مجھے ہی مشتبہ ٹھہرایا گیا چنانچہ میری مکمل جامہ تلاشی لی گئی مجھے سر عام برہنہ کیا گیا۔ پٹخنیاں دی گئیں۔ ایسا کرتے وقت موصوف مجھے"پنجاب پولیس" کا کوئی تھانیدار معلوم ہوا۔ بعد از تفتیش میں بے گناہ قرار پایا۔ اور گھڑی موصوف کے سلوکے سے برآمد ہوگئی۔ اس روز میں نے خداوند کریم سے دعا کی کہ مجھے دوبارہ کبھی ایسے غیر حاضر دماغ،شکی مزاج مہمان کی خدمت کا موقع نہ ملے۔
چند روز کے بعد مجھے اس گھر کے لاڈلے بیٹے"چھوٹے صاحب"کے کمرہ میں ان کے بستر کی زینت بنادیا گیا۔ خدا جانے چھوٹے صاحب کو میری آمد ناگوار گزری یا کہ ان کا پہلے سے یہی معمول تھا کہ روازنہ رات کے کھانے کے بعد مجھے رضائی میں اس طرح لٹا کر کہ جیسے وہ خود سو رہے ہوں۔ خود صبح تک نجانے کہاں غائب رہتے۔ اس طرح کافی عرصہ میں ان کی غیر حاضری میں ان کی جگہ نرم گرم بستر میں آرام کرتا رہتا بعض اوقات ان کی جگہ بڑے صاحب کا لیکچر بھی مجھے ہی سننا پڑتا۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک یوں ہی چلتا کہ ایک رات کیا غضب ہوا بڑے صاحب کچھ زیادہ ہی غصہ میں تھے۔
جاری۔۔۔
میری پیدائش ایک بہت بڑے گھر میں ہوئی سب سے پہلے مجھے بڑے چاؤ کے ساتھ خوبصورت ریشمی غلاف میں ملفوف کرکے کوٹھی کے اسٹور روم میں کپڑوں کی بہت بڑی پیٹی میں سنبھال کے رکھ دیا گیا۔ میری سب سے پہلی ملاقات اس بڑے گھر کے ایک دور سے آئے ہوئے دیہاتی وضع کے مہمان سے کرائی گئی جس نے مجھے اپنے سر کی بجائے بازو کے نیچے رکھا سونے سے قبل اس مہمان نے رومال میں بندھے ہوئے کرنسی نوٹ اور چمڑے سے منڈھے ہوئے چار تعویذ اتار کر میرے پیٹ کے نیچے رکھ دیا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے فلک شگاف خراٹے میرا سکون تہ وبالا کرنے لگے دوسرے روز جب وہ مہمان رخصت ہونے لگا تو اسے اپنی گھڑی یاد آئی جو وہ کہیں رکھ کے بھول چکا تھا لہذا اب جو گھڑی کی تلاش شروع ہوئی تو سب سے پہلے مجھے ہی مشتبہ ٹھہرایا گیا چنانچہ میری مکمل جامہ تلاشی لی گئی مجھے سر عام برہنہ کیا گیا۔ پٹخنیاں دی گئیں۔ ایسا کرتے وقت موصوف مجھے"پنجاب پولیس" کا کوئی تھانیدار معلوم ہوا۔ بعد از تفتیش میں بے گناہ قرار پایا۔ اور گھڑی موصوف کے سلوکے سے برآمد ہوگئی۔ اس روز میں نے خداوند کریم سے دعا کی کہ مجھے دوبارہ کبھی ایسے غیر حاضر دماغ،شکی مزاج مہمان کی خدمت کا موقع نہ ملے۔
چند روز کے بعد مجھے اس گھر کے لاڈلے بیٹے"چھوٹے صاحب"کے کمرہ میں ان کے بستر کی زینت بنادیا گیا۔ خدا جانے چھوٹے صاحب کو میری آمد ناگوار گزری یا کہ ان کا پہلے سے یہی معمول تھا کہ روازنہ رات کے کھانے کے بعد مجھے رضائی میں اس طرح لٹا کر کہ جیسے وہ خود سو رہے ہوں۔ خود صبح تک نجانے کہاں غائب رہتے۔ اس طرح کافی عرصہ میں ان کی غیر حاضری میں ان کی جگہ نرم گرم بستر میں آرام کرتا رہتا بعض اوقات ان کی جگہ بڑے صاحب کا لیکچر بھی مجھے ہی سننا پڑتا۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک یوں ہی چلتا کہ ایک رات کیا غضب ہوا بڑے صاحب کچھ زیادہ ہی غصہ میں تھے۔
جاری۔۔۔