تکیے کی آپ بیتی ۔ ایم اقبال

عندلیب

محفلین
میں ایک تکیہ ہوں لیکن میری سرگزشت کسی انسانی آپ بیتی سے کم ہنگامہ خیز نہیں۔
میری پیدائش ایک بہت بڑے گھر میں ہوئی سب سے پہلے مجھے بڑے چاؤ کے ساتھ خوبصورت ریشمی غلاف میں ملفوف کرکے کوٹھی کے اسٹور روم میں کپڑوں کی بہت بڑی پیٹی میں سنبھال کے رکھ دیا گیا۔ میری سب سے پہلی ملاقات اس بڑے گھر کے ایک دور سے آئے ہوئے دیہاتی وضع کے مہمان سے کرائی گئی جس نے مجھے اپنے سر کی بجائے بازو کے نیچے رکھا سونے سے قبل اس مہمان نے رومال میں بندھے ہوئے کرنسی نوٹ اور چمڑے سے منڈھے ہوئے چار تعویذ اتار کر میرے پیٹ کے نیچے رکھ دیا اور کچھ ہی دیر بعد اس کے فلک شگاف خراٹے میرا سکون تہ وبالا کرنے لگے دوسرے روز جب وہ مہمان رخصت ہونے لگا تو اسے اپنی گھڑی یاد آئی جو وہ کہیں رکھ کے بھول چکا تھا لہذا اب جو گھڑی کی تلاش شروع ہوئی تو سب سے پہلے مجھے ہی مشتبہ ٹھہرایا گیا چنانچہ میری مکمل جامہ تلاشی لی گئی مجھے سر عام برہنہ کیا گیا۔ پٹخنیاں دی گئیں۔ ایسا کرتے وقت موصوف مجھے"پنجاب پولیس" کا کوئی تھانیدار معلوم ہوا۔ بعد از تفتیش میں بے گناہ قرار پایا۔ اور گھڑی موصوف کے سلوکے سے برآمد ہوگئی۔ اس روز میں نے خداوند کریم سے دعا کی کہ مجھے دوبارہ کبھی ایسے غیر حاضر دماغ،شکی مزاج مہمان کی خدمت کا موقع نہ ملے۔

چند روز کے بعد مجھے اس گھر کے لاڈلے بیٹے"چھوٹے صاحب"کے کمرہ میں ان کے بستر کی زینت بنادیا گیا۔ خدا جانے چھوٹے صاحب کو میری آمد ناگوار گزری یا کہ ان کا پہلے سے یہی معمول تھا کہ روازنہ رات کے کھانے کے بعد مجھے رضائی میں اس طرح لٹا کر کہ جیسے وہ خود سو رہے ہوں۔ خود صبح تک نجانے کہاں غائب رہتے۔ اس طرح کافی عرصہ میں ان کی غیر حاضری میں ان کی جگہ نرم گرم بستر میں آرام کرتا رہتا بعض اوقات ان کی جگہ بڑے صاحب کا لیکچر بھی مجھے ہی سننا پڑتا۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک یوں ہی چلتا کہ ایک رات کیا غضب ہوا بڑے صاحب کچھ زیادہ ہی غصہ میں تھے۔
جاری۔۔۔
 

عندلیب

محفلین
پہلے تو معمول کا لیکچر ہوتا رہا پھر اچانک بڑے صاحب نے بڑی بے رحمی سے رضائی میرے اوپر سے ہٹائی اور یکدم ٹھنڈا یخ پانی مجھ پر انڈیل دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حقیقت حال کا علم ہوجانے پر بھی بجائے نادم ہونے یا مجھ سے ہمدردی کرنے کے الٹا مجھی کو بستر سے اٹھا کر نیچے قالین پر پٹخ دیا۔ میں صبح تک وہیں پڑا اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتا رہا۔ یہ تو بھلا ہو کریمن بو ا کا جس نے صبح صفائی کے وقت مجھے اٹھا کر جھاڑ پونچھ کر بستر پر رکھ دیا۔ بڑے صاحب کو تو گویا مجھ سے خدا واسطے کا بیر تھا اب دیکھیے نا اس میں بھلا مجھ غریب کا کیا دوش کہ چھوٹے صاحب نے میرے غلاف کے اندر بڑے ہی دلکش خطوط اور تیکھے نقوش والی سندر ناریوں، کی با لباس اور بے لباس اور بھینی بھینی خوشبوؤں سے مہکتے نیلے،گلابی کاغذ تہہ کرکے رکھے ہوئے تھے جب کسی طرح بڑے صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے اپنے لاڈلے صاحبزادے کو تو کچھ کہا نہیں۔ شامت میری آگئی۔ اور مجھے الٹ پلٹ کر سو سو طریقے سے ادھیڑا گیا، خوب جامہ تلاشی ہوئی اور پھر مجھے غصے سے دور پھینک دیا۔ میز کے کونے سے سر پر پڑنے والی چوٹ کی بازگشت تو آج بھی مجھے ٹیس بن کر سنائی دیتی ہے۔ چھوٹے صاحب کے ساتھ میرا قیام گو کہ مختصر رہا مگر اس مختصر سے عرصہ میں ہی جو جو ہنگامے ہوئے وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اور ان کی تفصیل سے ایک الگ داستان ترتیب پاسکتی ہے۔ خصوصا جب اس واقعہ کے بعد چھوٹے صاحب پر پابندیاں سخت ہوگئیں تو ان کے غصے اور جھنجلاہٹ کا ہدف بھی مجھ غریب کو بننا پڑا۔ وہ وقت جو پابندیوں سے قبل وہ گھر سے باہر اپنی دلچسپیوں میں گزارتے تھے۔ اب گھر پر رہ کر وہ وقت کاٹنا ان کے لیے سخت تکلیف دہ تھا۔ چنانچہ اس کا غصہ وہ عجیب و غریب اور ناقابل فہم حرکات کرکے نکالتے۔

زندگی اسی ڈگر پر رواں دواں تھی کہ یکایک فلک مجھ پر مہربان ہوگیا۔ ہوا یہ کہ جب اس گھر میں "جمنے پلنے" والی پیاری کومل سی بجیا کے "پیا گھر" سدھارنے کی تقریبات کا آغاز ہوا تو نجانے انہیں میری کون سی ادا بھائی یا پھر جذبہء ترحم کے تحت انہوں نے اپنے بیش قیمت اور نئے نویلے زرق برق بستروں کے ہمراہ مجھے بھی اس سامان میں رکھوا لیا جو ان کے ساتھ ہی پی کے دیس جانا تھا حالانکہ گھر کے تقریبا سبھی افراد نے نئے نئے اور قیمتی سامان کے درمیان اس حقیر کے وجود پر سخت اعتراض کیا مگر بجیا بضد رہیں۔ اور یوں میں بھی ان کے ہمراہ نئے گھر میں پہنچ گیا۔ یہاں شروع کا خاصا عرصہ آرام میں گزرا جب بجیا کے آنگن میں پہلا پھول کھلا اور وہ ایک طویل مدت میکے میں گزار کر واپس آئیں تو انہیں میرا خیال آیا اور یوں میری چھٹیاں بھی ختم ہوگئیں۔ بجیا کے کمر ے میں نرم نرم گدوں والے بستر پر ان دنوں بجیا کو جب تھوڑی دیر کے لیے کچن، باتھ روم یا گھر کے کسی دوسرے حصے میں مصروف رہنا ہوتا تھا تو وہ بچے کو میرے پہلو میں لٹا کر فیڈر کی نپل اس کے منہ میں ڈال دیتیں اور باقی فیڈر میرے سینے پر اس طرح ٹکا دیتیں کہ بچہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اسے سہارا دیے رکھتا اور توازن برقرار رہتا چنانچہ جب تک توازن برقرار رہتا بچہ مجھے ممی سمجھ کر بہلا رہتا اور کئی معصوم حرکتیں کرتا جس سے مجھے گد گدی بھی ہوتی مگر بعض اوقات جب دودھ ختم ہوجاتا یا ننھے منے ہاتھ فیڈر کا توازن قائم نہ رکھ پاتے تو نو نہال زور زور سے چلانے لگتا اور کبھی کبھیار غصے کے عالم میں پیشاب بھی کردیتا جس سے میرے پہلو میں سخت جلن ہوتی مگر میں تو "مجبور محض" تھا۔ نہ نونہال کی مدد کر سکتا تھا اور نہ ہی اپنے دفاع پر قادر تھا۔

جاری۔۔۔
 

عندلیب

محفلین
بجیا کے گھر میں نے طویل مدت گزاری، وہ دور بھلا میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں جب بجیا کے آنگن میں تین پھول کھل چکے تھے اور سب کے سب مجھ سے اس قدر مانوس تھے کہ اپنے معصومانہ کھیل میں مجھے بھ شریک رکھتے۔ میں بھی ان کے لیے شگفتہ اور مشفق جذبات رکھتا تھا۔ مگر مجھے اس وقت بہت تاؤ آتا جب یہ بچے آپس میں لڑ پڑتے اور مجھے بطور ہتھیار استعمال کرتے اس وقت میری ذہنی کوفت دو طرفہ ہوتی۔ ایک تو خود مجھے شدید پٹخنیاں اور لڑکھنیاں برداشت کرنا پڑتیں جس سے میرا جسم شدت سے دکھنے لگتا اور دوسرے جب معصوم بچے اپنے پھول جیسے کومل جسموں پر میرے شدت سے ٹکرانے کی ضرب برداشت نہ کرتے ہوئے رونے لگتے جس سے مجھے روحانی اذیت ہوتی۔

اس گھر میں متعدد بار میرا شکم چاک ہوا۔ دو مرتبہ تو میرے پیٹ سے سارا مواد نکال کر اسے بری طرح دھنا گیا۔ میری سوتی چمڑی اور ریشمی غلاف کو کاٹ دار صابن کے ہمراہ گرم پانی ڈال کر بجلی کی بے رحم "واشنگ مشین" میں بری طرح رگیدا گیا۔ پھر مجھے تازہ پانی سے نہلا کر رسی پر الٹا لٹکا دیا اور بعد ازاں میرے تمام اجزاء یکجا کرکے لوہے کی ستمگر سوئی سے میرا شکم دوبارہ سی دیا گیا۔ ہر آپریشن کے بعد نہ صرف میری نئی زندگی یقینی ہوتی بلکہ مجھے نیا روپ اور نئی توانائی بھی میسر آجاتی۔

پھر میری سیہ بختی کا دور دورہ شروع ہوا جو مجھے اس حال میں پہنچانے اور میری داستان آپ تک پہنچنے کا باعث بنا۔ مجھ سے یکایک بے اعتنائی برتی جانے لگی۔ اور مجھے ایک تاریک سے کمرے میں فالتو سامان کے ساتھ ڈال دیا گیا۔ کافی روز یونہی قید تنہائی میں گزر گئے پھر ایک دن بجیا نے مجھے وہاں سے نکلوا کر مائی رحمتے کے حوالے کردیا جو مجھے اپنے جھونپڑے نما بوسیدہ سے کچے مکان میں لے آئی اور بڑے اہتمام سے لکڑی کے پرانے صندوق پر دیوار کی ٹیک لگا کر رکھ دیا۔ مائی رحمتے کی اکلوتی اولاد راجو، جس کی بڑی بڑی مونچھیں اور آگ برساتی ہوئی لال لال خوفناک آنکھیں تھیں، اکثر میرے ریشمی غلاف میں ایک خوف ناک دو دھاری خنجر ، سیگریٹ کے سستے برنڈ کی ڈبیا، ماچس اور بھوری مائل سیاہ رنگت کی کسی شئے کی چھوٹی چھوٹی ڈلیاں رکھ چھوڑتا تھا جن کی سخت ناگوار بو سے مجھے گھن آتی اور میرا جی متلانے لگت مگر خنجر کا خوف ہی میرے حواس معطل کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ راجو کی عادات و اطوار کی وجہ سے مائی رحمتے کا دل اور گھر،دونوں سکون سے عاری تھے۔

راجو اکثر نشے کی حالت میں ماں سے لڑائی جھگڑا کرتا اور اُول فول بکتا رہتا۔ بعض اوقات اسی کیفیت میں گھر کے دیگر سامان کے ساتھ مجھے بھی اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیتا، بے چاری رحمتے باقی سامان کے ساتھ مجھے بھی اندر اٹھا لاتی۔ مجھے ساتھ لپٹا کر یا اپنے الجھے بالوں والا سر میرے سینے میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر روتی اور گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ س اپنے اکلوتے لخت جگر کے راہ راست پر آنے کی دعائیں مانگتی۔ ایک راز نجانے کس طرح میرے غلاف میں پوشیدہ بدبو دار شئے کی ڈلیاں کہیں گر گئیں اور مائی رحمتے نے انجانے میں کوڑے کے ساتھ انہیں بھی باہر پھینک دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ راجو نے وہ طوفان بپا کیا کہ "الامان" اسی غصے کے عالم میں راجو خنجر سنبھال کر ماں کی طرف بڑھا مگر جلد ہی اسے غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے اپنی جھنجلاہٹ مجھ ناتواں پر خنجرزنی کر کے پوری کی، مجھے بہت شدید زخم لگے۔

کئی جگہوں سے میرا جسم ادھڑ گیا اور میں شدت ضربات سے نڈھال ہوگیا۔ اس شقی القلب نے اسی پر ہی اکتفا نہ کیا۔ بلکہ مجھے "ٹھڈے" مار کر گھر سے یوں باہر پھینکا کہ جیسے اس کی غربت اور محرومیوں کا میں ہی ذمہ دار ہوں۔ رات کے سائے گہرے ہونے تک میں یونہی سسکتا رہا۔ پھر کالے مہیب بادلوں نے مشفق آسمان پر پُرہیت کالی چادر تان لی اور ایک دم دل دہلادینے والی گھن گرج کے ساتھ زور دار بارش شروع ہوگئی۔ جس نے سپیدہ سحر نمودار ہونے تک چہار سو جل تھل کردیا، میں بھیگتا رہا۔ جوہڑوں اور نالیوں کا کثیف پانی، ابر رحمت کے ساتھ مل کر میرے چھلنی جسم میں داخل ہوکر میرے زخموں کی ٹیس بڑھاتا رہا۔ دھوپ نکلنے پر میرے زخموں میں نمکین سوئیاں سی چھبنے لگیں، ، اب جان ناتواں کا یہ عالم ہے کہ کیچڑ اور غلاظت سے میرا وجود بھر چکا ہےاور مائی رحمتے کی آمد کی آس بھی دم توڑ چکی ہے۔ علم نزع میں میں یہ داستان آپ تک پہچانے کی سعی کر رہا ہوں۔
 
Top