تک رہا تھا روک کر اپنی روانی دور سے
صاحبان صبر کو دریا کا پانی دور سے
علم کو جانا پڑا چل کر جوار جہل تک
کیسے سمجاتا شہادت کے معانی دور سے
شیر خوار آغوش بابا میں بزرگی پا گیا
دیکھتی ہی رہ گئی اس کو جوانی دور سے
نوک نیزہ پر سجی تھی اس لئے قندیل نور
کم نظر بھی دیکھ لیں حق کی نشانی دور سے
یہ متاع قلب ہے، ماجد اسے آنکھوں میں رکھ
قیمتی ہوتا ہے جو آتا ہے پانی دور سے