تاسف تھئیٹر کی مایۂ ناز ہستی حبیب تنویر کا انتقال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

الف عین

لائبریرین
تعجب ہے کہ کسی نے یہاں اب تک پوسٹ نہیں کی یہ خبر۔
ہندوستان کے تھئیٹروں کی فی الوقت سب سے مشہور ہستی حبیب تنویر چل بسے۔ ان کی شہرت نظیر اکبر آبادی پر لکھے ڈرامے ’آگرہ بازار‘ سے ہوئی، اور اس کے بعد ان کا سب سے مقبول ڈرامہ ’چرن داس چور‘ تھا۔ مرحوم ایک عرصے سے تنفس کے بیمار تھے۔
http://www.dw-world.de/dw/article/0,,4312601,00.html
اور
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2009/06/090608_habib_tanvir_demise_np.shtml
 

محمد وارث

لائبریرین
انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائیں اور انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کچھ مزید مرحوم کے بارے میں۔

عصرِ حاضر کا نظیر اکبر آبادی
حبیب تنویرؔ

محمد امتیاز الدین

حبیب تنویر جن کا 86 سال کی عمر میں 8 جون 2009 ء کو انتقال ہوا، حقیقی معنوں میں ایک ممتاز اور منفرد شخصیت کے مالک تھے ۔ انھوں نے تھیٹر کو اپنی زندگی بنا لیا تھا۔ سچ پوچھیے تو وہ خود تھیٹر کی زندگی بن گئے تھے ۔ حبیب تنویر کو تین ہفتے قبل بھوپال کے نیشنل ہاسپٹل میں نمونیا اور سانس کی تکلیف کے سبب داخل کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے اُنھیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ایک نہ ایک دن انھیں دنیا کا یہ اسٹیج چھوڑنا تھا اور اپنے بے شمار مداحوں سے رخصت لینی تھی۔
حبیب تنویر کا خاندانی نام حبیب احمد خاں تھا ۔ انھوں نے رائے پور سے میٹرک اور ناگپور سے بی اے کیا۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ گئے اور ایم اے میں داخلہ لیا لیکن شاید ایم اے کی تکمیل نہیں کی اور وہاں سے ممبئی چلے گئے ۔
حبیب تنویر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا اور تنویر تخلص رکھا ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے آج سے کم و بیش پچاس سال پہلے انھیں حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا ۔ انھوں نے ایک طویل بحر کی غزل پڑھی تھی۔ حبیب تنویر نے بہت لہک کر کلام سنایا تھا اور کامیاب رہے تھے میں ان دنوں بہت کم عمر تھا ۔ غزل تو مجھے یاد نہیں رہی البتہ یہ یاد ہے کہ حبیب تنویر پائپ پی رہے تھے ۔ اس کے بعد میں نے کسی رسالے میں حبیب تنویر کا کلام نہیں دیکھا ۔ انھوں نے اپنے آپ کو ڈرامے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ حبیب تنویر اپنی عملی زندگی کی ابتدا ریڈیو کی ملازمت سے کی۔ پریم چند کی کہانی پر مبنی ’’شطرنج کے مہرے ‘‘ اور ’’چرن داس چور‘‘ ان کے مشہور ڈرامے ہیں ۔ ان کا شاہ کار ڈرامہ ’’آگرہ بازار‘‘ ہے ۔ مشہور عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر مبنی اس ڈرامے میں بازار کو انسانی سماج کی اسی تصویر کی طرح پیش کیا گیا ہے جس کے نقوش انمٹ اور لازوال ہیں ۔ نظیر اکبر آبادی نے ’’سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ کی مختصر سی ترکیب میں انسانی زندگی کے ہر رخ کو بڑی خوبی سے دکھایا تھا ۔ حبیب تنویر نے اسی سماجی تفاوت کو اس خوبی سے پیش کیا کہ یہ ڈراما تھیٹر کی تاریخ میں ایک سنگ میل بن گیا۔ حبیب تنویر نے یہ ڈراما جامعہ ملیہ دہلی میں پیش کیا تھا۔ اس ڈرامے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس کے تمام ادکار نا تجربہ کار تھے ۔ حبیب تنویر نے اوکھلا گاؤں کے رہنے والوں اور جامعہ کے طلبا کو لے کر یہ ڈراما تیار کیا تھا۔ حبیب تنویر کے خیالات ترقی پسندانہ تھے ۔ وہ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف تھے ۔ فرقہ پرست جماعتیں ان سے خار کھاتی تھیں لیکن حبیب تنویر نے کبھی کسی کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے ۔ ان کے ڈرامے پونگا پنڈت پر بھی بہت غل غپاڑا ہوا لیکن حبیب تنویر کے استقلال میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حبیب تنویر جنہیں عام طور پر حبیب صاحب کہا جاتا تھا، 1955ء میں انگلینڈ گئے اور وہاں رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس اور برسٹل اولڈوک تھیٹر میں ٹریننگ حاصل کی۔ اس کے بعد وہ دو سال تک یورپ کے مختلف ممالک کا دورہ کرتے رہے اور تھیٹر کا عملی مشاہدہ کیا۔1956ء میں برلن میں ان کا قیام رہا ۔ یہاں انھوں نے تھیٹر کی شہرہ آفاق شخصیت بریخت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے بے حد متاثر ہوئے ۔
حبیب تنویر کے دیگر ڈراموں میں ’’مٹی کی گاڑی‘‘ گاؤں کے نام سسرال ’’مور نام داماد‘‘ ’’اُتر رام چریتا‘‘ ، ’’بہادر کلارین‘‘ ’’کام دیو کا پنا بسنت ریتو کا سپنا‘‘ ، ’’زہریلی ہوا‘‘ ’’راج رکت‘‘ وغیرہ مشہور ہیں ۔ حبیب صاحب نے رچرڈائین برو کی فلم ’’گاندھی‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔ انھوں نے گیارہ ہندی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ حبیب صاحب کوکئی اعزازات ملے ۔ انھیں پہلے پدما شری اور بعد میں پدما بھوشن سے نوازا گیا۔ وہ ایک ٹرم کے لئے راجیہ سبھا کے رکن رہے ۔ سنگیت ناٹک اکیڈیمی فیلوشپ اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی ایوارڈ سے بھی اُنھیں نوازا گیا۔ چرن داس چور کے لیے اُنھیں ایڈنبرا فیسٹول کے اعلی انعام سے بھی سرفراز کیا گیا۔
حبیب تنویر نے غالب پر بھی ایک ڈرامہ لکھا تھا جس میں غالب کا کردار خود انھوں نے ادا کیا تھا۔ ڈرامہ سے ان کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ جن دنوں وہ راجیہ سبھا کے ممبر تھے تو دہلی میں ان کا سرکاری بنگلہ تھیٹر کی سرگرمیوں کا مرکز رہا کرتا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد جب ان کی لڑکی نگین سے پوچھا گیا کہ ان کے رشتہ دار کہاں کہاں سے آئیں گے تو اس نے جواب دیا کہ رشتہ دار تو نہیں البتہ ڈرامے سے جڑی ہوئی ہستیاں مختلف جگہوں سے آئیں گی۔ تھیٹر ہی ان کا خاندان تھا۔
1954ء میں حبیب تنویر نے قدسیہ زیدی کے ساتھ ہندوستانی تھیٹر میں کام شروع کیا تھا۔ یہیں ان کی ملاقات مونیکا مشرا سے ہوئی جو آگے چل کر ان کی رفیق حیات بن گئیں ۔ چار سال پہلے مونیکا مشرا کا انتقال ہو گیا تھا جس کا حبیب صاحب کو بہت صدمہ تھا۔ حبیب تنویر نے چھتیس گڑھی زبان میں ڈرامے پیش کیے جو بہت مقبول ہوئے جیسے ’’مٹی کی گاڑی‘‘ ، ’’گاؤں کے ناوم سسرال‘‘ مور ناول داماد وغیرہ۔ موخرالذکر ڈرامے مزاحیہ رنگ میں ہیں جس میں ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان لڑکی سے شادی کر لیتا ہے لیکن بعد میں لڑکی کسی نوجوان کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے ۔ 1959ء میں حبیب تنویر نے ’’نیا تھیٹر‘‘ بھوپال میں قائم کیا۔ اسی تھیٹر کے بینر تلے انھوں نے ڈرامے کے فن کو بامِ عروج پر پہنچایا۔
حبیب تنویر کے ڈراموں کی مقبولیت کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے تھے اور ان کے موضوعات انسانی زندگی سے بہت قریب تھے ۔ ’’کام دیو کا بسنت ریتو کا سپنا‘‘ شیکسپیر کے مشہور ڈرامے Midsummer Night's Dream کا ایک بہترین مرقع ہے ۔
ایکٹر جمیل خاں جنھوں نے ’’آگرہ بازار‘‘ میں کام کیا ہے ، حبیب صاحب کے دل سے معترف تھے ۔ بڑے بڑے فن کار بھی حبیب تنویر سے متاثر تھے ۔ نصیرالدین شاہ جیسا اداکار ان کے سامنے شاگرد کی طرح بیٹھتا تھا۔
حبیب تنویر آخری عمر میں اپنی سوانح عمری لکھ رہے تھے جو اب نامکمل رہ گئی ہے ۔ شاید ان کا کوئی عقیدت مند اسے مکمل کر دے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایک عظیم فن کار کی زندگی کی کہانی اکثر ادھوری رہ جاتی ہے ۔ اس کا چھوڑا ہوا کام کوئی اور آگے بڑھاتا ہے ۔ اس طرح اس کی زندگی جسمانی پیکر کی بجائے انسانی آرزو کی شکل میں زندہ رہتی ہے ۔
***
 

تلمیذ

لائبریرین
دعائیں تو خیر مرحوم کے لئے ہیں ہی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ پورے پاک و ہند میں ایک دوسرے کی نابغہ روزگار ہستیوں کے بارے میں عامۃالناس کا علم نہایت کم ہے۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے تھیٹر کی اس عظیم شخصیت کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اسے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top