نوید صادق
محفلین
غزل
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا، کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہمارے گلے میں تھا
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
(احمد مشتاق)
تھا مجھ سے ہم کلام مگر دیکھنے میں تھا
جانے وہ کس خیال میں تھا، کس سمے میں تھا
کیسے مکاں اجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
تا صبح برگ و شاخ و شجر جھومتے رہے
کل شب بلا کا سوز ہمارے گلے میں تھا
نیندوں میں پھر رہا ہوں اسے ڈھونڈتا ہوا
شامل جو ایک خواب مرے رتجگے میں تھا
(احمد مشتاق)