طارق شاہ
محفلین
غزل
تھا مِیر جن کو شعر کا آزار مر گئے
غالب تمھارے سارے طرفدار مر گئے
جذبوں کی وہ صداقتیں مرحُوم ہو گئیں
احساس کے نئے نئے اِظہار مر گئے
تشبیہہ و استعارہ و رمز و کنایہ کیا
پَیکر تراش شعر کے فنکار مر گئے
ساقی! تِری شراب بڑا کام کر گئی
کچھ راستے میں، کچھ پَسِ دِیوار مر گئے
تقدیسِ دِل کی عصیاں نِگاری کہاں گئی
شاید غزل کے سارے گنہگار مر گئے
شعروں میں اب جہاد ہے، روزہ نماز ہے
اُردو غزل میں جتنے تھے کُفّار مر گئے
اخبار ہو رہی ہے غزل کی زبان اب
اپنے شہید آٹھ ، اُدھر چار مر گئے
مصرعوں کو ہم نے، نعرۂ تکبِیر کر دِیا
گِیتوں کے پُختہ کار گُلوکار مر گئے
تنقِیدی اصطلاحوں کے مُشتاق شہسوار
گھوڑوں پہ دوڑے آئے، سَرِ دار مر گئے
ناز و ادا سے مچھلِیاں اب ہیں غزل سَرا
تہمد پکڑ کے صاحبِ دستار مر گئے
یا رب! طلسمِ ہوش رہا ہے مُشاعرہ
جن کو نہیں بُلایا، وہ غم خوار مر گئے
ڈاکٹر بشیر بدر