ساقی۔
محفلین
تھر ہلاکتیں:’مجرمانہ غفلت‘ کے حکومتی اعتراف کے بعد چیف جسٹس کا از خود نوٹس
پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں قحط سالی کی وجہ سے درجنوں بچوں کی ہلاکت پر صوبائی حکومت کی جانب سے مجرمانہ غفلت کے اعتراف کے بعد اب چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صحرائی علاقے تھر میں چرند اور پرند کے بعد اب انسانوں پر بھی غذائی قلت کے اثرات سامنے آئے ہیں۔ ان مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے بنے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مٹھی کے ضلعی ہپستال میں دو ماہ میں 60 بچے انتقال کر چکے ہیں۔
سندھ کی حکومت نے جمعے کو تھر میں بچوں کی ہلاکت میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب افسران کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
پاکستانی فوج کا بھی کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے فوجی دستے تھرپارکر کی جانب روانہ کیے گئے ہیں تاہم نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ تھر میں صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کی شام جاری کی جانے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آنے والی خبروں میں ضلع تھرپارکر میں شدید غذائی قلت کی وجہ سے ایک سو کے قریب بچوں کی ہلاکت اور وہاں قحط کی سی صورتحال پیدا ہونے کی بات کی گئی ہے۔
"
اس سال سخت سردی پڑی جس کی وجہ سے بچے نمونیا میں مبتلا ہوگئے، جب کہ ہلاکتوں کی دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے، جس کے باعث بچوں کو دودھ نہیں ملا۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہیں ہوسکی تھی، جس وجہ سے غذا کی کمی میں اضافہ ہوا اور حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔"
قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ
بیان کے مطابق ان اطلاعات پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے دس مارچ کو سماعت کے موقع پر سندھ کے چیف سیکریٹری سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی موجودہ چیف جسٹس کو ایک خط میں تھر میں قحط سالی سے بچوں کی ہلاکتوں پر عوامی مفاد میں از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت اور قحط سالی کے باعث درجنوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق انسانی جانوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔
ادھر پاکستان کی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں کی جانب حیدرآباد سے فوجی امدادی ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں جو اپنے ساتھ راشن اور ادویات لے کر گئی ہیں۔ فوج نے متاثرہ علاقوں میں طبی کیمپ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے سربراہ میجر جنرل سعید علیم نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی کہ بتائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قحط کی صورتحال ایک رات میں پیدا نہیں ہو جاتی: ’جنوری میں ہماری ٹیم نے معمولی درجے کے قحط کی وارننگ دی تھی کیونکہ ضلع تھر میں بارشیں بھی کم ہوئی ہیں۔‘
"
قحط کی صورتحال ایک رات میں پیدا نہیں ہو جاتی۔ جنوری میں ہماری ٹیم نے معمولی درجے کے قحط کی وارننگ دی تھی کیونکہ ضلع تھر میں بارشیں بھی کم ہوئی ہیں۔۔۔فروری کے مہینے میں 23 بچے ہلاک ہوئے ہیں مگر ان 23 بچوں میں سے کسی کی موت بھی قحط کے باعث نہیں ہوئی۔چھ کی موت نمونیا سے ہوئی اور باقی کی موت دیگر پیچیدگیوں کے باعث ہوئی ہیں۔"
میجر جنرل سعید علیم
بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جو معلومات ان کے پاس ہیں فروری کے مہینے میں 23 بچے ہلاک ہوئے ہیں مگر ’ان 23 بچوں میں سے کسی کی موت بھی قحط کے باعث نہیں ہوئی۔ چھ کی موت نمونیا سے ہوئی اور باقی کی موت دیگر پیچیدگیوں کے باعث ہوئی ہیں۔‘
خیال رہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے جمعے کو تھر کے دورے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سال سخت سردی پڑی جس کی وجہ سے بچے نمونیا میں مبتلا ہوگئے، جب کہ ہلاکتوں کی دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے، جس کے باعث بچوں کو دودھ نہیں ملا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہیں ہوسکی تھی، جس وجہ سے غذا کی کمی میں اضافہ ہوا اور حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ صرف تھر کے ضلعی ہپستال مٹھی میں طبی سہولیات موجود ہیں اور پورے ضلعے سے مریض یہیں لائے جاتے ہیں اور وہاں گذشتہ دو ماہ میں 41 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے متعلقہ محکموں کی مجرمانہ غفلت تسلیم کی اور تحقیقات کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، جس میں ڈی آئی جی ثنااللہ عباسی بھی شامل ہوں گے۔
بی بی سی اردو
پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرائی ضلع تھرپارکر میں قحط سالی کی وجہ سے درجنوں بچوں کی ہلاکت پر صوبائی حکومت کی جانب سے مجرمانہ غفلت کے اعتراف کے بعد اب چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صحرائی علاقے تھر میں چرند اور پرند کے بعد اب انسانوں پر بھی غذائی قلت کے اثرات سامنے آئے ہیں۔ ان مشکلات کا سب سے پہلا شکار بچے بنے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مٹھی کے ضلعی ہپستال میں دو ماہ میں 60 بچے انتقال کر چکے ہیں۔
سندھ کی حکومت نے جمعے کو تھر میں بچوں کی ہلاکت میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب افسران کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
پاکستانی فوج کا بھی کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے فوجی دستے تھرپارکر کی جانب روانہ کیے گئے ہیں تاہم نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ تھر میں صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کی شام جاری کی جانے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آنے والی خبروں میں ضلع تھرپارکر میں شدید غذائی قلت کی وجہ سے ایک سو کے قریب بچوں کی ہلاکت اور وہاں قحط کی سی صورتحال پیدا ہونے کی بات کی گئی ہے۔
"
اس سال سخت سردی پڑی جس کی وجہ سے بچے نمونیا میں مبتلا ہوگئے، جب کہ ہلاکتوں کی دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے، جس کے باعث بچوں کو دودھ نہیں ملا۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہیں ہوسکی تھی، جس وجہ سے غذا کی کمی میں اضافہ ہوا اور حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔"
قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ
بیان کے مطابق ان اطلاعات پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے دس مارچ کو سماعت کے موقع پر سندھ کے چیف سیکریٹری سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی موجودہ چیف جسٹس کو ایک خط میں تھر میں قحط سالی سے بچوں کی ہلاکتوں پر عوامی مفاد میں از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت اور قحط سالی کے باعث درجنوں بچے جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق انسانی جانوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔
ادھر پاکستان کی فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے متاثرہ علاقوں کی جانب حیدرآباد سے فوجی امدادی ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں جو اپنے ساتھ راشن اور ادویات لے کر گئی ہیں۔ فوج نے متاثرہ علاقوں میں طبی کیمپ بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے سربراہ میجر جنرل سعید علیم نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی کہ بتائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قحط کی صورتحال ایک رات میں پیدا نہیں ہو جاتی: ’جنوری میں ہماری ٹیم نے معمولی درجے کے قحط کی وارننگ دی تھی کیونکہ ضلع تھر میں بارشیں بھی کم ہوئی ہیں۔‘
"
قحط کی صورتحال ایک رات میں پیدا نہیں ہو جاتی۔ جنوری میں ہماری ٹیم نے معمولی درجے کے قحط کی وارننگ دی تھی کیونکہ ضلع تھر میں بارشیں بھی کم ہوئی ہیں۔۔۔فروری کے مہینے میں 23 بچے ہلاک ہوئے ہیں مگر ان 23 بچوں میں سے کسی کی موت بھی قحط کے باعث نہیں ہوئی۔چھ کی موت نمونیا سے ہوئی اور باقی کی موت دیگر پیچیدگیوں کے باعث ہوئی ہیں۔"
میجر جنرل سعید علیم
بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جو معلومات ان کے پاس ہیں فروری کے مہینے میں 23 بچے ہلاک ہوئے ہیں مگر ’ان 23 بچوں میں سے کسی کی موت بھی قحط کے باعث نہیں ہوئی۔ چھ کی موت نمونیا سے ہوئی اور باقی کی موت دیگر پیچیدگیوں کے باعث ہوئی ہیں۔‘
خیال رہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے جمعے کو تھر کے دورے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سال سخت سردی پڑی جس کی وجہ سے بچے نمونیا میں مبتلا ہوگئے، جب کہ ہلاکتوں کی دوسری وجہ خوراک کی کمی ہے، جس کے باعث بچوں کو دودھ نہیں ملا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہیں ہوسکی تھی، جس وجہ سے غذا کی کمی میں اضافہ ہوا اور حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ صرف تھر کے ضلعی ہپستال مٹھی میں طبی سہولیات موجود ہیں اور پورے ضلعے سے مریض یہیں لائے جاتے ہیں اور وہاں گذشتہ دو ماہ میں 41 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے متعلقہ محکموں کی مجرمانہ غفلت تسلیم کی اور تحقیقات کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا اعلان کیا، جس میں ڈی آئی جی ثنااللہ عباسی بھی شامل ہوں گے۔
بی بی سی اردو