تھوڑے سے الفاظ۔

آپ کی اجازت سے یہ تلخ حقیقت آپ کی نذر،
1987-88 میں جب میں نے اور خلیل احمد نے اردو نستعلیق کا پہلا پہل سوفٹ ویر صدف لکھا تو پہلے 6 ماہ میں ہی کوئی 250 سے زائید اخبار رسالہ اس پر چھپنے لگے۔ ہم دونوں‌نے ان الفاظ کی ایک ڈیٹا بیس بنانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ دو حرفی الفاظ - کا ، کی ، کے ، کو ہٹا کر صرف1800 اور کچھ الفاظ تھے جو 250 اخبار و رسالوں میں‌چھ مہینوں میں استعمال ہوئے تھے۔ گو کہ ہمارے ایک عام طالبعلم کا ذخیرہء‌ الفاظ یقیناَ 1800 الفاظ سے زیادہ ہے لیکن جب ہم اس کا مقابلہ فیروز اللغات سے کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اردو کی اس ڈکشنری میں 60 ہزار سے زیادہ الفاظ ہیں ۔ لیکن ان میں‌سے بیشتر کے معانی ہمارے 12 جماعت پڑھے اشخاص‌کو نہیں آتے ہیں۔ آپ ذرا گوگل پر total words in merriam webster dictionary
ڈھونڈھ کر دیکھئے۔ آپ دیکھیں گے کہ 165 ہزار الفاظ، اور 225 ہزار تعریفات پر مبنی یہ ڈکشنری ہماری کسی بھی ڈکشنری کا منہہ چڑاتی ہے۔ اس میں دس ہزار الفاظ کا اضافہ ہر ایڈیشن پر ہوتا ہے۔

الفاظ ہی وہ بنیاد ہیں جو خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ ذرا چینی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ بنا الفاظ ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔

کیا اس سے آپ بھی وہی مطلب سمجھتے ہیں جو میں اور خلیل 1988 میں‌سمجھے تھے؟ کہ ابھی ہماری قوم ایک 1800 الفاظ کے گرد گھومنے والا طفل مکتب ہے؟ اس کو سوچنے کے لئے ابھی مزید الفاظ کی ضرورت ہے؟ اگر ہاں - تو بھائی اس کا علاج کیا ہے؟
 
بھائی جی اس موضوع سے ہٹ کر میں صرف لسانیات کے نکتہ نظر سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے یہ جو 1800 الفاظ کی بات کی ہے یہ بالکل سچ ہے۔ ایک عام اہل زبان کے لیے 1000 الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ انگریزی بولنے کے لیے آپ کو مریم ویبسٹر ڈکشنری حفظ کرنے کی ضرورت نہیں صرف 800 الفاظ‌ کے ساتھ آپ زندگی کی ہر سچوئیشن میں بہترین انداز میں انگریزی کے ذریعے اظہار کرسکتے ہیں۔
زبان کے الفاظ جو لغات میں بند ہیں اور وہ جو عام استعمال ہوتے ہیں ہر کسی کی اپنی اہمیت ہے۔ اخبارات و رسائل کی آپ نے بات کی یہ وہ ذرائع ہیں جو عام بول چال سے زیادہ متعلق ہوتے ہیں، انھیں عام آدمی نے پڑھنا ہے اور اور عام آدمی کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ چناچہ ان میں‌ 1800 بھی شاید زیادہ ہوجائیں۔
جہاں تک آپ کی یہ بات کہ الفاظ کی بنیاد پر خیالات ہوتے ہیں یہ بڑی لمبی بحث ہے کہ زبان سے خیالات جنم لیتے ہیں یا خیالات کے لیے زبان محض ایک لباس ہے۔۔ ادب اور عام روزمرہ کی زبان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک ادیب اپنی تخلیق کو لازوال بنانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیتا ہے۔ زبان و بیان کی خوبصورتی،انوکھا پن، نئے یا پرانے نایاب الفاظ کو استعمال کرکے یا انھیں نئے معانی دے کر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اخبارات و رسائل کی زبان اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ وہاں آپ اردو کے 1850 کے زمانے کے الفاظ استعمال کرنا شروع کردیں تو گئے کام سے۔
ایک آخری بات ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے کی صورت میں بھی اہل زبان کی ذخیرہ الفاظ کی حد متاثر ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں‌ انگریزی کے الفاظ اردو میں بولے جاتے ہیں۔ چونکہ صارف جانتا ہے کہ دوسرا بندہ اس کی بات "سمجھ" رہا ہے اس لیے وہ اس کی جگہ اردو کا نسبتًا کم مستعمل لفظ نہیں لگاتا۔ اگر آپ آج کی روز مرہ میں دیکھیں تو 1800 الفاظ کی جو فہرست آج بنے گی اس میں انگریزی کے الفاظ کم از کم ایک سو تو ضرور ہونگے۔
وسلام
دوست نے ان خیالات کا اظہار ایک دوسرے دھاگے میں کیا۔ بات اچھی ہے کہ کہی جانے والی بات جتنا ممکن ہو عام فہم ہو۔

یہ درست ہے کہ 1800 یا کم الفاظ سے اپنا مدعا بیان کیا جاسکتا ہے۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ ہم دنیا سے کٹ‌کر نہیں رہ رہے ہیں۔ آج ہم اردو بولنے والوں کا ہمارا مقابلہ بھارت، چین، جاپان ، یوروپی یونین اور امریکہ سے ہے۔ ہم بآسانی تھوڑے سے الفاظ سے اپنا کام چلا سکتے ہیں ۔ لیکن جلد ہی ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

امریکی اسکول سسٹم کی کوشش ہوتی ہے کہ 12 جماعت پڑھنے کے بعد طالب علموں کا ذخیرہ الفاظ 45000 الفاظ ہو ۔ جبکہ ہارورڈ کا گریجویٹ 65 سے 95 ہزار الفاظ تک جانتا ہے۔ ریسرچ کا یہ لنک دیکھئے۔

یہ کوشش کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ ریسرچ 1891 سے 1960 کے طالبعلموں‌ کے بارے میں ہے۔

آپ ہمارے طالب علم سے پوچھیں تو وہ یقیناً‌ کم سے کم کا انتخاب کرے گا۔ جہاں‌ یہ درست ہے اپنی بات آپ کم الفاظ‌ جان کر سمجھا سکتے ہیں ، وہاں‌ یہ بھی درست ہے کہ دوسرے کی بات سمجھنے کے لئے کثیر تعداد میں الفاظ کے معانی جاننا ضروری ہیں۔ ہمارا معیار کیا ہونا چاہئے، کہ کم از کم احمد فراز کی بات (شاعری) ، اقبال کی بات، غالب کی بات تو سمجھ آئے۔
کہ
فکر فردا نہ کروں ، محو غم دوش رہوں

کا ترجمہ ---- کیا میں بندوں (ا)فراد کی فکر نہ کروں اورصرف دوش(یزاؤں )‌ کی فکر میں ڈوبا رہوں ---- تو نہ سمجھا جائے۔

وجہ اس طالب علم نے یہ بیان کی کہ اقبال نے کچھ اور لکھا تھا لیکن عینک نہ ہونے کے باعث کاتب صاحب نے غلطی سے 'افراد ' کو فردا پڑھا اور دوشیزاؤں کو کاتب نے شرم کے مارے صرف اشاراتی طور پر "دوش"‌ لکھ دیا تھا۔ :)
 

خرم

محفلین
فاروق بھائی اردو غالباَ لغت کے لحاظ‌سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ ہاں اپنی زبان سے کیونکہ ہم بحیثیت قوم شرمندہ ہیں اور اپنے بچوں اور اردو کی بجائے انگریزی میں مشاق دیکھنا چاہتے ہیں‌اس لئے ہمارے معاشرہ میں سے اس کا علم کم ہوتا جا رہا ہے۔ فیروز اللغات تو بس ایک خلاصہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ مقتدرہ ایک اردو کی لغت تیار کر رہی ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے اور ذخیرہ الفاظ ایک لاکھ سے تو کافی تجاوز کر چکا ہے اب تک اور ابھی یہ مکمل نہیں ہوئی۔
 
خرم، بہت ہی شکریہ۔

زبان - اگر غور سے دیکھئے تو - بولی -- یا بولی جانے والی زبان کا نام ہے۔ کسی بھی زبان کے سائز کا اندازہ، صرف اور صرف اس کے بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔ زبان بولے جانے کے بعد ہی لکھی جاتی ہے۔

زبان یقیناً‌ مذہب و ملت کی قید سے آزاد ہے۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ہمارا مقام کیا ہے؟
http://news.mongabay.com/2005/0724-unesco.html

چائینیز 1051 ملین
انگریزی 600 ملین
ہندی 410 ملین -
اردو ، پنجابی الگ الگ دی گئی ہیں جو بنتی ہیں کوئی 100 اور 50 ملین

جبکہ انگریزی، امریکی اور آسٹرالین زبانوں کو بآسانی ایک شمار کیا گیا ہے :)
 

خرم

محفلین
ویسے تو ہندی بھی اردو ہی ہے کہ شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ اسی زبان میں عموماَ اظہار پاتے ہیں لیکن سیاسی وجوہات اسی ہندی کہنے پر مصر ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو معترضہ ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اردو بولنے والے نسبتاَ زیادہ نہیں ہیں لیکن اگر ذخیرہ الفاظ کی بات ہو تو اردو دنیا کی غالباَ دوسری بڑی زبان ہے۔ ویسے افراد کے لحاظ سے ہسپانوی دوسری بڑی زبان ہے۔ ویسے اس لنک میں کافی غلط معلومات ہیں۔ اردو صرف 10 کروڑ لوگ تو قطعاً نہیں بولتے کہ اس سے زیادہ تعداد تو پاکستانیوں کی یہ زبان سمجھتی ہے اور بولتی ہے (اگرچہ ثانوی زبان کی صورت میں ہی) اور ہندوستان کے کم از کم مسلمان جو قریباً اتنی ہی تعداد میں‌ہیں وہ بھی یہ زبان بولتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
اردو پر اور اس کے بولنے والوں پر بہت سی چیزیں اثر انداز ہورہی ہیں۔ اس میں انگریزی سرفہرست ہے۔ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اسی زبان میں‌ تعلیم دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پروفیشنل جب اپنی فیلڈ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو لاشعوری طور پر انگریزی کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے چونکہ اس کو یہی پڑھایا گیا ہوتا ہے۔اگر یہ سب اردو میں ترجمہ کرکے پڑھایا جائے تو شاید اردو پر زیادہ گرفت ہو اس کے بولنے والوں‌کی۔
اردو جن علاقوں میں بولی جاتی ہے وہاں کم از کم ایک "علاقائی" یا "مقامی" زبان پہلے سے موجود ہے۔ پاکستان کی صورت میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، ہندکو، سرائیکی یا شمالی علاقہ جات کی زبانیں اور ہندوستان کی صورت میں بھی یہی حال ہے۔ اکثر اردو بولنے والے ساتھ انگریزی اور مقامی زبان بھی جانتے ہیں۔ میں‌ پنجابی بولتا ہوں، اردو لکھتا ہوں اور انگریزی میں پڑھتا ہوں۔ اردو کے اہل زبان کثیر السانی ہیں۔ لسانیات کا اصول ہے کہ نیا لفظ اسی وقت "سیکھا" جاتا ہے جب اس کی ضرورت ہو۔ جب کمپیوٹر کام دے رہا ہے تو "شمارندہ" کیوں سیکھا جائے؟ اس لیے ہم ایک زبان کے زیادہ الفاظ نہیں‌ سیکھتے۔
میں آپ کی بات سے اختلاف کروں‌گا کہ ہمارے پاس "الفاظ" نہیں۔ ہمارے پاس الفاظ ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں جتنی تعداد میں انگریزی والوں کے پاس ہیں۔ بس ان کے پاس ایک ہی زبان کے الفاظ ہیں ہمارے پاس ایک سے زیادہ زبانوں کے الفاظ ہیں۔ انگریزی بولنے والوں کو یہ فائدہ ہے کہ انھیں ایک ہی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ ہمارا مسئلہ ہے کہ ہمیں‌ مادری، رابطے کی اور تعلیم کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ چناچہ ہر زبان میں گہرائی تک جانے کی صلاحیت خودبخود کم ہوجاتی ہے۔
میں اس کے فائدے نقصان کی بات نہیں کررہا۔ لیکن ہم زبان کے لحاظ سے دنیا کی کسی بھی قوم سے پیچھے نہیں ہیں۔ اردو میں اگر اپنا ذخیرہ الفاظ بڑھانا ہے تو چار پانچ کلاسک ناول پڑھ کر باآسانی بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پنجابی کا ادب پڑھا جائے تو بھی ذخیرہ الفاظ بڑھے گا۔ لیکن ہمارے ہاں اس رخ سے تعلیم نہیں دی جاتی۔ پروفیشنل تعلیم میں نا ہی اس بات پر توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت ہوتی ہے کہ طالب علم انجنئرنگ کے ساتھ ساتھ اردو کے کلاسک ناول یا شاعری کا مطالعہ بھی کرے۔ یہ کام ایم اے اردو یا ایم اے پنجابی والوں کا ہے جو وہ بخوبی کرتے ہیں۔
ایک آخری بات ذخیرہ الفاظ دو قسم کا ہوتا ہے۔ متحرک (Active) اور غیر متحرک یا مجہول (Passive)۔ متحرک وہ الفاظ ہیں جنھیں ہم سنتے ہیں، بولتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ یعنی "استعمال" کرتے ہیں اور ان کی تعداد 2000 یا اس سے بھی کم ہوتی ہے۔۔ مجہول یا غیر متحرک وہ الفاظ ہیں جنھیں ہم پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں اور "سمجھتے" لیکن "استعمال" نہیں کرتے نا ہی بولنے میں نا ہی لکھنے میں۔ چناچہ اردو کے اہل زبان سے اگر آپ الفاظ کی فہرست بنوانا چاہیں‌تو شاید دو ہزار الفاظ پر وہ جواب دے جائے کہ اس سے آگے میری زباندانی ختم ہے۔ لیکن جب اس کے سامنے کوئی کلاسک ناول رکھا جائے، جس میں ثقیل قسم کے نایاب الفاظ استعمال ہوئے ہوں تو اسے یاد آجائے گا کہ ارے ہاں یہ لفظ بھی پہلے پڑھا تھا اس کا مطلب تو یہ ہے۔ یہ غیر متحرک ذخیرہ الفاظ وہی ہے جس کو آپ 45000 سے ظاہر کررہے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک انگریزی طالبعلم "سمجھ" سکتا ہے۔ ہمارے طالب علم کو بھی ساتھ بٹھا لیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی انصاف کریں کہ وہ تین زبانیں جانتا ہے چناچہ تینوں زبانوں کے الفاظ کی گنجائش رکھیں۔ کیسے ممکن ہے کہ 45000 سے کم غیر متحرک ذخیرہ الفاظ نہ نکلے۔
 
سب سے پہلے انگریزی کے بارے میں یہ خیال بدلیں‌ کہ وہ بس ایک ہی زبان ہے۔ یہ تو ایک Glorious Mongrel' ہے ۔ جو کہ ہر زندہ زبان کے لئے درست ہے۔
The language that some Americans want to defend against foreign invasions is itself a multicultural smorgasbord of borrowed words

اس لفظ کے کیا معنی ہیں؟ ایک سے زیادہ زبان اور کلچر سے ادھار لئے ہوئے الفاظ۔ جس زبان میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ دوسری زبان سے لفظ لے کر اپنے مقصد میں ٍڈھال لے ایک زندہ زبان کہلاتی ہے۔

اردو یا یندی کسی دوسرے کی زبان نہیں، یہ ہم سب کی زبانوں‌ سے مل کر بنی ہے۔ خیر۔

آپ کا اختلاف مجھ قبول ہے اگر ہر 12 جماعت پاس شدہ علامہ اقبال کی کم از کم 3 کتب کا ہر لفظ بنا کسی کی مدد سے پڑھ سکے۔ ہمارے طالب علم کا مجموعی ذخیرہ الفاظ بہت کم ہوتا ہے۔ اور بنا زبان جانے لوگ صرف پیچھے ہی رہ سکتے ہیں۔
 
Top