اے نرم خو! یہ کیسا سمایا ہے جی میں شوق
ننھی سی اِن لوؤں میں یہ کانٹے بڑے بڑے
چھوٹے سے اِس دماغ میں اے شاعرانِ شہر
آتے کہاں سے ہیں یہ مضامیں بڑے بڑے
پرواز کر گئے قفسِ عنصری سے آہ
جیتے بھی تا کجا یونہی تن میں گڑے گڑے
باہر سے اُس نے صلح تو کر لی سماج سے
پھر عمر بھر جو خود سے مہا یدھ لڑے لڑے
اوّل بہار اُن کی خموشی سے چھا گئی
پھر گفتگو سے جو گلِ معنی جھڑے جھڑے
بہت خوب ۔ماشاءاللہ اچھے اشعار ہیں۔گو "ڑ" کا کثیر استعمال غزل کے لطیف مزاج کے خلاف ہے۔مگر آج کل چلتا ہے۔
پہلا مصرع غیر موزوں ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ یوں کہہ لیا جائے:
مالی! درخت کیوں نہیں تھکتے کھڑے کھڑے
بستر پہ ہم تو تھک گئے دن بھر پڑے پڑے
ویسے بیگم کو آپ کی غزل سنانے کی کوشش کی تو پہلے ہی شعر پہ ایسا ٹوکا کہ آگے سنانے کی ہمت نہ ہوئی ۔کہتی ہیں آپ تو نہیں تھکتے بستر میں پڑے پڑے۔
مرصع سازی والا مصرع تو بدل ہی دیں میرے نزدیک یہ بھی موزوں نہیں۔
چھوٹے سے اِس دماغ میں اے شاعرانِ شہر
آتے کہاں سے ہیں یہ مضامیں بڑے بڑے
یہ بھی خوب کہی یعنی سب کو کھانے کی دعوت دی اور کھا خود رہے ہیں ۔دوسروں کو بھی شریک کریں بھائی یوں کہ:
چھوٹے سے ان دماغوں میں اے شاعران شہر!
ویسے مزاح برطرف یہی مفہوم آپ کے مصرع سے بھی بر آمد ہو رہا ہے۔مگر ایک طرف تو " اے شاعران شعر" خاص جمع کا صیغہ رکھ کر پیچھے "اس دماغ" میں خاص واحد کے استعمال سے شاعرانہ تعلی بھی خوب جھلک رہی ہے۔
ہرچند ڈھیلا ڈھالا بہت ہو گیا مزاج
پر شعر اب بھی کہتا ہوں کیسے کڑے کڑے
بھئی اس عمر میں ڈھیلا پن اچھا نہیں۔آپ نے مثل نہیں سنی کیا "بھری جوانی میں مانجھا ڈھیلا"
آپ کے ترنم کی تو کیا ہی بات ہے۔ تحت اللفظ سے بازی مار گیا۔