فرخ منظور
لائبریرین
غزل
تھک گیا زندگی کی راہوں میں
جا کے رہتا ہوں بیٹھ قبروں میں
ہے یہ موت و حیات کا برزخ
ہم نہ زندوں میں اور نہ مُردوں میں
مرنے والا بھی مرثیہ خواب بھی
اڑ گئے سب کے سب ہواؤں میں
چاند سورج یہاں کے دیکھ لئے
یہ بھی ہیں ڈوبتے خداؤں میں
کششِ ثقل کھینچتی ہے کوئی
روح بولے شکستہ لہجوں میں
بیٹھ کر موت کے پروں پہ کوئی
ہوا معدوم کائناتوں میں
(رفیق اظہر)
تھک گیا زندگی کی راہوں میں
جا کے رہتا ہوں بیٹھ قبروں میں
ہے یہ موت و حیات کا برزخ
ہم نہ زندوں میں اور نہ مُردوں میں
مرنے والا بھی مرثیہ خواب بھی
اڑ گئے سب کے سب ہواؤں میں
چاند سورج یہاں کے دیکھ لئے
یہ بھی ہیں ڈوبتے خداؤں میں
کششِ ثقل کھینچتی ہے کوئی
روح بولے شکستہ لہجوں میں
بیٹھ کر موت کے پروں پہ کوئی
ہوا معدوم کائناتوں میں
(رفیق اظہر)