سید شہزاد ناصر
محفلین
تھیو کریسی ۔1
تھیو کریسی کی اصطلاح پہلے پہل یہودیوں نے پہلی صدی عیسوی میں وضع(coin )کی ،جب مملکت اسرائیل یا یہوداہ کی حکومت کے قیام کا معاملہ درپیش تھا ۔اس سے قبل جو نظام ہائے حکومت دنیا میں رائج تھے،ان میں جمہوریت(Democracy ), بادشاہت(monarchy ) اور اشرافیت(oligarchy) شامل تھے ۔یہودیوں کا یہ فیصلہ تھا کہ "مملکت اسرائیل " یا یہوداہ، اپنی ترکیب میں ان سارے نظاموں سے مختلف ہو گی ۔لہذا انہوں نے تھیو کریسی کو متعارف کرایا ۔جس کے معنی ہیں "خدا کی حکومت "۔یہ یونانی لفظ ہے ۔theo کے معنی خدا ۔۔۔اورcracy کے معنی ہیں "حاکمیت" ۔اس نظام کے مطابق خدا سپریم ہے۔اور اس کے احکامات جو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے آئے ۔مملکت کا قانون ہوں گے ۔تورات کے احکامات کو اصطلاحا بھی "قانون "ہی کہتے ہیں ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ تمدنی معاملات میں تورات کے احکامات کم تھے لہذا ان کے مذہبی پیشواؤں کو یہ حق دیا گیا کہ مختلف معاملات میں وہ خدا کی مرضی معلوم کر کے قانون سازی کریں ۔یہ مذہبی پیشوا جس طرح خدا کی مرضی معلوم کرتے وہ ایک دلچسپ طریقہ تھا، جس کے بیان سے پوسٹ غیر ضروری طوالت کا شکار ہو جائے گی ۔بہرحال اس ڈھکوسلے کے ذریعے مذہبی پیشوا جو چاہتا "خدا کی مرضی "کے طور پر متعارف کروا دیتا ۔اور سب کو اس کی اطاعت کرنی پڑتی ۔ یوں مذہبی پیشوا قوت کا مرکز بن گئے، یہ صورتحال بادشاہوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی ۔لہذا انہوں نے اپنی چال چلی، اور وہ یہ کہ بعض پیشواؤں کو اپنی طرف ملا کر ان کا یہ اختیار اپنی طرف منتقل کروا لیا ۔یعنی بادشاہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ فلاں پیشوا کو یہ الہام ہو گیا ہے کہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا اختیار اب بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے ۔جس کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گی کہ بادشاہ جو کہے وہ خدائی قانون ہے ۔پھر کچھ اور نظریات بھی گھڑ لئے گئے مثلا یہ کہ بادشاہ کی تخلیق جنت میں ہوتی ہے لہذا یہ جنتی مخلوق ہے، خدا اس کو بادشاہ بناتا ہے، وہ خدا سے اپنا اختیار لے کر دنیا میں آتا ہے لہذا وہ سب کے لئے واجب الاطاعت ہے، بالفرض اگر وہ ظلم بھی کر رہا ہے تو بھی تمام رعایا کو چاہئے کہ وہ اس ظلم اور جبر کو برداشت کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں کیونکہ وہ یہ سب اللہ کی مشئیت کے مطابق کر رہا ہے ۔
اس کے بعد یہ تھیوکریسی زیادہ ترقی یافتہ شکل میں عیسائیت میں نظر آتی ہے ۔چوتھی صدی عیسوی میں جب قسطنطین نے عیسائی مذہب قبول کر کے عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو سوال پیدا ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کیسے کی جائے کیونکہ اناجیل میں تو تمدنی مسائل بہت ہی کم ہیں۔لہذا تھیوکریسی ہی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ قانون سازی کا حق "کلیسا" کو حاصل ہے۔
"کلیسا " عیسائیت میں باقاعدہ ایک اصطلاح ہے ۔اس کا مطلب صرف عیسائیوں کی عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ اصطلاحا کلیسا(جس میں پوری کلرجی شامل ہے ) حضرت عیسی کے حواری پطرس (st.peter ) کا نائب ہے ۔برائے مہربانی اس جملے کو دوبارہ، سہ بارہ پڑھئیے:کہ کلیسا سینٹ پیٹر کا نائب ہے ۔ اور اس ادارے کو احکام اور قوانین وضع کرنے کا حق حاصل ہے ۔چونکہ کلیسا کا سربراہ پوپ ہوتا ہے باقی کلرجی اس کے نیچے اور ماتحت ہوتی ہے لہذا یوں قانون سازی کا حق پوپ کو حاصل ہو گیا ۔
عیسائیت میں یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پوپ معصوم اور مذہبی معاملات میں غلطیوں سے مبرا ہے ۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پوپ صرف "شارح قانون " نہیں ہوتا بلکہ" شارع " یعنی قانون ساز بھی ہوتا ہے ۔اس طرح پوپ یا کلیسا کو وہ زبردست قوت حاصل ہو گئی جو بادشاہ کو بھی حاصل نہیں تھی، اس کے نتیجے میں کلیسا اور حکومت(state &church ) کی وہ کشمکش شروع ہوئ جو قرون وسطی کی یورپی تاریخ کا حصہ ہے،۔
Nigar Sajjad Zaheer
تھیو کریسی کی اصطلاح پہلے پہل یہودیوں نے پہلی صدی عیسوی میں وضع(coin )کی ،جب مملکت اسرائیل یا یہوداہ کی حکومت کے قیام کا معاملہ درپیش تھا ۔اس سے قبل جو نظام ہائے حکومت دنیا میں رائج تھے،ان میں جمہوریت(Democracy ), بادشاہت(monarchy ) اور اشرافیت(oligarchy) شامل تھے ۔یہودیوں کا یہ فیصلہ تھا کہ "مملکت اسرائیل " یا یہوداہ، اپنی ترکیب میں ان سارے نظاموں سے مختلف ہو گی ۔لہذا انہوں نے تھیو کریسی کو متعارف کرایا ۔جس کے معنی ہیں "خدا کی حکومت "۔یہ یونانی لفظ ہے ۔theo کے معنی خدا ۔۔۔اورcracy کے معنی ہیں "حاکمیت" ۔اس نظام کے مطابق خدا سپریم ہے۔اور اس کے احکامات جو حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے آئے ۔مملکت کا قانون ہوں گے ۔تورات کے احکامات کو اصطلاحا بھی "قانون "ہی کہتے ہیں ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ تمدنی معاملات میں تورات کے احکامات کم تھے لہذا ان کے مذہبی پیشواؤں کو یہ حق دیا گیا کہ مختلف معاملات میں وہ خدا کی مرضی معلوم کر کے قانون سازی کریں ۔یہ مذہبی پیشوا جس طرح خدا کی مرضی معلوم کرتے وہ ایک دلچسپ طریقہ تھا، جس کے بیان سے پوسٹ غیر ضروری طوالت کا شکار ہو جائے گی ۔بہرحال اس ڈھکوسلے کے ذریعے مذہبی پیشوا جو چاہتا "خدا کی مرضی "کے طور پر متعارف کروا دیتا ۔اور سب کو اس کی اطاعت کرنی پڑتی ۔ یوں مذہبی پیشوا قوت کا مرکز بن گئے، یہ صورتحال بادشاہوں کے لئے قابل قبول نہیں تھی ۔لہذا انہوں نے اپنی چال چلی، اور وہ یہ کہ بعض پیشواؤں کو اپنی طرف ملا کر ان کا یہ اختیار اپنی طرف منتقل کروا لیا ۔یعنی بادشاہ کی طرف سے یہ دعوی کیا گیا کہ فلاں پیشوا کو یہ الہام ہو گیا ہے کہ خدا کی مرضی معلوم کرنے کا اختیار اب بادشاہ کے حوالے کر دیا جائے ۔جس کے نتیجے میں یہ بات طے ہو گی کہ بادشاہ جو کہے وہ خدائی قانون ہے ۔پھر کچھ اور نظریات بھی گھڑ لئے گئے مثلا یہ کہ بادشاہ کی تخلیق جنت میں ہوتی ہے لہذا یہ جنتی مخلوق ہے، خدا اس کو بادشاہ بناتا ہے، وہ خدا سے اپنا اختیار لے کر دنیا میں آتا ہے لہذا وہ سب کے لئے واجب الاطاعت ہے، بالفرض اگر وہ ظلم بھی کر رہا ہے تو بھی تمام رعایا کو چاہئے کہ وہ اس ظلم اور جبر کو برداشت کریں اور اس کے خلاف بغاوت نہ کریں کیونکہ وہ یہ سب اللہ کی مشئیت کے مطابق کر رہا ہے ۔
اس کے بعد یہ تھیوکریسی زیادہ ترقی یافتہ شکل میں عیسائیت میں نظر آتی ہے ۔چوتھی صدی عیسوی میں جب قسطنطین نے عیسائی مذہب قبول کر کے عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا تو سوال پیدا ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کیسے کی جائے کیونکہ اناجیل میں تو تمدنی مسائل بہت ہی کم ہیں۔لہذا تھیوکریسی ہی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا گیا کہ قانون سازی کا حق "کلیسا" کو حاصل ہے۔
"کلیسا " عیسائیت میں باقاعدہ ایک اصطلاح ہے ۔اس کا مطلب صرف عیسائیوں کی عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ اصطلاحا کلیسا(جس میں پوری کلرجی شامل ہے ) حضرت عیسی کے حواری پطرس (st.peter ) کا نائب ہے ۔برائے مہربانی اس جملے کو دوبارہ، سہ بارہ پڑھئیے:کہ کلیسا سینٹ پیٹر کا نائب ہے ۔ اور اس ادارے کو احکام اور قوانین وضع کرنے کا حق حاصل ہے ۔چونکہ کلیسا کا سربراہ پوپ ہوتا ہے باقی کلرجی اس کے نیچے اور ماتحت ہوتی ہے لہذا یوں قانون سازی کا حق پوپ کو حاصل ہو گیا ۔
عیسائیت میں یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پوپ معصوم اور مذہبی معاملات میں غلطیوں سے مبرا ہے ۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پوپ صرف "شارح قانون " نہیں ہوتا بلکہ" شارع " یعنی قانون ساز بھی ہوتا ہے ۔اس طرح پوپ یا کلیسا کو وہ زبردست قوت حاصل ہو گئی جو بادشاہ کو بھی حاصل نہیں تھی، اس کے نتیجے میں کلیسا اور حکومت(state &church ) کی وہ کشمکش شروع ہوئ جو قرون وسطی کی یورپی تاریخ کا حصہ ہے،۔
Nigar Sajjad Zaheer