حسان خان
لائبریرین
تھی ہم کلام شجر سے دعا کے لہجے میں
عجیب کرب تھا بادِ صبا کے لہجے میں
وہ شامِ ہجر وہ دھڑکن دلِ شکستہ کی
چراغ کرتا تھا باتیں ہوا کے لہجے میں
مری انا کا سفینہ ڈبو کے ساحل پر
بلا کا طنز تھا سیلِ بلا کے لہجے میں
وہ میری پرسشِ احوال کو تو آئے مگر
جوازِ ترکِ تعلق چھپا کے لہجے میں
وہ کم سخن تھا دمِ گفتگو بکھیر گیا
ہزار رنگ دھنک کے سجا کے لہجے میں
نظامِ عدل کی باتوں میں تب اثر ہو گا
کوئی تو بات کرے کربلا کے لہجے میں
قیامِ امن ہے ریحان ایک روز کی بات
کلام کوئی کرے گُل کھلا کے لہجے میں
(ریحان اعظمی)