تہذیبی نرگسیت

رضوان

محفلین
مبارک حیدر کو مبارک ہو
سیلِ رواں کی مخالف سمت تیرنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
جب زمانے بھر میں ایک نظریہ ایمان کا درجہ اختیار کر جائے تو کم لوگ ہی اس کی خامیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ جب دانشوروں کے پاس اپنی قوم کو دینے کے لیے کوئی امید کی کرن نا ہو تو وہ بھی مایوس لوگوں کے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے سرابوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن سچا انقلابی اپنے آدرش سستی شہرت کے عوض بیچا نہیں کرتا اور نہ ہی جزباتیت کے شکار معاشرے کی ہاں میں ہاں ملا کر تمغہ امتیاز کا تمنائی ہوتا ہے۔ اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ بصیرت و بصارت کو عام کرے سطحی سوچ کے بجائے حالات و اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اگر زمانے کے سردو گرم جھیل طکا ہو تو یہ سہ آتشہ والی بات ہوگئی۔
مبارک حیدر بھی کچھ اسی قسم کے انقلابی ہیں اور انکی کتاب “ تہذیبی نرگسیت “ پر بی بی سی کے عارف وقار نے تبصرہ بھی عارفانہ ہی کیا ہے۔
اقتباسات کچھ یوں ہیں
‘ مبارک حیدر نے وقت کے اہم ترین مسئلے ۔۔۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان ۔۔۔ کی طرف خاص توجہ دی اور اس خطرناک سوچ کی طرف اہلِ وطن کی توجہ مبذول کرائی کہ شمالی علاقوں میں چلنے والی تحریک سے چونکہ بین الاقوامی سامراج یعنی امریکہ پر زد پڑ رہی ہے، اس لئے انقلابی اور عوام دوست قوتوں کو فوراً بنیاد پرست مذہبی عناصر کی حمایت میں باہر نکل آنا چاہیے۔
مبارک حیدر کے خیال میں اسطرح کی سوچ ہماری پوری قوم کی تہذیبی نرگسیت کا شاخسانہ ہے، اسی عنوان سے شائع ہونے والی اپنی حالیہ کتاب میں مبارک حیدر اس اصطلاح کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قدیم یونان کی دیومالا میں نارسس نام کا ایک خوبصورت ہیرو ہے جو اپنی تعریف سنتے سنتے اتنا خود پسند ہو گیا کہ ہر وقت اپنے آپ میں مست رہنے لگا اور ایک روز پانی میں اپنا عکس دیکھتے دیکھتے خود پر عاشق ہوگیا۔ وہ رات دِن اپنا عکس پانی میں دیکھتا رہتا۔ پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود بھی وہ پانی کو ہاتھ نہ لگاتا کہ پانی کی سطح میں ارتعاش سے کہیں اسکا عکس بکھر نہ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے عکس میں گُم بھوکا پیاسا ایک روز جان سے گزر گیا۔۔۔ اور دیوتاؤں نے اسے نرگس کے پھول میں تبدیل کردیا جو آج تک پانی میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔“

“ مبارک حیدر نے اس اصطلاح کو ذاتی سطح سے اُٹھا کر اجتماعی سطح پر استعمال کیا ہے اور ہمیں باور کرایا ہے کہ کسی فرد کی طرح کبھی کبھی کوئی پوری قوم اور پوری تہذیب بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتی ہے اور اسی اجتماعی کیفیت کو وہ تہذیبی نرگسیت کا نام دیتے ہیں۔ مبارک حیدر اپنی کتاب کی ابتداء ہی میں قارئین کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں تشدّد کی موجودہ لہر کے خلاف کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اور مسلم اُمّہ بالعموم اس تباہ کاری پر خاموش کیوں ہے؟ مبارک حیدر کا جواب یقیناً یہی ہے کہ اس وقت ہم سب قومی سطح پر ایک تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں۔ مصنف کی زیرِ نظر کتاب دراصل اسی اجمال کی تفصیل ہے اور اسی کلیدی اصطلاح کے مضمرات کا احاطہ کرتی ہے۔“

“’تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پہ ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جِسے اکسانے کےلئے ایک چھوٹا سا عیّار اور منظم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سر گرمِ عمل ہے۔۔۔ یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘
“ ’تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہوجائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوعِ انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی
 

شمشاد

لائبریرین
یعنی کہ آپ نے بھی بی بی سی اردو سے پورے کا پورا مراسلہ نقل کر کے یہاں چسپاں کر دیا۔ ارے بھائی شروع کی چند سطریں اور ربط کافی تھا کہ کاپی رائیٹ کے شکنجے میں نہ آئیں۔
 

سید رافع

محفلین
مبارک حیدر کو مبارک ہو
سیلِ رواں کی مخالف سمت تیرنے کا حوصلہ کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔
جب زمانے بھر میں ایک نظریہ ایمان کا درجہ اختیار کر جائے تو کم لوگ ہی اس کی خامیوں پر قلم اٹھاتے ہیں۔ جب دانشوروں کے پاس اپنی قوم کو دینے کے لیے کوئی امید کی کرن نا ہو تو وہ بھی مایوس لوگوں کے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے سرابوں کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن سچا انقلابی اپنے آدرش سستی شہرت کے عوض بیچا نہیں کرتا اور نہ ہی جزباتیت کے شکار معاشرے کی ہاں میں ہاں ملا کر تمغہ امتیاز کا تمنائی ہوتا ہے۔ اس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ بصیرت و بصارت کو عام کرے سطحی سوچ کے بجائے حالات و اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے اور اگر زمانے کے سردو گرم جھیل طکا ہو تو یہ سہ آتشہ والی بات ہوگئی۔
مبارک حیدر بھی کچھ اسی قسم کے انقلابی ہیں اور انکی کتاب “ تہذیبی نرگسیت “ پر بی بی سی کے عارف وقار نے تبصرہ بھی عارفانہ ہی کیا ہے۔
اقتباسات کچھ یوں ہیں
‘ مبارک حیدر نے وقت کے اہم ترین مسئلے ۔۔۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان ۔۔۔ کی طرف خاص توجہ دی اور اس خطرناک سوچ کی طرف اہلِ وطن کی توجہ مبذول کرائی کہ شمالی علاقوں میں چلنے والی تحریک سے چونکہ بین الاقوامی سامراج یعنی امریکہ پر زد پڑ رہی ہے، اس لئے انقلابی اور عوام دوست قوتوں کو فوراً بنیاد پرست مذہبی عناصر کی حمایت میں باہر نکل آنا چاہیے۔
مبارک حیدر کے خیال میں اسطرح کی سوچ ہماری پوری قوم کی تہذیبی نرگسیت کا شاخسانہ ہے، اسی عنوان سے شائع ہونے والی اپنی حالیہ کتاب میں مبارک حیدر اس اصطلاح کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قدیم یونان کی دیومالا میں نارسس نام کا ایک خوبصورت ہیرو ہے جو اپنی تعریف سنتے سنتے اتنا خود پسند ہو گیا کہ ہر وقت اپنے آپ میں مست رہنے لگا اور ایک روز پانی میں اپنا عکس دیکھتے دیکھتے خود پر عاشق ہوگیا۔ وہ رات دِن اپنا عکس پانی میں دیکھتا رہتا۔ پیاس سے نڈھال ہونے کے باوجود بھی وہ پانی کو ہاتھ نہ لگاتا کہ پانی کی سطح میں ارتعاش سے کہیں اسکا عکس بکھر نہ جائے۔ چنانچہ وہ اپنے عکس میں گُم بھوکا پیاسا ایک روز جان سے گزر گیا۔۔۔ اور دیوتاؤں نے اسے نرگس کے پھول میں تبدیل کردیا جو آج تک پانی میں اپنا عکس دیکھتا ہے۔“

“ مبارک حیدر نے اس اصطلاح کو ذاتی سطح سے اُٹھا کر اجتماعی سطح پر استعمال کیا ہے اور ہمیں باور کرایا ہے کہ کسی فرد کی طرح کبھی کبھی کوئی پوری قوم اور پوری تہذیب بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتی ہے اور اسی اجتماعی کیفیت کو وہ تہذیبی نرگسیت کا نام دیتے ہیں۔ مبارک حیدر اپنی کتاب کی ابتداء ہی میں قارئین کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ مسلم معاشروں میں تشدّد کی موجودہ لہر کے خلاف کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اور مسلم اُمّہ بالعموم اس تباہ کاری پر خاموش کیوں ہے؟ مبارک حیدر کا جواب یقیناً یہی ہے کہ اس وقت ہم سب قومی سطح پر ایک تہذیبی نرگسیت کا شکار ہیں۔ مصنف کی زیرِ نظر کتاب دراصل اسی اجمال کی تفصیل ہے اور اسی کلیدی اصطلاح کے مضمرات کا احاطہ کرتی ہے۔“

“’تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پہ ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جِسے اکسانے کےلئے ایک چھوٹا سا عیّار اور منظم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سر گرمِ عمل ہے۔۔۔ یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔‘
“ ’تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہوجائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوعِ انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی

اس کتاب پر 'علمی سرقے' کا الزام بھی ہے۔ ربط
 

سید رافع

محفلین
جو کتاب دور حاضر کےمسلمانوں کا ایکسپوز کرے اور پر طرح طرح کے الزامات لگانا ایک دفاعی حکمت عملی ہے۔

کمال تو جب تھاکہ ایک مصور کے برش سے نرگس کے پھول کی تصویر کشی کرتے۔ خیر بہت سے باتیں درست اور آئینہ بھی ہیں۔
 

سید رافع

محفلین
ارے بھائی یہ نرگسیت وہ والی نرگس نہیں ہے :)

مبارک صاحب نے نرگسیت کو منفی خود پسندی سے تعبیر کیا ہے۔ وہ نرگس کا پھول جسے یونانی دیوتاوں نے تالاب میں گرے خود پسند انسان سے بنا ڈالا۔

چونکہ میں مبارک صاحب کو منصف مزاج نہیں سمجھتا اس لیے میرا اشارہ نرگس کے پھول اور اسکی مثبت خوبصورتی کی جانب تھا۔

ساتھ ہی مصنف بھی مصور کی طرح ہی ہوتا ہے، تو اشارة کہہ دیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ مذید گہرائی میں جا کر موجودہ مسلمانوں کی ذہنیت کا مطالعہ کرتے تو کیا معلوم وہ ایک نرگس کا پھول نقش کرتے۔

مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا پورا ادراک ہے لیکن کمزوری کسی کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ سیاسی کمزوری کو علمی و روحانی کمزوری یا اخلاقی کمزوری پر محمول کرنا نادرست ہے۔ یہ خود اپنے آپ سے دشمنی ہے نہ کہ کسی اور سے۔

مبارک صاحب نے یہ کام کیا اور وہ نرگس کو نرگسی سمجھ گئے۔ یوں وہ اور انکی کتاب کے قاری مبالغے بلکہ مغالطے میں مصروف ہوگئے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مبارک صاحب نے نرگسیت کو منفی خود پسندی سے تعبیر کیا ہے۔ وہ نرگس کا پھول جسے یونانی دیوتاوں نے تالاب میں گرے خود پسند انسان سے بنا ڈالا۔

چونکہ میں مبارک صاحب کو منصف مزاج نہیں سمجھتا اس لیے میرا اشارہ نرگس کے پھول اور اسکی مثبت خوبصورتی کی جانب تھا۔

ساتھ ہی مصنف بھی مصور کی طرح ہی ہوتا ہے، تو اشارة کہہ دیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ مذید گہرائی میں جا کر موجودہ مسلمانوں کی ذہنیت کا مطالعہ کرتے تو کیا معلوم وہ ایک نرگس کا پھول نقش کرتے۔

مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا پورا ادراک ہے لیکن کمزوری کسی کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ سیاسی کمزوری کو علمی و روحانی کمزوری یا اخلاقی کمزوری پر محمول کرنا نادرست ہے۔ یہ خود اپنے آپ سے دشمنی ہے نہ کہ کسی اور سے۔

مبارک صاحب نے یہ کام کیا اور وہ نرگس کو نرگسی سمجھ گئے۔ یوں وہ اور انکی کتاب کے قاری مبالغے بلکہ مغالطے میں مصروف ہوگئے۔

میرا مشورہ ہے کہ آپ اب کتاب بھی پڑھ ہی ڈالیے۔ :)
 

سید رافع

محفلین
نرگسی تہذیب حقیقی


تہمید کے طور پر
یہ کتاب مبارک حیدر کی کتاب' نرگسی تہذیب ' میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کی ایک حقیر سی کوشش ہے۔ میں اپنے آپ کو ہرگز اس لائق نہیں سمجھتا لیکن بقول غالب آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔

علم زندگی ہے اور جہالت موت ہے ۔ یہ علم کیا ہے کہ جس کی انسان میں موجودگی دوسری تمام مخلوق کو آباد کرتی ہے اور عدم موجودگی انسانیت تک کوفنا کر دیتی ہے؟ شاید اس دور کےلوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہو کہ علم سوال نہیں صبر کا نام ہے۔سوال سے ذہن پروان چڑھتے ہیں جبکہ صبر سے دل پنپتے ہیں۔ دل کو پروان چڑھانے کے لیے جو سوال کیے جائیں وہ سوال نہیں صبر ہی کے زمرے میں آئیں گے۔جب سوال کرنے والے ذہن صبر کرنے والوں کے ساتھ صبر نہ کر سکے تو تکرار اور جدال وجود میں آتا ہے اور جب صبر کرنے والے ہی کم ہو جائیں تو دہشت گردی وجود میں آتی ہے۔ معلوم ہوا کہ صبر زندگی کی اصل اور اساس ہے۔

پچھلی چار دہائیوں کا تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں میں سے بعض نے خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے اولاًفلسطین میں اسرائیلی ریاست کو نشانہ بنایا۔ اسی دوران 1980 سے لے کر 2015 تک قریباً 5000 خودکش حملے پاکستان، افغانستان اور عراق میں ہوئے۔ ظاہر ہے اس بات کو کئی پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے۔

1- ایک پہلو سیاسی ہے کہ چونکہ فلسطینیوں، افغانیوں، عراقیوں اور پاکستانیوں نے اسرائیل ،امریکہ اور یورپ کو عالمی عدل و انصاف کے اصولوں کو روندتے دیکھا تو جواباً ان ممالک کو نشانہ بنایا۔
2- دوسرا پہلو یہ ہے کہ 1979 میں باقاعدہ ریاستی سرکردگی میں بھولے بھالے مسلمانوں کو شہادت کی موت پر اکسا کر ان ممالک کے خلاف استعمال کیا گیا اورپھر انہی مسلمانوں کو 2001 کے بعد چن چن کر قتل کیا گیا۔
3- تیسرا پہلو یہ ہے کہ آخرت کا خیال دامن گیر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے مغرب کی طرح ایجادات کے لیے دیوانا ہو جانا ممکن نہ تھا سو وہ سائنس کو محض معاش کمانے کا ایک ذریعہ ہی سمجھتے اور اسی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ صحیح یا غلط علماء کو میسر رہا۔
4- چوتھا پہلو یورپی اقوام کا 1932 اصل مسلم علماء کو حجاز سے بے دخل کرنا اور وہاں لڑتے بھڑتے خوارج اور انکے زیر اثر مسلمانوں کو داخل کرنا تھا۔
5- پانچواں پہلو سخت دل، بدحواس اور بے رحم سودی معیشت ہے۔ نہ صرف یہ معیشت بے رحم ہے بلکہ زانی، دھوکے باز اور سٹے باز بھی ہے۔

اگر صرف انہی پہلوں کو انصاف کی نظر سے دیکھاجائے تو غلطی دونوں جانب کی ہے۔ مسلمانوں کی غلطی یہ ہے کہ ان میں اس علم کو عام کرنے کی ضرورت تھی کہ امت محمدیہ ﷺ کے آخری حصے کی اصلاح اسی طور پر ہو گی کہ جس طور پر پہلے حصے کی ہوئی تھی۔ مسلمانوں میں امام مہدی ؑ ظاہر ہوں گے جو اس امت کی اصلاح فرمائیں گے اور اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ اس علم کو عام کرنے کا فائدہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں میں صبر آتا اور وہ حالات کی ناگواری دیکھ کرمولانا سید مودودی، سید قطب و دیگر کے دجل میں نہ آتے اور غلبہ اسلام کی تحریکوں کا وجود ہی نہ ہوتا۔ دوسری جانب یورپی اقوام جان بوجھ کر حرم پر خوارج کا قبضہ برقرار رکھنے میں معاون و مددگار بنی ہوئیں ہیں جس سے مسلمانوں میں علم اور صبر پھیلنے میں سخت دشواری ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ دونوں جانب کی اقوام اس علم کو عام کرنے کی خوب سعی کریں اور تمام رکاوٹیں دور کریں تاکہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
 

سید رافع

محفلین
عقائد کا انتشار
اللہ نے اسلام اس لیے ظاہر کیا کہ انسانوں کو پاکیزہ کرے تاکہ وہ اللہ کی دوستی کے قابل بنیں ورنہ عام رحم و کرم تو اس کو نہ ماننےوالے اورہر ہر مخلوق پر جاری و ساری ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ ہو یا قرآن کریم محض اسی لیے ظاہر ہوئے تاکہ انسانوں کو پاکیزہ کر کے اللہ کی دوستی کے قابل بنایا جائے۔

مسلمانوں کو صاف معلوم ہے کہ جو جتنا متقی ہو گا وہ اتنا ہی اللہ کے نزدیک عزت والا ہو گا اور وہی مسلمانوں کا امام ہوگا۔ تقوی دماغ سے طرح طرح کے وہم گڑھ کر اللہ سے ڈرنے کا نام نے بلکہ ایک لطیف علم کا نام ہے جو اللہ کی آیات پر صبر کرنے والوں کے ساتھ صبر کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ تقوی زبان و اعضاء کی لاغرحرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ ایک نڈر نور ہے جس سے ہر آن سلامتی بڑھتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے سب زیادہ قرب جناب علی وجہ اللہ کریم کی ذات کو تھا۔ آپ ہی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بچپن سے انکے ساتھ رہے۔ آپ ہی کو رسول اللہ ﷺ نے شہر علم کا دروازہ قرار دیا۔ آپ ہی رسول اللہ ﷺ کے دیے ہوئے علم کی وجہ سے اللہ کو سب سے زیادہ پہچانتے تھے۔ اسی لیے بعد از رسول اللہ ﷺ امام المتقین اور امام الناس ہوئے۔ اسکے برعکس عبد اللہ بن ابی منافق تھا جو کہ احد کی جنگ سے اپنے 300 ساتھیوں کو لے فرار ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مبارکہ اور ام المومنین پر تہمت تراشی کی۔ اسی کے ساتھ ذوالخویصرہ تمیمی خارجی تھا کہ جس نے امام العادلین جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کو بے انصاف کہا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے کئی دشمن تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جانشین رسول ﷺ کو منتخب کرنے میں اس قدر فساد ڈالا کہ ابھی رسول کریم ﷺ کی تدفین بھی نہ ہوئی تھی۔ اس موقعے پر فتنہ رفع کرنے کےلیے رسول ﷺ کے جانثار صحابہ نے جناب ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ بیعت کی۔ حالانکہ اصل منبع علم و پاکیزگی جناب علی کرم اللہ وجہ کی ذات تھی۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو جو بغیر کسی غلو کے جناب علی کرم اللہ وجہ کو اصل منبع علم بتاتا گیا وہ نہ ہی دجل کر پایا اور نہ ہی فتنہ میں مبتلا ہوا۔ نہ خود اسامہ بن لادن بن کر ہلاک ہوا اور نہ دوسروں کو مولانا سید مودودی یا سید قطب بن کر ہلاک کیا۔ نہ ہی دہشت گرد بنا اور نہ ہی معصوم لوگوں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
 

سید رافع

محفلین
پاکستان کی افغان پالیسی
پاکستان کے بھارت سے تعلقات سعودی عرب، امریکہ اور ایران جیسے نہیں ہیں اور اسکو سمجھنے کےلیےصرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اگر مسلمانوں اور ہندووں کے سیاسی معاملات طے ہو جاتے تو پاکستان ہی وجود میں نہ آتا۔ چاہے اسے ہندووں کی تنگ نظری کہیں، انگریزوں کی سازش کہیں یا مسلمانوں کا خوف، پاکستان اور ہندوستان دو ملکوں کی صورت میں وجود میں آگئے۔ افغانستان سے پاکستان کی ایک طویل سرحد ہے اور ظاہر ہے کہ وہاں پاکستان دوست حکومت پاکستان کی سلامتی سے نزدیک تر بات ہے۔ بلوچستان میں افغانستان میں موجود ہندوستانی سفارتخانوں کی دراندازی کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا 2020 کی بھارتی قیادت مسلمانوں کے نقطہ نظر کو اسی طرح ٹھکرا دے گی جیسے کہ محمد علی جناح صاحب کے 1927 کے دہلی مسلم پروپوزل یا اسی نوعیت کی سیاسی کوششوں کو ٹھکرا دیا گیا؟ اس بات کا جواب نہ ملنے تک دو قومی نظریہ پاکستان کی عسکری حکمت عملی کا جواز بنا رہے گا۔ پاکستان میں عسکریت کے وجود کی ایک بڑی وجہ ایسے فورمز کی کمی ہے جہاں ان دونوں ممالک کی عوام بات چیت کے لیے جمع ہوں۔ ایک ایک سوال، ایک ایک دکھ، ایک ایک کرب پر وقت لگا کر انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ وہ وقت پھر دور نہیں کہ ان دونوں ممالک کے لوگوں کے دلوں سے محبت کے دھارے رواں نہ ہو جائیں اور کچھ عجب نہیں کہ ہزار سال پیار و محبت سے ساتھ رہنے والی اقوام پھر سے علم کے شجر تلے جمع ہو جائیں۔

جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو انکی قوت سے بڑھ کر اس دنیا میں قوتیں موجود ہیں اور انکے علم سے بڑھ کر پاکیزہ علوم رکھنے والے اس دنیا میں موجود ہیں۔ جب تک یوں ہے ایسا ہونا محال ہے کہ افغانستان اور پاکستان مل کر ایک غلبہ اسلام کرنے والی ایک ریاست بن جائے جو پہلے بھارت اور پھر چین سے مقابلہ کر ے اور پھر پوری دنیا پر اپنے غلبے کو تکمیل تک پہنچا دے۔

اصل مسئلہ سودی معیشت ہے کہ جس نے ایک تو انسانوں کو ان کی کمائی سے زیادہ آسایشیں مہیا کر دیں ہیں تو دوسری طرف انسانوں کی آبادی اسباب کی غیر فطری فراوانی کی وجہ سے ایک ارب سے سات ارب تک پہنچا دی ہے۔ ہر دس بارہ سال بعد یہ معیشت کساد بازاری کی وجہ سے جان بلب ہو جاتی ہے۔ سچ ہے کہ سود مٹتا ہے لیکن یورپی اقوام اس کو جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس بار خطرہ کسی ایٹم بم یا غلبہ اسلام کی تحریک کا نہیں بلکہ پانی اور غذا کے نہ ملنے سے رفتہ رفتہ آبادی کے مرنے کا ہے۔ ایسے میں ان مسلم اور یورپی لیڈرز کی ضرورت ہے جو انسانوں کو انسانوں سے علم کے ذریعے جوڑ دیں۔ ایجاد کے بجائے انصاف کو انسانوں کا اصل مسئلہ بتائیں۔ جب ایجادات میں کمی ہو گی تو سود پر قائم تجارت کے بجائے رواداری اور انصاف کی معیشت پروان چڑھے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ آپ کو گیارہ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اس لڑی کا خیال کیسے آیا؟
میں نے کچھ روز قبل ذکر کیا تھا کہ میں یہ کتاب پڑھ رہا ہوں۔ بس تب ہی سے ان کو برا لگا ہے اور حیلے بہانوں سے کتاب کو بدنام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
مبارک حیدر کی شہرہ آفاق ’’تہذیبی نرگسیت‘‘ پڑھ رہا ہوں
image.png
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
میں نے کچھ روز قبل ذکر کیا تھا کہ میں یہ کتاب پڑھ رہا ہوں۔ بس تب ہی سے ان کو برا لگا ہے اور حیلے بہانوں سے کتاب کو بدنام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

کتاب یکطرفہ تھی، ڈر و خوف سے لبریز تھی۔ اس کا حقیقی :) ورژن دو طرفہ ہے اور حل کے ساتھ ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اصل مقصد کیا ہے؟
پاکستان اور بھارت کے پالیسی سازوں کا اصل مقصد ملکہ برطانیہ کی فرمان برداری تھا اور ہے۔ دو قومی نظریہ انگریز کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی شیطانی سوچ سے وجود میں آیا۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں میں غلبہ اسلام کی تحریکوں میں جان اس وقت پڑی جب سے ہندوستان وحرم میں انگریز اور اسکے حمایت یافتہ خوارج کی آمد ہوئی؟ کیا وجہ ہے کہ آج تک امریکہ و یورپ کی حمایت آل سعود کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف وہ انہی کے زیر اثر چلنے والی غلبہ اسلام کی نام نہاد تحریکوں سے مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن اور اپنی عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں؟ یہی نیٹو و امریکہ کی افواج کبھی طالبان، کبھی اسلامک اسٹیٹ سے نبرد آزما دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب کے چندےکو باآسانی ساری دنیا میں ان تنظیموں کے خام مال تیار کرنے والے مدارس تک پہنچاتی دکھائی دیتی ہیں؟ یہ صورتحال الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی ہے۔

مثال کے طور پراگر کوئی شخص یہ مان لے کہ میں ڈاکٹر ہوں تو ظاہر ہے وہ لوگوں کا علاج کرنا شروع کر دے گا۔ کچھ لوگ اپنے مضبوط اعصاب کی وجہ سے صحت مند ہو جائیں گے لیکن اکثریت موت کے منہ میں جائے گی۔ جلد یا بدیر ایسا جعلی ڈاکٹر حکومت کی گرفت میں آئے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ اس وقت ہو گا جب کوئی فردیا جماعت اس کام کو اپنے ذمے لے لیں کہ جو کام نبی یا آل نبی ﷺ کے کرنے کا ہے۔ وہ اپنے آپ کو نبی ﷺ جیسا سمجھیں گے اور یہیں سے مغالطہ لگے گا کہ جو نبی ﷺکر سکتے ہیں وہ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ جماعتیں بنائی جائیں گی لوگوں کو منظم کیا جائے گا اور پھر جو جو نہ کیا جائے وہ کم ہو گا۔

اب بھی دیر نہیں ہو ئی۔ یورپی ممالک میں بسے والے سیکولر مسلمان اور لبرل یورپی اگر چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں اسلامی غلبے کی تحریکوں کے نام پر ان سے فراڈ نہ کریں تو وہ اس بات پر زور دیں کہ حرم پر ایسے مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جو امام مہدی ؑکے ظہور تک دہشت گردی کے بجائے صبر اور حصول علم اور فروغ علم کو ترجیح دیں۔
 
Top