تہذیب و ثقافت اور جدید ٹیکنالوجی / جدید ٹیکنالوجی کے ذہنوں پر اثرات

مغرب زدہ نظامِ تعلیم کے پروردہ اور ابتدائی تعلیم سے ہی مرعوبیت کی لوریاں سن کر جوان ہونے والے افراد اپنے سیکولر استاذوں کی خودساختہ منطق سے بنائے گئے تصورت میں سے ایک تصور عام طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک سے ٹیکنالوجی آتی ہے، اس کے ساتھ اس ملک کا کلچر بھی آتا ہے۔ جس معاشرے کی ٹیکنالوجی پر برتری ہوگی، اسی کی بالادستی قائم ہوگی۔ ان لوگوں کے نزدیک کلچر اور ثقافت دراصل گاڑیاں، ایرکنڈیشنز، برقی سازو سامان، صوفے اور کرسیاں یا دیگر استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں اور اسی کو وہ مکمل کلچر تصور کرلیتے ہیں۔
کلچر کی تمام تعریفوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ ایک Complex Whole ہے یعنی ایک قوم یا معاشرے کی ثقافت میں اس کی زبان، رہن سہن، کھانا پینا، اخلاقیات، مذہبی رسومات، پہناوا، شادی بیاہ، موت، رقص، موسیقی، جنگ و جدال، دوستی و دُشمنی غرض ہر وہ چیز شامل ہوتی ہے جس اس قوم کے لیے خاص ہوتی ہے۔ اسے آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں لائف اسٹال کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہی لائف اسٹائل ہے، جس کے تحفظ کے لیے پوری مغربی دنیا نائن الیون کے بعد عالمِ اسلام کے خلاف متحد ہوگئی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب جارج بش اور ٹونی بلیئر نے اپنی اپنی تقریروں میں ایک ہی نعرہ استعمال کیا تھا: ’’یہ لوگ ہمارا لائف اسٹائل ہم سے چھیننا چاہتے ہیں۔ لائف اسٹائل کے تحفظ ہی کی کوشش تھی کہ فرانس کی پارلیمنٹ کو صرف 92 حجاب پہننے والی عورتوں کے خلاف قانون سازی کرنا پڑی، اس لیے کوئی ملک اگر یہ کہتا ہے اس کا کوئی نظریہ نہیں تو وہ غلط بیانی کررہا ہوتا ہے۔ مغربی ممالک جس چڑیا کو اپنا لائف اسٹائل اور طرزِ زندگی کہتے ہیں، وہی ان کا نظریہ ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے جس ملک پر چاہیں چڑھ دوڑیں، قتل و غارت کریں، پورے پورے شہر کھنڈر بنادیں، اسے جائز قرار دیتے ہیں۔

quotation.PNG

دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دوسرے علاقے کے کلچر کو فروغ ملا اس کی صرف دو وجوہ تھیں۔ قدیم دور میں اس کا ہتھیار نظامِ تعلیم تھا اور آج اس کے دو ہتھیار ہیں: نظامِ تعلیم اور میڈیا۔

کیا ٹیکنالوجی کی برتری کسی معاشرے کے خوابوں، اُمنگوں، اُمیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہر مغرب زدہ شخص ہم سے پوچھتا ہے اور پھر خود ہی اس کا ’’ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے کہ اگر ہم مغرب کی ٹیکنالوجی استعمال کریں گے تو ہمیں ان کا کلچر بھی لینا ہوگا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے بارے میں جاپان کا ایک دعویٰ ہے اس ملک کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جس میں جاپان کی بنی ہوئی کوئی چیز موجود نہ ہو، خواہ وہ ایک چھوٹی سی آڈیو کیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ کاریں، ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر بلکہ بے شمار اشیا ہیں جو جاپان سے آتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا ملک جس کی مصنوعات ہم دھڑا دھڑ استعمال کرتے ہیں، چین ہے۔ چین نے تو ہماری اپنی مصنوعات کی کھپت ہی اس ملک میں ختم کرکے رکھ دی ہے۔ بجلی کے سوئچوں سے لے کر جوتوں اور فرنیچر سے لے کر ٹائلوں تک، کون سی چیز ہے جو چین سے درآمد نہیں ہوتی، ہم استعمال نہیں کرتے، لیکن کیا اس ملک کے کسی کونے میں چین یا جاپان کے کلچر کا کوئی محدود سا اَثر بھی نظر آتا ہے؟ کیا ہم نے جاپانیوں کی طرح وعدہ خلافی پر اپنی انگلیاں کاٹنا شروع کردی ہیں؟ یا دھوکہ کا الزام ثابت ہونے پر شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی شروع کی ہے؟ ہم ان کی طرح جھک کر آداب کرنے لگے ہیں؟ ہم گھر کے اندر زمین پر سوتے ہیں یا پھر کئی بارکورنش بجالاکر چائے پیتے ہیں؟ ہم تو جاپانی کھانوں میں سے کوئی کھانا بھی نہیں کھاتے جبکہ ہمارے کھانے جاپان کی بنائی ہوئی مصنوعات میں پکتے اور گرم ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ چین کا ہے۔ کیا سوائے چینی کھانوں کے جو انہوں نے دنیا بھر میں متعارف کرائے، چینی ثقافت کا کوئی اور پہلو ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے؟ کیا برقی مصنوعات یا دیگر نئی دریافتیں ہماری اقدار بدل دیتی ہیں؟ ہمارے شرم و حیا کے اصول تبدیل ہوجاتے ہیں؟ دنیا میں کتنے ایسے معاشرے ایسے ہیں جہاں ٹیکنالوجی سیلاب کی صورت آئی، لیکن تمام معاشرتی اقدار قائم رہیں۔ جاپان ہی کو دیکھ لیجیے جو اپنی اخلاقیات اور رہن سہن کے اعتبار سے آج بھی کئی سو سال پہلے کی معاشرتی حالت پر کھڑا ہے۔ وہاں بلٹ ٹرین چلتی ہے، اونچی اونچی عمارات بنی ہیں، لیکن ان جاپانیوں کے قصے کہانیاں بدلی ہیں اور نہ ہی رہنے کے اصول۔ ان کے خواب، ان کے ہیرو، ان کے معاشرتی اصول سب کے سب آج بھی وہی ہیں۔
کسی بھی ملک کا کلچر، ٹیکنالوجی کی ترقی سے نہیں بدلتا بلکہ اس نصاب تعلیم سے بدلتا ہے جو ہم بلاسوچے سمجھے اپنے اوپر لاگو کرلیتے ہیں۔ اس میڈیا سے بدلتا ہے جس پر ہم اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جس طرح چاہیں فحاشی، عریانی اور بے حیائی اور بے شرمی دکھائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ کوئی موبائل فون یا ٹیلی ویژن فحش نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے انسان ہوتے ہیں جو اسے پراگندہ کرتے ہیں۔ ہم نے کئی سالوں کی محنت سے بچوں کو وہ کارٹون دکھائے۔ کومکس پڑھائیں، گیت اور کہانیاں سنائیں جن میں وہ کلچر موجود تھا جو کسی بھی مغربی معاشرے میں مروّج تھا۔ شراب کشید کے تہوار سے لے کر فادرز ڈے اور مدرز ڈے تک سب کے سب ہماری محنت اور لگن سے ہی ہمارے لوگوں تک پہنچے۔ ان میں کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہوگا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کردے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دوسرے علاقے کے کلچر کو فروغ ملا اس کی صرف دو وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ وہاں کے حملہ آوروں نے اسے فتح کیا، وہاں متوں حکومت کی اور پھر فاتحین کے کلچر نے وہاں زبردستی اپنی جگہ بنائی۔ دوسرا کسی بھی معاشرے میں سے لوگوں کی دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت نے وہاں کے رہن سہن اور طور طریقوں حتیٰ کہ مذہب کو بھی بدل دیا۔ امریکا دریافت ہوا تو وہاں کے ریڈ انڈین کلچر کو کسی ٹیکنالوجی نے نہیں، قتل و غارت اور ظلم و ستم نے تباہ کیا تھا۔ جن ملکوں کو برطانیہ، اسپین، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال نے فتح کیا، وہاں زبردستی اپنا کلچر نافذ کیا۔ اس دور میں اس کا ہتھیار نظامِ تعلیم تھا اور آج اس کے دو ہتھیار ہیں: نظامِ تعلیم اور میڈیا۔ کلچر نہ فزکس پڑھانے سے بدلت ہے اور نہ کیمسٹری سے۔ کلچر دوسرے ملکوں کے کلچر کو غالب دکھانے اور اس کو قصے کہانیوں کے ذریعے ذہنوں پر نقش کرنے سے بدلتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جاپان، جس کی ترقی یافتہ تہذیب بھی ہے، ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول بھی رکھتا ہے اور پوری دنیا اس سے مستفید بھی ہوتی ہے، لیکن اس کا کلچر کسی دوسرے ملک میں پروان نہیں چڑھتا، مگر امریکا صرف جنگی سازو سامان ہی بھیجے تو لوگ اس کے کلچر کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

بشکریہ ضرب مومن
 

arifkarim

معطل
کسی بھی ملک کا کلچر، ٹیکنالوجی کی ترقی سے نہیں بدلتا بلکہ اس نصاب تعلیم سے بدلتا ہے
تو پھر عرب اسلامی ممالک میں آج اونٹوں کی سواری عام کیوں نہیں رہی؟ کیا عرب ممالک میں کار اور جہازوں کی سواری عرب نصاب تعلیم کا حصہ ہے؟ :D
 

زیک

مسافر
مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب کے کلچر کی خوب مثالیں دیں مگر مشرق وسطٰی میں عربی زبان اور عرب کلچر کیسے پھیلا اس کا کوئی ذکر نہیں۔
 

arifkarim

معطل
مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب کے کلچر کی خوب مثالیں دیں مگر مشرق وسطٰی میں عربی زبان اور عرب کلچر کیسے پھیلا اس کا کوئی ذکر نہیں۔
یہ دو مضامین پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں بین ہیں کیونکہ ان مضامین کا غیر جانبدارانہ مطالعہ انکی قومی بنیادیں گرانے کیلئے کافی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arabization
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamization
 

محمد سعد

محفلین
یہ دو مضامین پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں بین ہیں کیونکہ ان مضامین کا غیر جانبدارانہ مطالعہ انکی قومی بنیادیں گرانے کیلئے کافی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arabization
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamization
کھل تو رہے ہیں ہر جگہ۔ پتہ نہیں بین کس چیز کا نام رکھا ہوا ہے۔۔۔
 
مغرب زدہ نظامِ تعلیم کے پروردہ اور ابتدائی تعلیم سے ہی مرعوبیت کی لوریاں سن کر جوان ہونے والے افراد اپنے سیکولر استاذوں کی خودساختہ منطق سے بنائے گئے تصورت میں سے ایک تصور عام طور پر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جس ملک سے ٹیکنالوجی آتی ہے، اس کے ساتھ اس ملک کا کلچر بھی آتا ہے۔ جس معاشرے کی ٹیکنالوجی پر برتری ہوگی، اسی کی بالادستی قائم ہوگی۔ ان لوگوں کے نزدیک کلچر اور ثقافت دراصل گاڑیاں، ایرکنڈیشنز، برقی سازو سامان، صوفے اور کرسیاں یا دیگر استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں اور اسی کو وہ مکمل کلچر تصور کرلیتے ہیں۔
کلچر کی تمام تعریفوں میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ ایک Complex Whole ہے یعنی ایک قوم یا معاشرے کی ثقافت میں اس کی زبان، رہن سہن، کھانا پینا، اخلاقیات، مذہبی رسومات، پہناوا، شادی بیاہ، موت، رقص، موسیقی، جنگ و جدال، دوستی و دُشمنی غرض ہر وہ چیز شامل ہوتی ہے جس اس قوم کے لیے خاص ہوتی ہے۔ اسے آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں لائف اسٹال کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہی لائف اسٹائل ہے، جس کے تحفظ کے لیے پوری مغربی دنیا نائن الیون کے بعد عالمِ اسلام کے خلاف متحد ہوگئی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب جارج بش اور ٹونی بلیئر نے اپنی اپنی تقریروں میں ایک ہی نعرہ استعمال کیا تھا: ’’یہ لوگ ہمارا لائف اسٹائل ہم سے چھیننا چاہتے ہیں۔ لائف اسٹائل کے تحفظ ہی کی کوشش تھی کہ فرانس کی پارلیمنٹ کو صرف 92 حجاب پہننے والی عورتوں کے خلاف قانون سازی کرنا پڑی، اس لیے کوئی ملک اگر یہ کہتا ہے اس کا کوئی نظریہ نہیں تو وہ غلط بیانی کررہا ہوتا ہے۔ مغربی ممالک جس چڑیا کو اپنا لائف اسٹائل اور طرزِ زندگی کہتے ہیں، وہی ان کا نظریہ ہے اور وہ اس کے تحفظ کے لیے جس ملک پر چاہیں چڑھ دوڑیں، قتل و غارت کریں، پورے پورے شہر کھنڈر بنادیں، اسے جائز قرار دیتے ہیں۔

quotation.PNG

دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دوسرے علاقے کے کلچر کو فروغ ملا اس کی صرف دو وجوہ تھیں۔ قدیم دور میں اس کا ہتھیار نظامِ تعلیم تھا اور آج اس کے دو ہتھیار ہیں: نظامِ تعلیم اور میڈیا۔

کیا ٹیکنالوجی کی برتری کسی معاشرے کے خوابوں، اُمنگوں، اُمیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہر مغرب زدہ شخص ہم سے پوچھتا ہے اور پھر خود ہی اس کا ’’ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے کہ اگر ہم مغرب کی ٹیکنالوجی استعمال کریں گے تو ہمیں ان کا کلچر بھی لینا ہوگا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے بارے میں جاپان کا ایک دعویٰ ہے اس ملک کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جس میں جاپان کی بنی ہوئی کوئی چیز موجود نہ ہو، خواہ وہ ایک چھوٹی سی آڈیو کیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ کاریں، ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر بلکہ بے شمار اشیا ہیں جو جاپان سے آتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا ملک جس کی مصنوعات ہم دھڑا دھڑ استعمال کرتے ہیں، چین ہے۔ چین نے تو ہماری اپنی مصنوعات کی کھپت ہی اس ملک میں ختم کرکے رکھ دی ہے۔ بجلی کے سوئچوں سے لے کر جوتوں اور فرنیچر سے لے کر ٹائلوں تک، کون سی چیز ہے جو چین سے درآمد نہیں ہوتی، ہم استعمال نہیں کرتے، لیکن کیا اس ملک کے کسی کونے میں چین یا جاپان کے کلچر کا کوئی محدود سا اَثر بھی نظر آتا ہے؟ کیا ہم نے جاپانیوں کی طرح وعدہ خلافی پر اپنی انگلیاں کاٹنا شروع کردی ہیں؟ یا دھوکہ کا الزام ثابت ہونے پر شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی شروع کی ہے؟ ہم ان کی طرح جھک کر آداب کرنے لگے ہیں؟ ہم گھر کے اندر زمین پر سوتے ہیں یا پھر کئی بارکورنش بجالاکر چائے پیتے ہیں؟ ہم تو جاپانی کھانوں میں سے کوئی کھانا بھی نہیں کھاتے جبکہ ہمارے کھانے جاپان کی بنائی ہوئی مصنوعات میں پکتے اور گرم ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ چین کا ہے۔ کیا سوائے چینی کھانوں کے جو انہوں نے دنیا بھر میں متعارف کرائے، چینی ثقافت کا کوئی اور پہلو ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے؟ کیا برقی مصنوعات یا دیگر نئی دریافتیں ہماری اقدار بدل دیتی ہیں؟ ہمارے شرم و حیا کے اصول تبدیل ہوجاتے ہیں؟ دنیا میں کتنے ایسے معاشرے ایسے ہیں جہاں ٹیکنالوجی سیلاب کی صورت آئی، لیکن تمام معاشرتی اقدار قائم رہیں۔ جاپان ہی کو دیکھ لیجیے جو اپنی اخلاقیات اور رہن سہن کے اعتبار سے آج بھی کئی سو سال پہلے کی معاشرتی حالت پر کھڑا ہے۔ وہاں بلٹ ٹرین چلتی ہے، اونچی اونچی عمارات بنی ہیں، لیکن ان جاپانیوں کے قصے کہانیاں بدلی ہیں اور نہ ہی رہنے کے اصول۔ ان کے خواب، ان کے ہیرو، ان کے معاشرتی اصول سب کے سب آج بھی وہی ہیں۔
کسی بھی ملک کا کلچر، ٹیکنالوجی کی ترقی سے نہیں بدلتا بلکہ اس نصاب تعلیم سے بدلتا ہے جو ہم بلاسوچے سمجھے اپنے اوپر لاگو کرلیتے ہیں۔ اس میڈیا سے بدلتا ہے جس پر ہم اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جس طرح چاہیں فحاشی، عریانی اور بے حیائی اور بے شرمی دکھائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ کوئی موبائل فون یا ٹیلی ویژن فحش نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے انسان ہوتے ہیں جو اسے پراگندہ کرتے ہیں۔ ہم نے کئی سالوں کی محنت سے بچوں کو وہ کارٹون دکھائے۔ کومکس پڑھائیں، گیت اور کہانیاں سنائیں جن میں وہ کلچر موجود تھا جو کسی بھی مغربی معاشرے میں مروّج تھا۔ شراب کشید کے تہوار سے لے کر فادرز ڈے اور مدرز ڈے تک سب کے سب ہماری محنت اور لگن سے ہی ہمارے لوگوں تک پہنچے۔ ان میں کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہوگا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کردے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دوسرے علاقے کے کلچر کو فروغ ملا اس کی صرف دو وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ وہاں کے حملہ آوروں نے اسے فتح کیا، وہاں متوں حکومت کی اور پھر فاتحین کے کلچر نے وہاں زبردستی اپنی جگہ بنائی۔ دوسرا کسی بھی معاشرے میں سے لوگوں کی دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت نے وہاں کے رہن سہن اور طور طریقوں حتیٰ کہ مذہب کو بھی بدل دیا۔ امریکا دریافت ہوا تو وہاں کے ریڈ انڈین کلچر کو کسی ٹیکنالوجی نے نہیں، قتل و غارت اور ظلم و ستم نے تباہ کیا تھا۔ جن ملکوں کو برطانیہ، اسپین، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال نے فتح کیا، وہاں زبردستی اپنا کلچر نافذ کیا۔ اس دور میں اس کا ہتھیار نظامِ تعلیم تھا اور آج اس کے دو ہتھیار ہیں: نظامِ تعلیم اور میڈیا۔ کلچر نہ فزکس پڑھانے سے بدلت ہے اور نہ کیمسٹری سے۔ کلچر دوسرے ملکوں کے کلچر کو غالب دکھانے اور اس کو قصے کہانیوں کے ذریعے ذہنوں پر نقش کرنے سے بدلتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جاپان، جس کی ترقی یافتہ تہذیب بھی ہے، ٹیکنالوجی پر مکمل کنٹرول بھی رکھتا ہے اور پوری دنیا اس سے مستفید بھی ہوتی ہے، لیکن اس کا کلچر کسی دوسرے ملک میں پروان نہیں چڑھتا، مگر امریکا صرف جنگی سازو سامان ہی بھیجے تو لوگ اس کے کلچر کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

بشکریہ ضرب مومن
اس تحریر میں 3 نقاط ہیں
1- کلچرکیا ہے
یہ ایک Complex Whole ہے یعنی ایک قوم یا معاشرے کی ثقافت میں اس کی زبان، رہن سہن، کھانا پینا، اخلاقیات، مذہبی رسومات، پہناوا، شادی بیاہ، موت، رقص، موسیقی، جنگ و جدال، دوستی و دُشمنی غرض ہر وہ چیز شامل ہوتی ہے جس اس قوم کے لیے خاص ہوتی ہے۔ اسے آج کے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں لائف اسٹال کا نام دیا جاتا ہے
2- مضمون نگار کا مبینہ غلط تصور عام کی نفی کرنا ( ٹیکنالوجی کے ساتھ کلچر کا آنا لازمی ہے)
مبینہ غلط تصور
عامجس ملک سے ٹیکنالوجی آتی ہے، اس کے ساتھ اس ملک کا کلچر بھی آتا ہے۔ جس معاشرے کی ٹیکنالوجی پر برتری ہوگی، اسی کی بالادستی قائم ہوگی۔ ان لوگوں کے نزدیک کلچر اور ثقافت دراصل گاڑیاں، ایرکنڈیشنز، برقی سازو سامان، صوفے اور کرسیاں یا دیگر استعمال کی چیزیں ہوتی ہیں اور اسی کو وہ مکمل کلچر تصور کرلیتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی برتری کسی معاشرے کے خوابوں، اُمنگوں، اُمیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہوسکتی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو ہر مغرب زدہ شخص ہم سے پوچھتا ہے اور پھر خود ہی اس کا ’’ہاں‘‘ میں جواب دیتا ہے کہ اگر ہم مغرب کی ٹیکنالوجی استعمال کریں گے تو ہمیں ان کا کلچر بھی لینا ہوگا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے بارے میں جاپان کا ایک دعویٰ ہے اس ملک کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں جس میں جاپان کی بنی ہوئی کوئی چیز موجود نہ ہو، خواہ وہ ایک چھوٹی سی آڈیو کیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ کاریں، ٹیلی ویژن، ریفریجریٹر بلکہ بے شمار اشیا ہیں جو جاپان سے آتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا ملک جس کی مصنوعات ہم دھڑا دھڑ استعمال کرتے ہیں، چین ہے۔ چین نے تو ہماری اپنی مصنوعات کی کھپت ہی اس ملک میں ختم کرکے رکھ دی ہے۔ بجلی کے سوئچوں سے لے کر جوتوں اور فرنیچر سے لے کر ٹائلوں تک، کون سی چیز ہے جو چین سے درآمد نہیں ہوتی، ہم استعمال نہیں کرتے، لیکن کیا اس ملک کے کسی کونے میں چین یا جاپان کے کلچر کا کوئی محدود سا اَثر بھی نظر آتا ہے؟ کیا ہم نے جاپانیوں کی طرح وعدہ خلافی پر اپنی انگلیاں کاٹنا شروع کردی ہیں؟ یا دھوکہ کا الزام ثابت ہونے پر شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی شروع کی ہے؟ ہم ان کی طرح جھک کر آداب کرنے لگے ہیں؟ ہم گھر کے اندر زمین پر سوتے ہیں یا پھر کئی بارکورنش بجالاکر چائے پیتے ہیں؟ ہم تو جاپانی کھانوں میں سے کوئی کھانا بھی نہیں کھاتے جبکہ ہمارے کھانے جاپان کی بنائی ہوئی مصنوعات میں پکتے اور گرم ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ چین کا ہے۔ کیا سوائے چینی کھانوں کے جو انہوں نے دنیا بھر میں متعارف کرائے، چینی ثقافت کا کوئی اور پہلو ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے؟ کیا برقی مصنوعات یا دیگر نئی دریافتیں ہماری اقدار بدل دیتی ہیں؟ ہمارے شرم و حیا کے اصول تبدیل ہوجاتے ہیں؟ دنیا میں کتنے ایسے معاشرے ایسے ہیں جہاں ٹیکنالوجی سیلاب کی صورت آئی، لیکن تمام معاشرتی اقدار قائم رہیں ۔ جاپان ہی کو دیکھ لیجیے جو اپنی اخلاقیات اور رہن سہن کے اعتبار سے آج بھی کئی سو سال پہلے کی معاشرتی حالت پر کھڑا ہے۔ وہاں بلٹ ٹرین چلتی ہے، اونچی اونچی عمارات بنی ہیں، لیکن ان جاپانیوں کے قصے کہانیاں بدلی ہیں اور نہ ہی رہنے کے اصول۔ ان کے خواب، ان کے ہیرو، ان کے معاشرتی اصول سب کے سب آج بھی وہی ہیں۔
3-کلچر کا فروغ بذریعہ نظام تعلیم اور میڈیا
کسی بھی ملک کا کلچر، ٹیکنالوجی کی ترقی سے نہیں بدلتا بلکہ اس نصاب تعلیم سے بدلتا ہے جو ہم بلاسوچے سمجھے اپنے اوپر لاگو کرلیتے ہیں۔ اس میڈیا سے بدلتا ہے جس پر ہم اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جس طرح چاہیں فحاشی، عریانی اور بے حیائی اور بے شرمی دکھائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ کوئی موبائل فون یا ٹیلی ویژن فحش نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے بیٹھے انسان ہوتے ہیں جو اسے پراگندہ کرتے ہیں۔ ہم نے کئی سالوں کی محنت سے بچوں کو وہ کارٹون دکھائے۔ کومکس پڑھائیں، گیت اور کہانیاں سنائیں جن میں وہ کلچر موجود تھا جو کسی بھی مغربی معاشرے میں مروّج تھا۔ شراب کشید کے تہوار سے لے کر فادرز ڈے اور مدرز ڈے تک سب کے سب ہماری محنت اور لگن سے ہی ہمارے لوگوں تک پہنچے۔ ان میں کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہوگا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کردے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔

تو آج ہمیں مغربی نظام تعلیم ( اس مضمون کے تناظر میں نصاب) کی وجہ سے اسلامی تہذیب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو روکنا ہے
(ایلیٹ کلاس جو بااثر اور ممکنہ حکمران ہوتے ہیں، ان کے سکولوں میں مغربی اثرات سے پر نصاب عرصے سے موجود ہے)
دوسرا اور سب سے مشکل (بظاہر ناممکن) عمل ، میڈیا کے ذریعے ہونے والی غیر اسلامی تبدیلیوں کو روکنا ہے

اگر ہم ان دونوں کاموں میں ناکام ہو گئے تو پھر صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے (حال تو پہلے ہی بہت ابتر ہو چکا ہے)

اگر 15 ،20 سال پہلے اور آج کی صورتحال دیکھ لیں تو ہماری سیاسی ،معاشرتی،اخلاقی اقدار میں پہلے ہی بہت تغیر آ چکا ہے
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
تو آج ہمیں مغربی نظام تعلیم ( اس مضمون کے تناظر میں نصاب) کی وجہ سے اسلامی تہذیب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو روکنا ہے
(ایلیٹ کلاس جو بااثر اور ممکنہ حکمران ہوتے ہیں، ان کے سکولوں میں مغربی اثرات سے پر نصاب عرصے سے موجود ہے)
دوسرا اور سب سے مشکل (بظاہر ناممکن) عمل ، میڈیا کے ذریعے ہونے والی غیر اسلامی تبدیلیوں کو روکنا ہے

اگر ہم ان دونوں کاموں میں ناکام ہو گئے تو پھر صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے (حال تو پہلے ہی بہت ابتر ہو چکا ہے)

اگر 15 ،20 سال پہلے اور آج کی صورتحال دیکھ لیں تو ہماری سیاسی ،معاشرتی،اخلاقی اقدار میں پہلے ہی بہت تغیر آ چکا ہے

سب سے پہلے: کیا ہے یہ اسلامی "تہذیب"؟ وہاں کرنسی مغرب کی، معیشت مغرب کی، میڈیا مغرب کا، ٹیکنالوجی مغرب کی، سائنس مغرب کی، الغرض ہر نظام زندگی میں مغربی جدت پسندی اپنائی جا رہی ہے کیونکہ اسلامی دماغ نت نئی انسانی تخلیقات اور جدتوں کو حرام سمجھتے ہیں۔ اور بعد میں انہی کے تابع ہو جاتے ہیں۔
آجکل سنا ہے القائدہ میں اسلامی دہشتگردوں کی بھرتی میں کمی کے مسائل کے پیش نظر کافرانہ سوشل میڈیا کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ جس میں یہودی و صیہونی فیس بُک اور دیگر صلیبی نیٹورکس سر فہرست ہیں۔ یہاں مغرب میں مقیم مسلمانوں کو انہی کافرانہ اور دین اسلام سے خارج ٹیکنالوجیز کا استعمال کرکے جہاد کیلئے ورغلایا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
ٹیکنالوجی کا استعمال کسی معاشرے کے خوابوں، اُمنگوں، اُمیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟
کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہوگا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کردے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔

براہ کرم ، اس تحریر کو کسی اور زاویے سی دیکھیں، تھوڑا ہٹ کر ،
میں کوشش کروں گا کہ معاملے میں مزید معروضی انداز لا سکوں، تا کہ بہتر ابلاغ اور افہام و تفہیم ہو سکے -
شاید کل بات کر سکوں،کہ نماز کے اوقات ہیں سعودیہ میں۔
بس ان دو فقرات پر تھوڑا غور کر لیں یا پھر سارا مضون پڑھ لیں، زندگی رہی تو بات ہو گی ۔ انشاء اللہ
 

arifkarim

معطل
کھل تو رہے ہیں ہر جگہ۔ پتہ نہیں بین کس چیز کا نام رکھا ہوا ہے۔۔۔
کھل تو رہے ہیں لیکن ذرا ان مضامین پہ پاکستانی اسکولوں، کالجوں، یونی ورسٹیوں وغیرہ میں ایک بھی مقالہ لکھا ہوا دکھا دیں۔ ہم تاریخ کو ہمیشہ ایک خاص تعصب کی نظرسے دیکھتے ہیں۔ جیسے کفار اگر ہم پر ناحق حملہ کریں ، سقوط بغداد کر دیں ،تو برا ہے، جیسے منگولوں نے کیا۔ لیکن اگر ہم انہی کفار پر 17 جہادی حملے کریں ، انکے قدیم مندروں کو نیست و نابود کردیں،تو وہ جائزہے بلکہ اسلامی فریضہ ہے، جیسا کہ امیر المؤمنین محمود غزنوی نے کیا۔ یہ کس قسم کا غیر منصفانہ ، بے منطقی سا رویہ ہے؟
اور اسی تعصبی رویہ کی وجہ سے ہم ہر میدان زندگی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ حصول علم ہمارا مقصد نہیں ہوتا، اپنی نام نہاد برتری ثابت کرنا ہوتا ہے۔
نیا علم ہمیشہ غیر جانبداری اور آزادی بحث و مباحثہ کے بعد آتا ہے۔ اسلامی ممالک کو پتا ہی نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے:
Free speech is meant to protect unpopular speech. Popular speech, by definition, needs no protection.

Neal Boortz
http://www.brainyquote.com/quotes/quotes/n/nealboortz210988.html
 

arifkarim

معطل
ٹیکنالوجی کا استعمال کسی معاشرے کے خوابوں، اُمنگوں، اُمیدوں، اخلاقیات، گھریلو اقدار اور معاشرتی رویے پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟
کسی ٹیکنالوجی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ اگر ایسا ماحول نہ ہوگا تو ٹیلی ویژن چلنے سے انکار کردے گا یا مائیکرویو کھانا نہیں گرم کرے گا۔


کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کا حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال برا نہیں ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب محض تعصب کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجیز مکمل بین کر دی جاتی ہیں۔ جیسے یوٹیوب پر اگرکوئی اسلام مخالف فلم اپلوڈ ہو گئی ہے تو پوری یوٹیوب ہی بین، جیسا کہ پاکستان میں ہوا۔ یا اگر واٹس ایپ کا نیا مالک امریکی یہودی نکل آیا ہے تو پوری ایپ ہی بین کر دی جائے ، جیسا کہ حالیہ ایران میں ہوا۔ اس قسم کے بے منطقی بینوں سے ان عالمی نوعیت کی سوشل کمپنیوں پر تو کوئی اثر پڑنے نہیں والا۔ الٹا ہمارے اپنے "مومنین "ان ٹیکنالوجیز کے بہت سے مثبت اثرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کا حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال برا نہیں ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب محض تعصب کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجیز مکمل بین کر دی جاتی ہیں۔ جیسے یوٹیوب پر اگرکوئی اسلام مخالف فلم اپلوڈ ہو گئی ہے تو پوری یوٹیوب ہی بین، جیسا کہ پاکستان میں ہوا۔ یا اگر واٹس ایپ کا نیا مالک امریکی یہودی نکل آیا ہے تو پوری ایپ ہی بین کر دی جائے ، جیسا کہ حالیہ ایران میں ہوا۔ اس قسم کے بے منطقی بینوں سے ان عالمی نوعیت کی سوشل کمپنیوں پر تو کوئی اثر پڑنے نہیں والا۔ الٹا ہمارے اپنے "مومنین "ان ٹیکنالوجیز کے بہت سے مثبت اثرات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
حوالہ؟
 

فلک شیر

محفلین
یہ دو مضامین پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں بین ہیں کیونکہ ان مضامین کا غیر جانبدارانہ مطالعہ انکی قومی بنیادیں گرانے کیلئے کافی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Arabization
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamization
حضور ، آپ خاطر جمع رکھیں ..........دو مضامین سے بنیادیں نہیں گرتیں ............اس کے لیے کافی تردد کر چکے ہیں لوگ ......مایوس ہیں اور مایوس ہوں گے :)
ویسے آپ کے نزدیک قومی بنیاد کیا ہے، مختصراََ فرمائیے گا۔
 

arifkarim

معطل
ویسے آپ کے نزدیک قومی بنیاد کیا ہے، مختصراََ فرمائیے گا۔
حضرت، بقول حسن نثار: اس قوم کی بنیادوں کو ٹوٹے 43 سال ہو گئے ہیں۔ جی، وہی پاکستان جسکی اپنی ہی فوج نے اپنے ہی لوگوں پر چڑھائی کر کے آدھا ملک ڈبو دیا۔ اور باقی کی کثر اس ملک کے نام نہاد پیشہ ور لیڈران نے پوری کردی ہے۔
The theory has been facing scepticism because Muslims did not entirely separate from Hindus and about one-third of all Muslims continued to live in post-partition India as Indian citizens alongside a much larger Hindu majority. The subsequent partition of Pakistan itself into the present-day nations of Pakistan and Bangladesh was cited as proof both that Muslims did not constitute one nation and that religion was not a defining factor for nationhood
http://en.wikipedia.org/wiki/Two-nation_theory

اس صورت حال میں بھارتی مسلمان کیا کریں؟ قیامت تک جہاد؟
 

فلک شیر

محفلین
حضرت، بقول حسن نثار: اس قوم کی بنیادوں کو ٹوٹے 43 سال ہو گئے ہیں۔ جی، وہی پاکستان جسکی اپنی ہی فوج نے اپنے ہی لوگوں پر چڑھائی کر کے آدھا ملک ڈبو دیا۔ اور باقی کی کثر اس ملک کے نام نہاد پیشہ ور لیڈران نے پوری کردی ہے۔
The theory has been facing scepticism because Muslims did not entirely separate from Hindus and about one-third of all Muslims continued to live in post-partition India as Indian citizens alongside a much larger Hindu majority. The subsequent partition of Pakistan itself into the present-day nations of Pakistan and Bangladesh was cited as proof both that Muslims did not constitute one nation and that religion was not a defining factor for nationhood
http://en.wikipedia.org/wiki/Two-nation_theory

اس صورت حال میں بھارتی مسلمان کیا کریں؟ قیامت تک جہاد؟
یہ محترم جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے، ہمارے بالکل قریب بیلی پور نامی گاؤں میں قیام پذیر ہیں اور عموماً حواس میں نہیں پائے جاتے، میرے ایک کولیگ پولیس میں سب انسپکٹر تھے، ان کے گھر پہ موجود گارد کا حصہ تھے، جو انہوں نے دھونس سے تھانہ مانگا منڈی سے حاصل کی ہوئی تھی، وہ بتاتے ہیں کہ ترنگ میں آتے انگورزادی سے شغل کے بعد..........تو اپنی سگی ماں کو گالیاں بکا کرتے...........ایسے لوگوں کے تجزیے اور خود ساختہ "کالے اقوال" ہر گز کسی دلیل کا درجہ نہیں رکھتے:)
رہی بات قیامت تک جہاد کی ، تو ظلم و جبر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو گا ، تو مظلوم اور کچھ بھی نہ کر سکے، بددعا ضرور کرے گا.............اور وہ مظلوم مسلم بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم بھی ۔اگر بھارت کی حکومت کے رویے آپ کو نظر نہیں آتے ...............تو کیا کہا سکتا ہے، کچھ سال قبل شائع ہونے والی "سچر کمیشن رپورٹ ".........سرکاری ڈاکیومنٹ ہی پڑھ لیجیے۔
 

arifkarim

معطل
اگر بھارت کی حکومت کے رویے آپ کو نظر نہیں آتے ...............تو کیا کہا سکتا ہے، کچھ سال قبل شائع ہونے والی "سچر کمیشن رپورٹ ".........سرکاری ڈاکیومنٹ ہی پڑھ لیجیے۔
اگر آزاد بھارت میں مسلمانوں کے بہبود کو اتنا ہی خطرہ لاحق تھا تو پھر تمام مسلمانوں کو اعتماد میں لیکر آزادی پاکستان کی تحریک چلانی چاہئے تھی۔ تاکہ برطانوی راج کے انخلاء کے بعد ایک بھی مسلمان آزاد بھارت میں ہندوؤں کے مظالم سہنے کیلئے باقی نہ بچتا۔ جیسا کہ فلسطینی یہود نے اسرائیل کی پیدائش کے وقت ایک بھی یہود عرب علاقوں میں رہنے نہیں دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ 1947 میں ایک آزاد ہندوستان میں مسلم آبادی کا تین بڑے خطے میں بٹوارا ہوا؛ مغربی پاکستان، مشرقی پاکستان اور کشمیر۔ اور جو چند ایک آزاد مسلم ریاستیں برطانوی راج میں بچ گئی تھیں انکو آزاد بھارت نے بعد میں نگل لیا جیسے نظام حیدر آبا د کی ریاست۔ جب ایک مسلمان قوم کے اتنے سارے سیاسی بٹوارے ہو جائیں تو ہم اسکو ایک قوم تو نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ تماشا ضرور کہہ سکتے ہیں۔
 
Top