فرخ منظور

لائبریرین
تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ‌ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈتے ہیں آپ سے اُس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے‌کر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

جوں شرارِ ہستئ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے


از خواجہ میر درد
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ فرخ صاحب۔
مطلع میں شاید "تہمتِ" کی بجائے "تہمتیں" ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اس غزل کے مزید تین اشعار:

آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ‌ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے‌کر چلے​
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ فرخ صاحب۔
مطلع میں شاید "تہمتِ" کی بجائے "تہمتیں" ہے۔

فاتح صاحب کتاب میں بھی تہمتِ چند ہی تحریر ہے اور ہمارے نصاب میں بھی یہ غزل شامل تھی اس میں بھی اسی طرح درج تھا اور بہت شکریہ اضافی اشعار کے لئے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بھائی میں تو اسے آج تک 'تہمتیں' ہی سمجھتا رہا لیکن آپ کے سامنے کون کافر زبان کھول سکتا ہے :) بہرحال دیوانِ درد (جیبی :) ) اور نقوش غزل نمبر میں آج رات دیکھونگا!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی میں تو اسے آج تک 'تہمتیں' ہی سمجھتا رہا لیکن آپ کے سامنے کون کافر زبان کھول سکتا ہے :) بہرحال دیوانِ درد (جیبی :) ) اور نقوش غزل نمبر میں آج رات دیکھونگا!

حضور عالیٰ کیوں شرمندہ کر رہے ہیں۔ :) نہ میں فرشتہ کہ غلطی نہ کر سکوں اور نہ کتاب چھاپنے والا فرشتہ :) یہ غزل دیکھ کر ضرور یہیں بتا دیجیے گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین

السلام علیکم

اسی طرح سے ہے ۔


بہت شکریہ سیدہ !

کسی زمانے میں انگریزی میں game کا لفظ پڑھا جو کچھ اور ہی معنوں میں استعمال ہوا تھا۔ فقرہ شاید کچھ یوں تھا۔ then I am the game. مجھے کچھ سمجھ نہ آئی فقرے کی۔ ڈکشنری دیکھی تو پتہ چلا کہ اسکا ایک مطلب غالب کے نخچیر والا بھی ہے۔ یعنی اسکا وہاں مطلب نخچیر تھا۔ کرلپ کی لغت سے چند کا مطلب دیکھا ہے اس میں چند کا ایک اور مطلب بھی ہے۔ جو یوں بیان کرتی ہے۔

چند:
متعلق فعل
1. کب تک، تاکے، تاچند۔
اے صبا غیروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانب گور غریباں بھی کبھی آیا کرے ( 1824ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رامپور)، 88 )
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دلچسپ !

اچھا فرخ بھائی یہ بتائیے گا کہ کیا الفاظ کی اصل بھی درج کی گئی ہے وہاں کہ لفظ / اصطلاح کی اصل کس زبان سے ہے ؟

فارسی میں چند کا استعمال بمعنی قیمت / کتنے / کتنی بھی ہے جیسے اگر کسی چیز کی قیمت معلوم کرنا ہو تو اس طرح :

این کتاب چند گرفتی ؟
(تم نے) یہ کتاب کتنے میں خریدی ؟


این کتاب ، قیمتش چند ست ؟
اس کتاب کی قیمت کیا ہے ؟

 

فرخ منظور

لائبریرین
دلچسپ !

اچھا فرخ بھائی یہ بتائیے گا کہ کیا الفاظ کی اصل بھی درج کی گئی ہے وہاں کہ لفظ / اصطلاح کی اصل کس زبان سے ہے ؟

فارسی میں چند کا استعمال بمعنی قیمت / کتنے / کتنی بھی ہے جیسے اگر کسی چیز کی قیمت معلوم کرنا ہو تو اس طرح :

این کتاب چند گرفتی ؟
(تم نے) یہ کتاب کتنے میں خریدی ؟


این کتاب ، قیمتش چند ست ؟
اس کتاب کی قیمت کیا ہے ؟


جی بالکل درج ہے۔ میں کرلپ کا ٹیکسٹ ہو بہو یہاں نقل کر رہا ہوں۔

چند:
فارسی سے ماخوذ اپنی اصل حالت اور اصل معنی کے ساتھ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت مستعمل ہے۔ گاہے بطور متعلق فعل بھی استعمال ہوتا ہے۔ 1609ء کو "قطب مشتری(ضمیمہ)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
1. کچھ، تھوڑا۔ (غیر معین تعداد کے لیے)۔
 فارغ ہوا رومی سے جو بارہ کو چل دیا
مکہ میں پھر قیام رہا چند روز کا ( 1978ء، صدرنگ، 33 )
2. گُنا (مرکبات میں عدد کے ساتھ مقدار و تعداد ظاہر کرنے کے لیے)۔
"اردو خواں طلبا میں دہ چند اضافہ ہو سکتا ہے۔" ( 1940ء، جائزہ زبان اردو، 315:1 )

متعلق فعل
1. کب تک، تاکے، تاچند۔
 اے صبا غیروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانب گور غریباں بھی کبھی آیا کرے ( 1824ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رامپور)، 88 )

مترادفات
کَئی مُتَعَدَّد قَلِیل مُتَعَدِّد

مرکبات
چَنْد ایک، چَنْد روزَہ، چَنْد شَوہَری، چَنْد لَمْحَہ
 

محمد وارث

لائبریرین
حضور عالیٰ کیوں شرمندہ کر رہے ہیں۔ :) نہ میں فرشتہ کہ غلطی نہ کر سکوں اور نہ کتاب چھاپنے والا فرشتہ :) یہ غزل دیکھ کر ضرور یہیں بتا دیجیے گا۔

اس فرشتوں والی تمثیل میں یہ رہ گیا تھا "تو خدا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" :)

دیکھ لیا ہے حضور، "تہمتِ چند" ہی صحیح ہے!
 

کاشفی

محفلین
غزل
(خواجہ میر درد)
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
دوستو دیکھا تماشہ یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ بھی آڑے آگیا جدھر چلے
جوں شرر اے ہستیء بے بودیاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے
 

کاشفی

محفلین
بہت شکریہ جناب سخنور فرخ منظور صاحب مکمل غزل سے محظوظ کرنے کے لیئے۔۔۔ ٹیگ نہ ہونے کی وجہ کر معلوم نہیں ہوتا ہے کہ جو غزل پوسٹ کرنے لگا ہوں وہ پہلے سے موجود ہے کہ نہیں۔
 
Top