مانی عباسی

محفلین
اسی زمین میں کچھ میں نے بھی لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیوقوفی آج پھر ہم کر چلے
دامنِ دل کو جلا کے گھر چلے

جب کوئی عاشق جھکا کے سر چلے
تب بجھانے کو دیے صر صر چلے

موسمِ چاہت میں بچنا حسن سے
ہم نصیحت بچوں کو یہ کر چلے.

یوں وفا کا نام کیوں اکثر چلے
دیس میں جیسے کہ کھوٹا زر چلے

عشق مانی تم اگر کرتے ہو تو
شیخ صاحب ساتھ ہو کیدھر چلے
 

حسان خان

لائبریرین
"تہمتِ چند" مجھے بیگانہ و نامانوس ترکیب معلوم ہو رہی ہے، کیونکہ میں نے فارسی کسرۂ اضافہ استعمال کرنے والی کسی مشرقی زبان میں کبھی ترکیبِ اضافی میں 'چند' کا ایسا استعمال نہیں دیکھا، بلکہ یہ نامُعیّن مقدار بتانے کے لیے عدد کی طرح ہمیشہ اسم سے قبل استعمال ہوتا ہے: چند کتاب، چند تہمت وغیرہ (اردو کے برخلاف، فارسی و تُرکی میں 'چند' کے بعد آنے والے اسماء مُفرد ہی رہتے ہیں)۔
ایک امکان یہ ہے کہ یہاں میر درد نے 'تُہمتے چند' (فارسی املاء اور ایرانی تلفظ میں 'تُهمتی چند') یعنی 'چند ایک تُہمتیں' استعمال کیا ہو۔ ایسا شیوہ فارسی شاعری میں عام ہے، اور اِس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں:

خلق بر خود تُهمتی چند از تخیُّل بسته‌اند
ورنه سرو آزاد یا قُمری اسیرِ غُل نبود

(بیدل دهلوی)

قندِ آمیخته با گُل نه علاجِ دلِ ماست
بوسه‌ای چند برآمیز به دُشنامی چند

(حافظ شیرازی)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
"تہمتِ چند" مجھے بیگانہ و نامانوس ترکیب معلوم ہو رہی ہے، کیونکہ میں نے فارسی کسرۂ اضافہ استعمال کرنے والی کسی مشرقی زبان میں کبھی ترکیبِ اضافی میں 'چند' کا ایسا استعمال نہیں دیکھا، بلکہ یہ نامُعیّن مقدار بتانے کے لیے عدد کی طرح ہمیشہ اسم سے قبل استعمال ہوتا ہے: چند کتاب، چند تہمت وغیرہ (اردو کے برخلاف، فارسی و تُرکی میں 'چند' کے بعد آنے والے اسماء مُفرد ہی رہتے ہیں)۔
ایک امکان یہ ہے کہ یہاں میر درد نے 'تُہمتے چند' (فارسی املاء اور ایرانی تلفظ میں 'تُهمتی چند') یعنی 'چند ایک تُہمتیں' استعمال کیا ہو۔ ایسا شیوہ فارسی شاعری میں عام ہے، اور اِس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں:

خلق بر خود تُهمتی چند از تخیُّل بسته‌اند
ورنه سرو آزاد یا قُمری اسیرِ غُل نبود

(بیدل دهلوی)

قندِ آمیخته با گُل نه علاجِ دلِ ماست
بوسه‌ای چند برآمیز به دُشنامی چند

(حافظ شیرازی)

محمد وارث

اس شعر میں چند کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟

اے صبا غیروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانبِ گورِ غریباں بھی کبھی آیا کرے
( مصحفی)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اپنی نافہمی کی بنا پر طالب علمانہ سوال ہے کہ کیا "اُدھر" کا وزن درست بیٹھ رہا ہے؟ اس کی بجائے "اودھر" درست معلوم ہوتا ہے۔
محمد وارث محمد تابش صدیقی
یہ غزل 1988 میں اردو کے کورس میں پڑھی تھی آج بہت خوب تازہ ہوئی ۔
اٹھارہویں صدی میں ایدھر اور اودھر عام الفاظ تھے۔اور یہاں بھی اودھر ہی استعمال ہوا ہے۔
فرخ منظور بھائی کا شکریہ ہمیشہ کی طرح شاندار انتخاب۔ درد کو بھی سلام و درود۔
 
شکریہ حضور۔ لیکن اگر یہ زحمت کی ہے تو اصل کتاب سے دیکھ کر غزل بھی مکمل کر دیجیے ورنہ میں کسی وقت یہ کام کر ہی ڈالوں گا۔
یہ جو ربط آپ نے دیا ہے، اس پر مکمل ہے؟
ابھی تو دفتر سے واپسی کے راستہ میں ہوں، اگر مجھے پہلے وقت مل گی تو میں کر دوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"تہمتِ چند" مجھے بیگانہ و نامانوس ترکیب معلوم ہو رہی ہے، کیونکہ میں نے فارسی کسرۂ اضافہ استعمال کرنے والی کسی مشرقی زبان میں کبھی ترکیبِ اضافی میں 'چند' کا ایسا استعمال نہیں دیکھا، بلکہ یہ نامُعیّن مقدار بتانے کے لیے عدد کی طرح ہمیشہ اسم سے قبل استعمال ہوتا ہے: چند کتاب، چند تہمت وغیرہ (اردو کے برخلاف، فارسی و تُرکی میں 'چند' کے بعد آنے والے اسماء مُفرد ہی رہتے ہیں)۔
ایک امکان یہ ہے کہ یہاں میر درد نے 'تُہمتے چند' (فارسی املاء اور ایرانی تلفظ میں 'تُهمتی چند') یعنی 'چند ایک تُہمتیں' استعمال کیا ہو۔ ایسا شیوہ فارسی شاعری میں عام ہے، اور اِس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں:

خلق بر خود تُهمتی چند از تخیُّل بسته‌اند
ورنه سرو آزاد یا قُمری اسیرِ غُل نبود

(بیدل دهلوی)

قندِ آمیخته با گُل نه علاجِ دلِ ماست
بوسه‌ای چند برآمیز به دُشنامی چند

(حافظ شیرازی)
اردو میں بھی 'معدودے چند' کا استعمال رائج ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے

دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے

آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے

ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے

شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے

ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے

ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے

جوں شرر اے ہستیٔ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

خواجہ میر درد
 
Top