صرف علی
محفلین
تیراہ: ’نقل مکانی کا راستہ بھی نہیں رہا‘
ولی خان شینواری
خیبر ایجنسی
میں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں پرائمری سکول کا ایک طالب علم ہوں اور تیراہ کے علاقے اکاخیل میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ ہمارے ہاں نہ نقل مکانی کا راستہ موجود ہے اور نہ ہی یہاں رہنے کی سہولت ہے‘۔
’میں تیراہ میں جاری آپریشن کے دوران بمباری سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی مجھے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی فکر ہے تاہم اگر میری موت واقع ہوئی تو صرف اور صرف فاقہ کشی کی وجہ سے ہوگی‘۔
یہ بات خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے پرائمری سکول کے ایک طالب علم محمد نواز نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بتائی۔
محمد نواز کے مطابق تیراہ میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے شدید جھڑپوں کے باعث علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اب بھی سینکڑوں افراد گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تیراہ میں اشیائے خورد ونوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جبکہ تمام تعلیمی ادارے اور بازار بند ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو چکی ہے جبکہ مقامی افراد عسکریت پسندوں کے خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں موجود عینی شاہد زیبر خان اور عثمان خان کے مطابق تیراہ میں ہر طرف گولہ باری، بھاری ہتھیاروں اور بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر مرد اور خواتین نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے متاثرہ افراد کی تنظیم کے چیئرمین محبت آفریدی کے مطابق تیراہ سے اب تک 70000ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں مگر ان کی بحالی کے لیے حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ انتہائی دور افتادہ علاقہ ہے جہاں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق تیراہ میں حکومتی رٹ بحال کرنے اور عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
خیال رہے کہ خیبر ایجنسی میں لشکر اسلام اور انصارالاسلام کے جنگجوؤں کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک دونوں جانب سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130410_tirah_valley_student_rwa.shtml
ولی خان شینواری
خیبر ایجنسی
میں خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں پرائمری سکول کا ایک طالب علم ہوں اور تیراہ کے علاقے اکاخیل میں پھنس کر رہ گیا ہوں۔ ہمارے ہاں نہ نقل مکانی کا راستہ موجود ہے اور نہ ہی یہاں رہنے کی سہولت ہے‘۔
’میں تیراہ میں جاری آپریشن کے دوران بمباری سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی مجھے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی فکر ہے تاہم اگر میری موت واقع ہوئی تو صرف اور صرف فاقہ کشی کی وجہ سے ہوگی‘۔
یہ بات خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے پرائمری سکول کے ایک طالب علم محمد نواز نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بتائی۔
محمد نواز کے مطابق تیراہ میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان گزشتہ کئی دنوں سے شدید جھڑپوں کے باعث علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اب بھی سینکڑوں افراد گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تیراہ میں اشیائے خورد ونوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے جبکہ تمام تعلیمی ادارے اور بازار بند ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیراہ میں روزمرہ کی زندگی مفلوج ہو چکی ہے جبکہ مقامی افراد عسکریت پسندوں کے خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں موجود عینی شاہد زیبر خان اور عثمان خان کے مطابق تیراہ میں ہر طرف گولہ باری، بھاری ہتھیاروں اور بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر مرد اور خواتین نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ کے متاثرہ افراد کی تنظیم کے چیئرمین محبت آفریدی کے مطابق تیراہ سے اب تک 70000ہزار افراد نقل مکانی کر چکے ہیں مگر ان کی بحالی کے لیے حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ انتہائی دور افتادہ علاقہ ہے جہاں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق تیراہ میں حکومتی رٹ بحال کرنے اور عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔
خیال رہے کہ خیبر ایجنسی میں لشکر اسلام اور انصارالاسلام کے جنگجوؤں کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اب تک دونوں جانب سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130410_tirah_valley_student_rwa.shtml